• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • متحدہ مجلس عمل اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

متحدہ مجلس عمل اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

امت مسلمہ پچھلی کئی صدیوں سے محکومی کا شکار ہے، اس سے بہت سے بیماریاں مسلم معاشروں کا حصہ بن گئی ہیں، ان میں سے ایک فرقہ واریت ہے۔ فرقہ واریت نے مسلم معاشروں کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں مختلف مسالک صدیوں سے آباد ہیں۔ باہمی طور پر بھائی چارے کی فضا قائم تھی، ایک دوسرے کی تقریبات میں آنا جانا تھا بلکہ ایک دوسرے کی مدد کی جاتی تھی۔ اب یہ بات عجیب لگتی ہے مگر کسی دور میں ایسا ہوتا تھا اور اب بھی بعض جگہوں پر ایسا ہوتا ہے۔ امام حسینؑ کے جلوس کی حفاظت اور اس کے راستے میں اہلسنت سبیلیں لگاتے، اسی طرح 12 ربیع الاول کے جلوسوں میں نہ صرف شیعہ شریک ہوتے بلکہ اس کے انتظامات میں بھی شامل ہوتے۔ 1970ء تک علمی مباحثے عام سی بات تھی، کئی بار ایسا ہوا کہ ایک ہی بس میں بیٹھ کر شیعہ سنی علماء آئے، بحث کی اور واپس بھی ایک ہی بس میں چلے گئے۔ احترام سے بات ہوتی تھی، لوگ سنتے تھے اور پھر ایسے اٹھ کر چلے جاتے تھے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کسی کا دین خطرے میں نہیں پڑتا تھا، نہ ہی علمی بحث پر گستاخی کے فتوے لگتے تھے اور علماء بھی اپنے مخالف کی رائے کو انتہائی شائستہ انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد ایک ایسے سیاہ دور کا آغاز ہوا، جس میں بات کرنا تو دور کی بات، اس بات پر ہی ہزاروں لوگوں کا قتل کر دیا گیا کہ ان کا مسلک اور تھا، وہ اسلام کی تعبیر اور انداز میں کرتے تھے۔ پچھلے چالیس سال سے اس فکر کی اس قدر آبیاری کی گئی کہ دو نسلیں اسی کے تحت پروان چڑھیں۔ پورے ملک کی دیواریں مدمقابل پر کفر کے فتووں سے سیاہ کی گئیں، کسی کو گستاخ رسولﷺ کہہ کر مارا گیا اور کسی کو مقدس ہستیوں کا گستاخ قرار دے کر اور پھر بدلے میں خون بہا۔ نفرت پر کاشت ہوئی یہ فصل درسگاہوں میں داخل ہوئی، جہاں کا ماحول آلودہ کرنے کے بعد معاشرے میں داخل ہوگئی۔ جہاں پر ان فرقہ پرست لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں پر بہت ستم ڈھائے۔ مجھے یاد ہے کہ جب متحدہ مجلس عمل بنائی گئی تو میں شائد گورنمنٹ کالج کا طالب علم تھا، والد صاحب مرحوم اس کے ضلعی عہدہ دار تھے اور ہفتے میں ایک دن مجلس عمل کے آفس جایا کرتے تھے۔ مجلس عمل سے پہلے وہ صرف شیعہ قائدین کی باتیں کرتے تھے، مگر مجلس عمل کے قیام کے بعد قاضی حسین احمد، شاہ احمد نورانی اور دیگر قائدین کے نام بھی تواتر سے لینے لگے۔ جب مجلس عمل نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو والد صاحب نے ہمارے حلقے کے ایم ایم اے کے امیدوار کی بھرپور حمایت کی، دن رات ان کے لئے مہم چلائی، درحالانکہ وہ امیدوار دوسرے مسلک کے تھے۔

یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملے، جن کا اس سے پہلے تصور کرنا محال تھا کہ شیعہ دیوبندی کی اور دیوبندی شیعہ کی اور بریلوی اہلحدیث کی اور اہلحدیث بریلوی کی کمپین چلا رہے تھے۔ تمام مسالک کے علماء کبھی شیعہ درسگاہ میں اجلاس کر رہے ہیں اور کبھی دیوبندی درسگاہ میں پہنچے ہوئے ہیں، کھانا اہلحدیث مسجد میں ہے تو چائے بریلوی مدرسہ میں ہے۔ اس آنے جانے نے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھ کے علاقے کندھ کوٹ کے ایک وکیل نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں متحدہ مجلس عمل کا جلسہ ایک ایسے مدرسہ میں رکھا گیا، جو دوسرے مسلک کے لوگوں کو کافر کہا کرتے تھے اور ان کے مدرسہ سے جاری ہوئے وہ فتوے لوگوں کے پاس موجود تھے۔ مجلس عمل کا سب سے بڑا کام یہی تھا کہ اس نے ایک دوسرے سے کٹے لوگوں کو جوڑ دیا۔ نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب یہ قول بہت معروف ہے “اختلاف امتی رحمۃ” میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کالج میں پڑھتے ہوئے جب میں نے یہ قول سنا تھا تو میری سمجھ میں نہیں آیا تھا، کیونکہ میں اس کا نقیض نکال کر دیکھ رہا تھا، اگر امت کا اختلاف رحمت ہے تو کیا اس کا اتحاد و اتفاق زحمت ہوگا؟؟؟ کئی جوابات وقت کے ساتھ ساتھ علماء سے سنے کہ اس اختلاف سے مراد علماء کا اختلاف ہے یا اس سے مراد فقہی اختلافات کا وہ حصہ ہے، جو معاشرے میں توسیع کا باعث بنتا ہے، مگر بات پلے نہیں پڑتی تھی۔ ایک دن درس تفسیر میں استاد محترم نے بغیر پوچھے اس بات کی وضاحت کر دی کہ اس حدیث کی سند درست نہیں اور اگر اس کو نظر انداز کرکے صرف متن کو دیکھا جائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں اس پر متوجہ ہوا کہ کیسے مسئلہ نہیں ہے؟ انہیں نے فرمایا اختلاف کا اردو والا معنی نہ لیں بلکہ عربی والا معنی مراد لیں، عربی میں اختلاف کا معنی آنا جانا کے بھی ہیں، جیسے نبی اکرمﷺ کے گھر کو مختلف الملائکہ کہا گیا ہے، یعنی ملائکہ کے آنے جانے کی جگہ اور قرآن میں آیا ہے “اختلاف اللیل و النھار” دن اور رات کا آنا جانا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ذرا حدیث کو دیکھیں تو معنی بہت واضح ہیں کہ “اختلاف امتی رحمۃ” کہ میری امت کا آنا جانا رحمت ہے اور یہ بات بالکل درست ہے، ایک دوسرے کے پاس آنا جانا رحمت ہے، جو غلط فہمیوں کے ازالے، کدورتوں کے خاتمے، نفرتوں کی بیج کنی اور بھائی چارے کا باعث بنتا ہے۔ جب مجلس عمل بنائی گئی تھی تو بھی یہ کہا گیا تھا کہ یہ اتحاد اسلام کے لئے نہیں بلکہ اسلام آباد کے لئے ہے اور آج بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ اتحاد اسلام آباد کے لئے ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اس وقت اس اتحاد کا الیکشن کے بالکل قریب آکر فعال ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے اور رکن جماعتوں کے پیش نظر کئی مقاصد میں سے اہم مقصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام کے سامنے اپنا ایجنڈا رکھ کر ووٹ لینا ہر جماعت اور اتحاد کا حق ہے۔ میرے نزدیک متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں میں اتحاد و وحدت کی عملی کوششوں کو ایک مشن کے طور پر اختیار کرنا ہے۔ اللہ کے بندوں کو باہمی مسلکی اور مذہبی لڑائیوں سے نکالنا ہے اور جھوٹ اور بہتان کی بنیاد پر غیر مسلموں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والوں کا محاسبہ کرنا ہے۔ آج ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر کوئٹہ تک اس پورے خطے میں کئی انسانی جانیں فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، ان سلسلوں کو روکنا ہے۔ پاکستان میں کچھ خطے ایسے ہیں، جہاں فرقہ پرستوں نے ذہنوں کو بہت زہر آلود کر دیا ہے، ایسے خطوں کی نشاندہی کرکے وہاں خصوصی طور پر کام کرنا، جس سے نفرتوں کی جگہ دلوں میں محبتوں کا بسیرا ہو جائے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply