پاکستان کیخلاف ایٹمی جنگ کی دھمکی
ٹی ایچ بلوچ
جنوبی ایشیا میں جوہری توانائی کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر جوہری حملے میں پہل کرسکتا ہے، اگر نئی دہلی کو اسلام آباد سے حملے کا خطرہ ہوا تو وہ اس پر پہلے حملہ کرسکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں جنوبی ایشیا پر جوہری حکمت عملی کے ماہر ویپین نارانگ نے واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی ترک کرسکتا ہے، کارنیگی انٹرنیشنل نیوکلئییر پالیسی کانفرنس 2017ء کے موقع پر نارانگ کا کہنا تھا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پاکستان کو پہل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس خبر پر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے، بھارت کے ایسے کسی بھی عمل کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ویپن نارنگ نے کہا کہ بھارت نئی پالیسی کے تحت پاکستان کے تمام ایٹمی ہتھیار ختم کر سکتا ہے، بھارت اب پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے اور بھارت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے، بھارتی ایٹمی حملے روایتی نوعیت کے نہیں بلکہ پاکستان کو اس کے ایٹمی ذخائر سے مکمل طور پر محروم کرنے کے لئے ہونگے، پاکستان کی جانب سے جوابی حملے سے بھارتی شہر غیر محفوظ ہو جائیں گے۔
پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا ہے کہ پاکستان کا دفاعی نظام بہت مضبوط ہے، منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بھارت پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، ویپن نارنگ بھارتی نہیں، امریکی شہری ہوگا، اس کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، بھارتی حکومت کا بیان آئے گا تو ہماری پالیسی بھی تبدیل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی نظام بھارت سے بہتر اور ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان کے اعلٰی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے ایٹمی اوّلین مکمل حملے (First Strike) کی پالیسی بدلنے کا عندیہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ فرسٹ سٹرائیک نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی۔ خالص فوجی اصطلاح میں اس کا مطلب فقط ایٹمی حملہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ حریف کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ ہے کہ وہ جوابی وار نہ کر سکے۔ امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک کو یہ استعداد حاصل نہیں۔ بھارت کے باب میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کھلے آسمان تلے کسی ایک جگہ نہیں رکھے کہ فضا سے آگ برسا کر تباہ کر دیئے جائیں۔ وہ جمی جڑی حالت میں بھی نہیں بلکہ پرزوں کی شکل میں مختلف مقامات پر چھپائے گئے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر جنہیں تیزی سے جوڑا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی ہیں، جو گاڑیوں میں ادھر ادھر لے جائے جا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ میزائل، جو متنوع فاصلوں تک مار کرنے کے لئے مہیا ہیں، توپوں اور آبدوزوں سے بھی پھینکے جا سکتے ہیں۔ بھارت اس طرح کے چھوٹے ہتھیاروں سے محروم ہے اور اس قدر ان سے خوف زدہ کہ پاکستان پر حملہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بھارت کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی میں تخریب کاری کر سکتا ہے یا آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچا سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان ہتھیار چھپا کر رکھنے کی اہلیت Stealth Technology کا حامل ہے۔ 1999ء میں، جب بھارت نے دس لاکھ فوج پاکستانی سرحدوں پر لا کھڑی کی تھی، جنگ کے امکان سے خوفزدہ امریکیوں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی میزائل کہاں نصب ہیں۔ وہ اس میں ناکام رہے۔ امریکیوں نے تب بھارت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے سے گریز کرے، درآں حالیکہ پاکستان اور امریکہ میں افغانستان کے حوالے سے کشیدگی پائی جاتی تھی۔ سی آئی اے کے سربراہ دہلی گئے تھے۔ بھارتیوں سے انہوں نے کہا تھا کہ درجنوں ایٹم بم پاکستان کے پاس رکھے ہیں۔ اگر اس نے فیصلہ کر لیا تو پرزے جوڑ کر یلغار کریں گے اور بھارت کو اڑا کر رکھ دیں گے۔
1969ء میں پاکستان کے توسط سے امریکہ چین مفاہمت کا ایک سبب یہ تھا کہ غیر معمولی بالاتری کے باوجود واشنگٹن پر چین کے خلاف فرسٹ اسٹرائیک کی صلاحیت نہ ہونے کا انکشاف ہوگیا تھا۔ صدر نکسن نے پینٹاگان سے سوال کیا تھا کہ کیا ضرورت پڑنے پر چین کی ایٹمی صلاحیت کو ہم ختم کر سکتے ہیں۔؟ امریکی جنرلوں اور ماہرین کا جواب یہ تھا کہ ہرگز اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ چین کے پاس کتنے ہتھیار ہیں اور کہاں کہاں رکھے ہیں۔ امریکہ کے مسلسل دباؤ ڈالنے پر صرف 48 گھنٹے قبل شمالی کوریا نے دھمکی دی ہے کہ اس پر ایک گولی بھی چلائی گئی تو ریاست ہائے متحدہ کو وہ ایٹم بموں سے اڑا دے گا۔ امریکہ کے بس میں ہوتا تو کوریا کے خلاف وہ فرسٹ سٹرائیک کا موقعہ استعمال کرتا۔ 6 جنوری 2016ء کو انڈی پینڈنٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 93 فیصد جوہری ہتھیار امریکہ اور سویت یونین کے پاس ہیں، جبکہ چین کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد امریکہ کے برعکس ہزاروں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہے۔ اس کے باوجود اس کے خلاف فرسٹ اسٹرائیک کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ گذشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں جب سوویت یونین اور مغرب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے تھے تو فرانس کے صدر ڈیگال نے جنگ کی صورت میں کمیونسٹ حریف کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا، اگر وہ پڑوسی ملکوں، مثلاً جرمنی پر یلغار کرتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح 1989ء میں برطانوی وزیرِاعظم خاتونِ آہن مارگریٹ تھیچر نے ماسکو میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ چھوٹے ملکوں کا دفاع ایٹمی ہتھیاروں ہی سے ممکن ہے۔
معروف تجزیہ نگار ہارون الرشید کے مطابق ایک سابق پاکستانی جنرل نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی قیادت ایسے موقع پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھی رہتی ہے۔ وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف لاہور میں کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے کہ دونوں آلو گوشت کھاتے ہیں۔ حالانکہ ہندو سرے سے گوشت کھانا ہی پاپ سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ دونوں کے درمیان بس ایک لکیر (سرحد) آگئی ہے، ورنہ تو دونوں ایک ہی ہیں۔ 2011ء کی انتخابی مہم میں مظفر آباد میں میاں صاحب نے اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں پر اتنے مظالم بھارت نے نہیں ڈھائے، جتنے کہ پاکستانی فوج نے۔ بدقسمتی سے وزیرِاعظم پاک فوج کو ناپسند کرتے ہیں۔ بھارت کی انتہا پسند اور پاکستان دشمن قیادت اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ لیکن فوجی سول تعلقات کی خرابی کے تنہا ذمہ دار نواز شریف نہیں، مارشل لاء نافذ کرنے والے جنرل بھی ہیں، خود کو جو آسمانی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں، فوجی قیادت اب مصالحت کی طرف مائل ہے، اگرچہ نواز شریف اس کا فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ وہ بھارت کی طرف سے پاکستانی عوام کا حوصلہ تباہ کرنے کی کوششوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ہمیشہ ہر حال میں صلح اور تجارت کا علم اٹھائے رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی ترجیح کے مطابق ایک لحاظ سے تو یہ درست ہے کہ اس طرح پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والی ریاست کے طور پر پیش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو اسکا شدید نقصان ہوتا ہے کہ بھارتیوں کو نفسیاتی بالاتری حاصل ہو جاتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری ان سے بھی گئے گزرے ہیں، انہوں نے یک طرفہ طور پر اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان بھارت پر کبھی ایٹمی حملہ نہ کرے گا۔ گویا وہ بھارت کو پیغام دے رہے تھے کہ اگر روایتی فوجی کارروائی سے پاکستان کو نقصان پہنچے، تب بھی اپنے دفاع کی یہ تدبیر وہ استعمال نہ کرے گا۔ جنرلوں نے اس بیان کو غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نسبتاً چھوٹے ملک کیلئے اس طرح کے اعلانات سازگار نہیں ہوتے۔ بڑے حریف کو اسے خوف زدہ رکھنا ہوتا ہے، تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے، تاکہ ملک محفوظ رہے۔ دفاعی معاملات میں عمران خان سمیت اکثر لیڈروں کا رویہ سطحی ہے، جو کشمیر کی جدوجہد آزادی اور بھارت کے جارحانہ عزائم کو نظر انداز کرتے ہیں۔ چوتھی بڑی پارٹی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین تو اس حد تک چلے گئے کہ را سے سازباز کر لی۔ ان کے ساتھیوں نے ہرگز کوئی مزاحمت نہیں کی، بلکہ ان کے وطن دشمن بیانات کی تاویل کرتے رہے، تاآنکہ پاگل پن کا شکار ہو کر خود ہی وہ بے نقاب ہوگئے۔1987ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے مدراس میں جسے اب چنائے کہا جاتا ہے، راجیو گاندھی کو اس وقت ایٹم بم استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی، جب براس ٹیک مشقوں کے پردے میں انہوں نے پاکستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس وقت جنرل کی دھمکی اور آئی ایس آئی کی غیر معمولی کارکردگی نے پاکستان کو جنگ سے بچا لیا تھا۔ بھارتیوں نے اپنے منصوبے کو بدل کر اپنی فوج کو ایک سے دوسری جگہ حرکت دی، لیکن ہر کہیں انہوں نے پاکستانی فوج کو سامنے پایا۔ بھارت میں پاکستان کا جاسوسی نظام اس قدر موثر تھا کہ جب دو بار اسرائیل نے کہوٹہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو بروقت بھارت میں اسرائیلی طیاروں کا سراغ لگا کر تل ابیب کو بتا دیا کہ انجام خطرناک ہوگا۔ دونوں بار یہ پیغام اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں موجود اسرائیل کے نمائندے کو دیا گیا، جو ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتا ہوا پروگرام ہے۔ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد بھارت سے زیادہ ہے اور ان کا معیار کہیں بہتر ہے۔ میزائل کا بھی، جو امریکہ کے بعد سب سے بہتر مانا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کا کارنامہ ہے۔ میزائل پروگرام کو جنرل عبد الوحید کاکڑ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی عملی پشت پناہی حاصل تھی۔ میزائل پروگرام میں محترمہ نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا، جس طرح کہ ا نکے والد نے ایٹمی پروگرام میں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انہی کے ایما پر پاکستان آئے تھے۔ انہی نے غیر معمولی یادداشت کے حامل اور بے پناہ ریاضت کرنے والے اس سائنس دان کو غیر معمولی اختیارات دیئے۔ ایٹمی پروگرام کے اوّلین دو عشروں میں غلام اسحٰق خان کا کردار بھی اہم رہا۔
پاکستانی سائنس دانوں کی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والی ٹیم انہیں باپ کا درجہ دیتی تھی۔ وہ کسی بھی پاکستانی صدر اور وزیراعظم کے مقابلے میں ایٹمی پروگرام کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اس کے تکنیکی پہلوؤں کو بھی۔ بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان سے ساڑھے چھ گنا زیادہ ہے، 51 بلین ڈالر۔ بھارتی فوج کی تعداد پاکستان سے دو گنا ہے، دو طرح سے مگر پاکستان کو برتری حاصل ہے۔ پاکستان کی فوج جذبہء شہادت سے سرشار ہے اور تربیت میں بھارتی فوج سے اعلٰی تر ہے۔ اس میں کوئی بھگوڑا نہیں ہوتا اور کبھی کوئی خودکشی نہیں کرتا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں مذہبی لیڈروں، مثلاً سید منور حسن کی جانب سے فوج کے لئے حوصلہ شکن بیانات کے باجود پاک فوج میں کبھی خودکشی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اس طرح دنیا بھر میں حالتِ جنگ میں یہ اپنی نوعیت کی واحد فوج ہے۔ 22 جولائی 2014ء کو شائع ہونے والی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں 597 بھارتی جوانوں اور افسروں نے خودکشی کی۔ یعنی سالانہ 120، خودکشی کی کوشش میں ناکام ہونے اور ساتھیوں کو زخمی کرنے والے ان میں شامل نہیں۔ دسمبر 2015ء میں این ڈی ٹی وی نے خبر جاری کی کہ بھارتی حکومت کے اعدا د و شمار کے مطابق 2015ء میں خودکشی کرنے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 69 رہی۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی ہی نہیں، جہاں پاکستانی جوانوں کی زندگیوں کو خطرہ ہوتا ہے، 22 ہزار فٹ بلند سیاچن گلیشئیر پر بھی وہ رضا کارانہ جاتے ہیں، جہاں بھارت سے بڑا دشمن ہمہ وقت موجود رہتا ہے، ہڈیوں کا گودا جما دینے والی ٹھنڈ۔
اسی طرح پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیار (Tactical Weapons) خاص اہمیت کے حامل ہیں، انہی کی وجہ سے پاکستان پر اچانک حملہ کرکے کسی چھوٹے سے علاقے پر قبضہ کرنے کی بھارتی حکمتِ عملی سرد آغاز (Cold Start) بروئے کار نہ آسکی۔ بھارتی اس ہتھیار سے خوف زدہ ہیں۔ تیس چالیس کلومیٹر میں موجود ہر شے کو یہ ہتھیار جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔ پاکستانی علاقے میں در آنے والی بھارتی فوج کے خلاف اگر یہ ہتھیار برتا گیا تو پاکستان کو ویسی ملامت کا سامنا بہرحال نہ ہوگا، جو آج کی دنیا میں ایٹم بم برتنے پر ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت بار بار واضح کر چکی کہ پاکستانی سرحدوں کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ اعلٰی فوجی افسروں کا کہنا یہ ہے کہ چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں اور شاہین تھری میزائل کے بعد بھارت اب خواب ہی میں پاکستان کو فتح کر سکتا ہے۔ چھ ماہ قبل بحرِ ہند میں ایک آبدوز سے بابر نامی کروز میزائل فائر کرکے پاک فوج یہ پیغام دے چکی ہے کہ خدانخواستہ ایٹمی حملہ ہوا تو خشکی ہی نہیں، سمندر سے بھی پاکستان جواب دے سکتا ہے۔ جوہری میدان میں بھارت اپنی بہترین کوشش بروئے کا رلا رہا ہے، مگر اس کے پاس پاکستان کے پائے کے سائنس دان موجود نہیں۔ بھارتیوں کو میزائل کا ٹھوس ایندھن بنانے میں پانچ سال لگے۔ پاکستانی سائنس دانوں نے سوا دو سال میں ٹھوس ایندھن والا میزائل مکمل کر دیا تھا۔
اسوقت فرسٹ سٹرائیک نہ کرنے کی حکمتِ عملی ختم کرنے کا اشارہ دیکر بھارت نے اپنی پوزیشن خراب کر لی ہے۔ اب یہ سوال اٹھے گا کہ کیا اس درجہ غیر ذمہ دار جوہری ریاست نیوکلئیر سپلائرز گروپ کی ممبر بننے کا استحقاق رکھتی ہے۔؟ چین پہلے ہی سے اس تجویز کا مخالف ہے اور پاکستان بھی۔ امریکہ اس پر پاکستان سے ناخوش ہے۔ گذشتہ برس اس سلسلے میں کی جانے والی پہل آگے نہ بڑھ سکی تھی۔ اسی طرح اب MTCR نامی تنظیم میں بھی اس کی شرکت پر اعتراضات اٹھائے جائیں گے، اکتوبر 2016ء میں، جس کا وہ حصہ بھی بن چکا ہے۔ الٹا اس دھمکی سے پاکستان کے حق میں فضا بہتر ہوگی۔ نریندر مودی اگر اس پالیسی کا اعلان کر دیتے ہیں، تو بھارت کے بارے میں پاکستانی موقف کی اور بھی پذیرائی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک ذمہ دارانہ جوہری ریاست کے طور پر پاکستان کا تاثر بھارت کے مقابلے میں مزید بہتر ہوتا جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں