نواز شریف اور ان کے بچوں کا مستقبل ۔۔محمد علی میو

شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بادشاہ اپنی رعایا سے غافل تھا۔ بے انصافی اور ظلم کا عادی تھا۔ اس وجہ سے ملک تباہ و برباد تھا اور عوام مسائل کا شکار تھے۔ ایک روز وہ کم فہم اور ظالم بادشاہ اپنے دربار میں فردوسی کی مشہور رزمیہ نظم شاہنامہ سن رہا تھا۔ بادشاہ ضحاک اور فریدوں کا ذکر آیا تو اس نے اپنے وزرا سے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ضحاک جیسا بڑا بادشاہ اپنی سلطنت گنوا بیٹھاؤ اور فریدوں ایک بڑا بادشاہ بن گیا۔ جب کہ اس کے پاس نہ لاؤ لشکر تھا اور نہ بڑا خزانہ ؟ ایک دانا وزیر بولا بادشاہ سلامت اسکی وجہ یہ تھی کہ فریدوں خلق خدا کا خیر خواہ اور ضحاک لوگوں پر ظالم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ضحاک کو چھوڑ کر فریدوں سے جا ملے اور وہ بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی، لشکر اور عوام کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات سن کر بادشاہ وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے جیل خانے بھجوا دیا۔ کچھ ہی دن بعد کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بادشاہ کے بھائی بھتیجوں نے بغاوت کر دی۔ اور رعایا بھی انکی طرف دار ہو گئی۔ کیونکہ ہر شخص بے تدبیر بادشاہ کے ظلم سے پریشان تھا۔ شیخ سعدی وضاحت کرتے ہیں کہ جو شخص ظالم، جابر اور مغرور ہو جائے۔ وہ اپنی سلطنت خود ہی اپنے ہاتھ سے گنوا دیتا ہے اس کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔

راقم نے  ایک  تقریباً ایک سال قبل لکھے ایک  کالم میں پیش گوئی کی تھی کہ عدالت وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کر دے گی، پھر ان پر کیسز بنیں گے اور 2017 کے آخر میں ان کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہو جائے گا۔

اپنے کالم میں راقم نے یہ بھی کہا تھا کہ عدالت اور دیگر ادارے شریف فیملی کو اپنا مؤقف واضح کرنے کا بھرپور موقع دینگے۔ لیکن بالآخر ان نواز شریف اور ان کے بچوں کو پابند سلاسل ہونا ہی پڑے گا۔ اور نواز شریف کا نام پاکستان کی سیاست میں ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ تقریباً ایک سال کے عرصے میں اس تجزیے کی زیادہ تر باتیں درست ثابت ہو چکی ہیں۔ اورامید ہے کچھ رواں سال کے آخر تک پوری ہو جائیں گی۔

کہتے ہیں کہ ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے۔ لیکن عقل مند ان غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے اور ان کو دہراتا نہیں۔ جبکہ بے وقوف شخص بار بار انہی غلطیوں کو دہراتا ہے اور اپنی طاقت کے نشے میں اگلی بار اس سے بھی زیادہ گہری دلدل میں دھنستا ہے۔ نواز شریف 38 سال سے سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں۔ صوبائی اور قومی سطح پر 5 بار صاحب اقتدار رہے۔ ہر بار اپنی غلطی سے عہدہ گنوایا اور جب عہدے سے الگ ہوئے تو خود کو سدھارنے اور ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کا عزم کیا۔ لیکن جونہی دوبارہ اقتدار میں آئے پھر غلطیاں دہرانے والی پرانی روش۔

پہلے اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کے مقابلے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی آپشن موجود تھی۔ کیونکہ وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک مقبول شخصیت تھیں۔ 1999 کے بعد جنرل پرویز مشرف نے تین اور پھر 2008 کے بعد پیپلز پارٹی نے دو وزیراعظم بدلے لیکن کوئی بھی عوام میں مقبول نہ ہوسکا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کا کوئی متبادل نہ تھا۔ چنانچہ 2013 الیکشن کے بعد نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بنے۔ لیکن اس بار بھی انہوں نے اداروں کو آئین اور قانون کے بجائے اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق چلانا چاہا۔ جس کے باعث اسٹیبلشمنٹ کا ان سے اعتماد کم ہوتا گیا۔ 38 سال میں نواز شریف نے تو اپنی عادات نہ بدلیں لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رویہ بدل لیا۔ اور نواز شریف پر ہمیشہ کیلئے اپنا اعتماد ختم کر دیا۔

اس بداعتمادی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کی صورت میں ایک اچھا متبادل موجود ہے جو عوام میں بھی مقبول ہے جبکہ شہباز شریف بھی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بُک میں شامل رہے ہیں اور اس بار قومی سطح پر قیادت کیلئے رضا مند بھی نظر آرہے ہیں۔ دوئم یہ کہ نواز شریف اپنی صاحب زادی مریم نواز کو اپنا جاں نشین بنانا چاہتے ہیں۔ مریم نواز کی قیادت پر مسلم لیگ ن کے اندر بھی دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا ان کے ماتحت کام نہیں کرنا چاہتا جبکہ دوسرا پوری طرح راضی ہے۔ ڈان لیکس سمیت بعض ایسے فیصلے جن کی وجہ سے نوازشریف کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی، ان کے پیچھے اصل میں مریم نواز ہی کا ہاتھ تھا جس کی وجہ سے اسٹیمبلشنٹ بھی کافی ناراض نظر آئی۔

درست کہا جاتا ہے کہ اولاد بھی ایک امتحان ہے۔ میاں محمد شریف مرحوم ایک باکمال شخصیت تھے جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کرکے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم تک بنوا دیا۔ لیکن اس حوالے سے میاں نواز شریف اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ ان کے دونوں صاحب زادے سیاسی طور پر بالکل ہی ناموزوں ہیں۔ جبکہ انہوں نے اپنی صاحب زادی مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنایا لیکن مریم نواز سے بھی کچھ ایسے فیصلے ہو گئے،جن کی وجہ سے نواز شریف کو بالواسطہ یا بلا واسطہ وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ یہی نہیں مریم نواز کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے اندر ایک خاموش لاوہ پک رہا ہے جو کبھی بھی ابل سکتا ہے۔ ایک اکثریتی دھڑا ان کو اپنا اگلا پارٹی قائد دیکھنے پر رضا مند نہیں۔

ایک تو مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں دوسری جانب نواز شریف بھی اداروں کے مخالف بیانات کی بھرمار کیے جا رہے ہیں۔ جس کے نتائج ان پر مزید منفی ہو کر ہی مرتب ہونگے۔ اور حالات و واقعات اور نیب کیسز سے بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کو تمام تر مزاحمت کے باوجود جیل کا منہ دیکھنا ہی پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دنیا نیوز!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply