میں جو کبھی تھی، اب ہوں اور رہوں گی جب تک مجھے تخلیق کرنے والا چاہے گا۔ میں کوئنہ ملک ہوں۔
میں فقط اک خیال تھی، اک سوچ تھی مگر پردہ اسرار میں تھی۔ پھر اک دن میرے تخلیق کار کے ذہن نے مجھے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مجھے خیال سے نکال کر ورق پہ لے آیا، فقط اک سوچ سے مجھے مصنفہ بنا دیا۔ میرے الفاظ، میرا بیانیہ، میری کہانی؛ سب ہے مگر میرے تخلیق کار اور اس کے مشروب کی مرہون منت ہے۔ اب وہ باتیں جو وہ نہیں کہ پاتا، ججھک یا خوف کے مارے، میں کہوں گی۔ ویسے بھی جب میں کہوں گی تو اس سماج، جس کے حواس پہ عورت سوار ہے، جو عورت کو فقط مظلوم دیکھنا پسند کرتا ہے تاکہ اس پر رحم کھائے، تو مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔
جب میں چھپی تو حسب توقع کامیاب ٹھہری۔ یہ سوچنے کی فرصت کسے ہے کہ میرے بیان کردہ واقعات میں حقائق کا جھول باآسانی پکڑا جا سکتا ہے۔ کسے پرواہ کہ اک پسماندہ سے ضلع کی عورت کمنٹس میں امریکی انگلش کیسے بولتی ہے۔ میرا ہونا، میرا رونا؛ قاری کی عقل پہ بھاری ہے۔ پڑھیے اور ہمدردی کیجیے، اس سماج کو، مذہب کو، مرد کو گالی دیجیے۔
میرا تخلیق کار سمجھدار ہے۔ میں جو کل تک کہیں نا تھی اب یکدم ہر جا ہوں۔ میرا فیس بک پیج بھی بن گیا ہے، دو تین تصاویر بھی مل گئی ہیں اور سب مشتاق ہیں کہ کب میں ان سے دوستی کروں۔ کچھ لوگ شک کرتے ہیں کہ یوں یکدم اسرار سے حقیقت بن جانا کیسے ہوا، مگر اس مردوں کے ظالم سماج میں سوچنے والے کی کس نے سنی ہے۔ مجھے یقین ہے میرا تخلیق کار مجھے رفتہ رفتہ یوں مضبوط کرتا جائے گا کہ میں اس جتنی ہی بڑی دانشور اور جیتی جاگتی بن جاؤں گی۔
ارے آپ بور ہو گئے۔ یقین کیجیے یہ عنوان فقط آپ کی توجہ کھینچنے کا ہنر ہی نہ تھا، یہ تو پہلی تحریر ہے اور فقط تعارف کرانا بہتر سمجھا۔ آنے والے دنوں میں میں شوہر کے ستم، بیٹیوں کے کرم، ڈارک ویب سے لے کر مدرسے کے مولوی تک کی کہانی سناوُں گی، آپ کے من چاہے الفاظ میں۔ آپ میرے الفاظ کے کوئلوں سے اپنے ہاتھ جلا جلا کر سسکیاں بھریں گے مگر اف بھی نا کریں گے۔ بس اپ جڑے رہیے اور دعا کیجیے کہ میرا تخلیق کار میرا کردار زندہ رکھے۔
آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی ’بت کوئی خدا یاد نہیں
آپ کی،
کوئنہ ملک!
Facebook Comments
الفاظ اور نام تو بلاشبہ توجہ کھینچ لاے