دنیا کا سب سے بڑا خطرہ۔۔عالم نقوی

فی زمانہ اسرائل اور ان کے سبھی ظاہر و خفیہ دوست ہی پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ ہم بعض روحانی ہستیوں  کے بعض غیر روحانی اور غیر عَلَوی سیاسی فیصلوں سے بھی نا  خوش ہیں نا متفق کیونکہ صحیح کام بھی اُسی وقت پوری طرح صحیح ٹھہرتے ہیں جب وہ صحیح وقت اور صحیح موقع  پر صحیح طریقے سے انجام دیے جائیں چہ جائیکہ ایسے کام اور ایسے فیصلے جو ظاہراً بھی قرآن و سنت کے خلاف ہوں ! لیکن، اس کے باوجود، حقیقت یہی ہے کہ آج دنیا میں ایران ہی وہ ملک ہے جس سے کم از کم مستضعفین فی ا لا رض کی اکثریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مسلم ممالک اگر، اسرائل اور اُس کے لیے ’حَبلُ مِّنَ ا لنّاس ‘بنے ہوئے مغربی ملکوں کی حاشیہ برداری کے بجائے، ایران سے تعاون کریں تو حالات میں فوری طور پر مثبت تبدیلیوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن المیہ تو یہی ہے کہ سعودی عرب، ایران اور ترکی وغیرہ سبھی عربی و عجمی مسلم ممالک کو اُمت ِمسلمہِ عالَمیاں کے اِجتماعی مفاد سے زیادہ اپنے اپنے محدود سیاسی، نسلی، مسلکی اور علاقائی مفادات زیادہ عزیز ہیں ۔ شام و یمن کے موجودہ اندوہناک، شرمناک اور حد درجہ عبرت خیز حالات اس کا ثبوت ہیں ۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی کی تھی کہ۔ ۔ ’’ اگر فی ا لواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبر اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی کبھی اہل ِایمان کے مقابلے میں کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے۔ مگر ان میں سے بیشتر لوگ فاسق ہیں ۔ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو، جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ اُن میں عبادت گزار عالِم اور تارک ُ ا لدُّنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرور ِ نفس نہیں ہے ‘‘(المائدہ۔ ۸۱۔۸۲)
اس لیے جو لوگ اللہ، اس کے نبی ﷺ اور کتاب (قرآن ) کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرتاً یہود و مشرکین کے مقابلے میں اُن لوگوں سے زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہباً اور مسلکاً بھلے ہی باہم کچھ اختلاف رکھتے ہوں لیکن ایک اللہ، ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں ۔ یہ روش تو یہود کی ہے کہ وہ خود اہل کتاب ہونے کے باوجود توحید اور شرک کی جنگ میں مشرکین اور منکرین نبوت کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اگرخود کو مسلمان کہنے والے بھی یہی روش اختیار کریں اور اس پر نادم، شرمندہ اور تائب ہونے کے بجائے بار بار اُسی روش کا اِعادہ کریں اور اسلام کے دشمنوں اور مسلمانوں کے قاتلوں سے دوستی کریں تو وہ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ از روئے قرآن وہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کس انجام کے مستحق قرار پاتے ہیں !
جبکہ قرآن انہیں یہ بھی وارننگ دے چکا ہو کہ۔ ۔’’اور یاد کرو اللہ کی اُس نعمت کو جو تمہیں مل چکی ہے اور اُس میثاق (عہد )کو جو اُس نے تم سے لے رکھا ہے یعنی تمہارا یہ قول کہ’ ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ‘۔تو اللہ سے ڈرو جو اُسے بھی جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے۔ اور اے اہل ایمان ! اللہ کے لیے راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف ہی سے پھر جاؤ۔ عدل کرو۔ کہ یہی خدا ترسی سے زیادہ قرب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ کہ جو کچھ تم کرتے پھرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے (المائدہ ۸۔۷)‘‘
اور ’’اے ایمان والو ا اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے ۔ ۔(ممتحنہ ۱۳)‘‘
اور قرآن نے حق و باطل کی تلبیس سے بھی سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کیونکہ حق میں باطل کی آمیزش اُسے مشکوک بنا دیتی ہے اور باطل میں حق کی ملاوٹ سےاُس کا ظاہر خوش نما ہو جا تا ہے۔ ’ دہشت گردی کے خلاف لڑائی‘ اور’ دہشت گردوں کے خلاف اتحاد کے معاہدے ‘فی زمانہ تلبیس حق و باطل کی بدترین مثالوں میں سرِ فہرست ہیں ۔ جن دو گروہوں کو قرآن نے اہل ایمان کا سخت ترین دشمن قرار دیا ہے اگر وہ دونوں ’’دہشت گردوں کے خلاف اتحاد ‘‘کا دم بھریں اور’’ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے معاہدے ‘‘کرتے پھریں تو اِن اَفعال کے لیے ’تلبیس حق و باطل ‘کے سوا اور کوئی اصطلاح ہمیں نہیں معلوم۔
افتخار گیلانی نے اپنے تازہ ترین ویکلی کالم میں لکھا ہے کہ
’’مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۲ میں سرینگر کی جامع مسجد میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر (رہبرمعظم ) آیت اللہ خامنہ ای کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا اُن کا خطبہ سننے کے لیے عوام کا اژدہام اُمنڈ آیا تھا (لیکن ) ۱۹۹۱ میں جب اُس وقت کے وزیرَ خارجہ اِندر کمار گجرال تہران کے لیے اُڑان بھرنے ہی والے تھےتو ایران نے اچانک، عین موقع پراُن کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔کیوں ؟ صرف اس لیے کہ سرینگر میں سکیورٹی دستوں نے اس دن فائرنگ میں کئی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا ! مگر صرف تین سال بعد ہی مارچ ۱۹۹۴ میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی اُس قراداد کو، وعدہ کرنے کے باوجود، اپنی ’غیر حاضری ‘ سے ناکام بنا دیا تھا جس کے پاس ہوجانے کی صورت میں سلامتی کونسل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف، اِقتصادی پابندیوں کے نفاذ کا قوی امکان تھا۔ مگر وزیر خارجہ دنیش سنگھ کو بسترِ مرگ سے اُٹھا کر نہایت خفیہ طریقے سے، کہ پاکستان سمیت او آئی سی کے کسی ممبر مسلم ملک کو اس کی بھنک بھی نہیں لگ سکی ، تہران لے جایا گیا اور اُنہوں نے کچھ ایسے وعدوں کے عوض جو بھارت نے کبھی پورے نہیں کیے ایران کو اقوام متحدہ کے مذکورہ اجلاس سے غیر حاضر رہ کر قرارداد کو ویٹو کرنے پر راضی کر لیا۔
حالانکہ صرف ایک ہفتہ قبل ہی نئی دہلی میں ایرانی سفیر متعین ہند نے کشمیری لیڈروں کو اپنی رہائش گاہ پر ایک پر تکلف دعوت کے بعد یہ باور کرایا تھا کہ ’’مظلوم مسلمانوں کی حمایت ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے ‘‘!
اِس تاریخی بد عہدی کے بعد سے ’’مظلوم مسلمانوں کی حمایت ‘‘ایران کے لیے اپنے مخصوص مفادات کی حفاظت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ہو سکتا ہے کہ ایران نے فروری ۲۰۱۸ میں حکومت ہند کواپنا ’احسان ‘ یاد دلاتے ہوئے اُس کےمارچ ۱۹۹۴ کے وعدوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرائی ہو! لیکن کیا نسل پرست صہیونیوں کے دوستوں اور با لخصوص اُس جماعت کے لوگوں سے، جس کی بنیاد ہی پیدائشی تفوق پر یقین رکھنے والی مخصوص نسل پرستی اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہو، کسی خیر کی امید کی جا سکتی ہے ؟
ان تمام تلخ نوائیوں کے باوجود ایران اور ترکی کا ریکارڈ، بہ حیثیت مجموعی،کم از کم سعودی عرب سےتو کئی گنا بہتر ہے۔ لیکن سعودی عرب میں بھی موجودہ مُسرِف و مُترِف قارونی حکمرانوں سے قطع نظر ایسے عناصر موجود ہیں جو اگر اقتدار میں آجائیں تو ایران اور ترکی وغیرہ کے ساتھ مل کر فوری طور پر صرف عالم ِاِسلام ہی کی کایا پلٹ نہیں دنیا کے تمام مظلومین و محرومین و مستضعفین کی صلاح و فلاح کی راہ ہموار کر سکتے ہیں جو وقت کی اولین ضرورت ہے جسے وقت کے غالب و حاکم قارونوں اور مفسدین فی ا لارض نے مطلق نظر انداز کر رکھا ہے۔ کیونکہ اسلام خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ! میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں نہیں کچھ اور تری راہ کے سوا معلوم ! فھل من مدکر !
بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply