سناٹا۔۔قراۃ العین حیدر

“لو یہ کھا لو۔”
“یہ کیا ہے؟ ”
“Safety measure”
“اس کا مطلب ہے کہ تم نے پھر کوئی احتیاط نہیں کی”۔
“نہیں۔۔۔۔۔ اگر احتیاط کے بارے میں سوچتا تو اتنا پرسکون کیسے ہوتا”
“اگر مجھے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔” اس نے جملہ ادھورہ چھوڑدیا ۔
“کچھ نہیں ہوگا میری جان you know love has no boundaries ”
“اور اگر میں یہ دوائی نہ کھاؤں تو۔۔۔۔۔”
اس نے جملہ پھر ادھورہ چھوڑ دیا اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی۔ ”
دوائی تو تمہیں لینی ہی ہوگی نہیں تو میں اور تم کسی پرابلم میں آسکتے ہیں۔”
” ہم اس پرابلم کا حل نکال سکتے ہیں”
“کیا؟ ”
“ہم پیپر ورک کرلیتے ہیں ۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔”
“زارا۔۔۔۔ پلیز ساری سیچوئیشن تمہارے سامنے ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے میری فیملی مجھے گھر سے نکال دے گی۔ تم جانتی ہو میرے دو بچے اور ایک بیوی بھی ہے۔ مگر میں کیا کروں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔ نہ ان کو اپنی زندگی سے نکال سکتا ہوں ۔۔۔۔ نہ تمہیں ”
اس نے خاموشی سے گولیاں نگل لیں اور بال باندھنے لگی۔ “نکلنا کب تک ہے؟”
“چلے جاتے ہیں میں ذرا روم سروس کو چائے کا کہہ دوں۔ تم  بستر تھوڑا ٹھیک کرلو” ۔ یہ کہہ کے وہ ملحقہ غسل خانے میں چلا گیا۔
زارا کچھ بیزاری سے بستر کی سلوٹیں ٹھیک کرنے لگی جو چیخ چیخ کر ان کی کارروائی بیان کررہا تھا۔ یہ کوئی پہلی بار تھوڑی تھا۔۔۔۔ اور اب تو اس کے ضمیر نے ملامت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ اب ایک عادی مجرم بن چکی تھی۔۔۔ اسے فائز سے محبت تھی اور مہینے میں ایک آدھ بار ملنے کی عادت ہوچکی تھی۔ یہ نہیں تھا کہ فائز اس کو استعمال کررہا تھا مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود شادی شدہ تھا دوسری بیوی افورڈ تو کرسکتا تھا لیکن دوسری شادی کا ارادہ نہیں۔

زارا ایک متوسط گھرانے کی لڑکی تھی۔ بی اے کے بعد پرائیویٹ دفتر میں نوکری کررہی تھی۔ وہ دو بہنیں ہی تھیں اور بیوہ ماں۔ عام سی شکل اور متوسط طبقے  کی لڑکیوں کے رشتے کرنے آسان تھوڑی ہوتے ہیں ۔ ماں نے کئی پاپڑ بیلے عزیزوں رشتہ داروں میں، رشتے والیوں کے چکر میں لیکن غریب کی عام سی بیٹی کا رشتہ کون لیتا ہے؟ وہ چپ ہورہی اور کسی خدائی معجزے کا انتظار کرنے لگی۔ فائز سے اس  کی شناسائی ایک کلائنٹ کے طور پہ ہوئی۔ اچھی شکل، امارت اور تعلیم نے اسے تہذیب یافتہ کی کیٹیگری میں رکھا تھا۔ پہلے کچھ عرصہ بےتکلفی رہی پھر وہ محبت میں بدلی اور اسے پتا ہی نہ چلا وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کی داشتہ بن گئی ۔ کیسا لفظ ہے سوچ کے ہی گِھن آتی ہے لیکن اس کی بھی تو کوئی ضروریات تھیں ۔۔۔۔۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہم آج بھی انسانوں کی جسمانی ضرورت میں بھوک، پیاس، آرام کے ساتھ جنسی آسودگی کو نہیں گنتے۔
یہ سلسلہ لگ بھگ دو سال سے چل رہا تھا۔۔۔ پہلے تو احتیاط چلتی رہی لیکن اب گزرتے وقت کے ساتھ زارا نے بھی عام عورتوں کی طرح   احتیاطی ادویات کا استعمال شروع کردیا تھا۔ وہ بوقتِ ضرورت دوائیاں لیتی اور ان کے مسلسل استعمال نے اس کے سراپے پہ اثر ڈالنا شروع کردیا تھا۔ کئی بار خود کو لعنت طعن کرتی لیکن فائز کی آغوش میں آتے ہی بھول جاتی کہ اس کی کچھ سماجی اور مذہبی اقدار ہیں۔ یہ سچ ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن محبت کسی کا دل بھی توڑتی ہے، کسی کا گھر بھی اجاڑتی ہے اور کسی کی زندگی بھی برباد کرتی ہے۔ وہ یہ سوچتی ضرور تھی لیکن فائز کا خیال آتے ہی دل و دماغ کچھ بھی ماننے سے انکار کردیتا تھا۔
فائز کا حال زارا سے کچھ مختلف نہ تھا، اس کی شادی اپنی ماموں زاد سے ہوئی تھی۔ باپ اور ماموں دونوں کا سانجھا کاروبار تھا اور وہ اس اکیلا وارث۔ زندگی پرتعیش گزر رہی تھی جس کا وہ اتنا عادی تھا کہ چاہتے ہوئے بھی دوسری شادی کے خیال کو مسترد کردیتا تھا۔ اس چھپ چھپیتی محبت کے سائڈ افیکٹ اب اس کی زندگی پر اثر ڈالنے لگے تھے۔ زارا کی جسمانی آسودگی کے ساتھ ساتھ وہ اس کی فائنینشل ضرورتوں کا بھی ہر ممکن خیال رکھتا۔ اس نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ اس کو کوئی قیمت ادا کررہا ہے بلکہ جس طرح وہ اپنی بیوی کیلئے ضروریات فراہم کرتا اسی طرح زارا کو بھی پورا کرتا۔ دل اسے زارا کو اپنانے کی ترغیب تو دیتا لیکن دماغ اسے معاشرے میں کوئی مقام دینے سے انکاری تھا۔ جبکہ پچھلے تین سالوں میں زارا کی نظر میں اس کی حیثیت ایک شوہر کی سی تھی، وہ جو کہتا مان لیتی ۔ اسے اس تعلق سے تو نفرت تھی جو معاشرے کی نظر میں گالی تھا لیکن فائز کی محبت میں ڈوب کر اس کے اندر ماں بننے کی خواہش مچلنے لگی۔ وہ اشاروں کنایوں میں اپنے دل کی بات فائز کو بتانےکی کوشش کرتی لیکن ابھی تک اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
اکثر فائز یہ سوچتا کہ یہ کیسی اذیت ہے کہ اس کی بیاہتا بیوی دو بچے ہوجانے کے باوجود اسے ذہنی اور جسمانی طور پر آسودہ نہیں کرسکی جبکہ زارا اسے کتنا پرسکون کردیتی ہے اگرچہ نہ تو وہ بیوی جتنی خوبصورت ہے اور نہ ہی دولتمند ۔ خوبصورتی کا یہ فاسق معیار تو ہم لوگوں نے بنا رکھا ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں ناسور بن کے پھیل رہا ہے۔ اور اب وہ اور زارا ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم بن چکے تھے وہ اگر شادی کر بھی لے تو اس کے گھر والے اس کے دشمن ہوجائیں گے۔ اور عین ممکن ہے کہ عاق ہی نہ کردیں اور یہ خطرہ وہ مول لینا نہ چاہتا تھا۔
ہمیشہ کی طرح زارا راستے میں ہی ایک جگہ گاڑی سے اتر گئی اور مارکیٹ کی طرف مڑ گئی سامنے کے ایک سٹور سے اس نے ضرورت کا کچھ سامان خریدا اور باہر آکر گھر کیلئے رکشہ کروالیا تب تک فائز گاڑی میں وہیں رکا ہوا اس کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ آج معمول سے جلدی آگئی تھی چھوٹی بہن صحن میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی اور ماں نماز پڑھ رہی تھی۔ گھر میں موجود دونوں عورتوں کو اس کے دفتر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں انہیں بس اتنا ہی علم تھا کہ دفتر شہر میں فلاں جگہ پہ ہے۔ دفتر کے ٹائمنگ یہ ہیں اور اتنی تنخواہ ہے۔ اس نے ماں سے پکانے کے بارے میں پوچھا اور بینگن آلو کاٹنے لگی۔ ہر بار فائزسے ملنے کے بعد وہ کچھ جھجکتے ہوئے گھر آتی چور نظروں سے بہن اور ماں کو دیکھتی کہ کہیں اس کی چوری پکڑی نہ جائے۔ اور پھر گھر کے کام کاج بڑھ چڑھ کر کرنے لگتی گویا اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہو۔
وہ آج دفتر سے کچھ جلدی گھر آگیا تھا گھر میں ملازمہ کے علاوہ صرف بچے تھے جو اپنے کھیل میں مگن تھے۔ اس کا خیال تھا کہ ماں اور بیوی یا تو شاپنگ پہ یا کسی عزیزوں کے ہاں گئی ہوں گی۔ اس نے اپنی بیوی کو کبھی کسی بات سے منع نہ کیا تھا۔ کچھ دیر میں بیوی اور امی آگئیں۔ اس کی بیوی کچھ نڈھال لگ رہی تھی اور اس کی حالت یہ بتا رہی کہ گھر میں نئے مہمان کی آمد متوقع ہے۔ گھبراہٹ میں وہ بیوی کو بیٹھنے میں مدد کرنے لگا اور یہ سوچ رہا تھا کہ وہ زارا میں اس قدر کھو گیا ہے کہ اسے اپنے گھر کے حالات کا ہی علم نہیں۔ اس کی ماں نے دوائیوں کا لفافہ بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ملازمہ کو فریش جوس لانے کا کہا۔ “دیکھو بیٹی ۔۔۔۔۔ تمہیں اپنا خیال خود رکھنا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان میں دل لگاؤ اور فائز تم دفتر کے علاوہ بیوی کا بھی خیال رکھو۔ بچے سے زیادہ ماں کی صحت کی فکر کرو۔” وہ چونک گیا کہ یہ کب ہوا؟ وہ لاعلم کیوں تھا۔ ماں کے کمرے سے جانے کے بعد اس نے بیوی سے پوچھا “تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟” “فائز آپکو بتایا تو تھا جب آپ چائنہ جارہے تھے”۔ وہ کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔ “یار وہ میرا خیال تھا کہ ابھی وقت ہے”۔ ثمن نے شکوہ کرتے ہوئے کہا “تین مہینے ہی تو رہ گئے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بار بھی ڈاکٹر کے پاس  آپ ساتھ نہیں گئے”۔ “نہیں یار اگلے وزٹ پر میں ساتھ چلوں گا۔۔۔ تم فکر نہیں کرو۔” بیوی کو مطمئن کرکے وہ بچوں کو دیکھنے دوسرے کمرے میں جارہا تھا کہ ماں نے آواز دے کر بُلا لیا۔ “دیکھو فائز ۔۔۔ثمن کا خیال کرو ۔ اس حالت میں زیادہ کئیر کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے خوش رکھو کاروباری مصروفیات کی وجہ سے تم بالکل توجہ نہیں دیتے لیکن اب بچے کی پیدائش تک اسے ٹھیک سے ٹائم دو ۔” ماں کی نصیحت سن کر وہ کچھ پریشان ہوگیا۔ اسے کیسے بھول گیا کہ اس کا تیسرا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہےاور اس کی بیوی اگرچہ کہ ڈاکٹروں پر خود ہی چلی جاتی تھی لیکن اس کا خیال کرنا تو بنتا ہے۔ یا وہ زارا کی محبت میں اتنا کھو گیا کہ اسے یاد ہی نہ رہا کہ گھر میں کوئی اور بھی ہے جو اس کی محبت کا اس سے کہیں زیادہ حقدار ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  لاوارث۔۔قراۃ العین حیدر/افسانہ

دن بڑے عجیب سے گزررہے تھے دن دفتر میں گزر جاتا اور باقی وقت بیوی کا خیال رکھنے میں۔ وہ خاصا بیزار ہورہا تھا کہ ویک اینڈ پہ بیوی بچوں کے ساتھ میکے چلی گئی تو اس نے زارا کے ساتھ پلان بنا لیا۔ وہاں وہی سکون تھا وہی آسودگی تھی وہی محبت تھی۔ لیکن اس کے کندھے سے سر ٹکائے وہ کسی ادھیڑبن میں تھا زارا نے بہت پوچھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے لیکن خاموش رہا۔ اس کے اندر ایک ہیجان برپا تھا ثمن اور زارا کے بارے میں۔۔۔۔۔۔ دل زارا کی جانب امڈتا لیکن ذہن دل کی نفی کرتا اور ثمن کی جانب مائل ہونے کی کوشش کرتا۔ اسی کشمکش میں چند دنوں بعد وہ کاروباری سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا۔
آج فائز کو باہر گئے تقریباََ مہینہ ہوگیا تھا۔ زارا اداس تھی اسے یاد کررہی تھی اور پچھلے کچھ دن سے بات بھی نہیں ہوئی تھی۔ اصل بےکلی تو کسی اور بات کی تھی۔ اس بار فائز کو یاد نہ رہا اور زارا نے جان بوجھ کر دوائی نہ کھائی۔ اسے معاملہ کچھ گڑبڑ لگ رہا تھا اور ارادہ تھا آج گھر واپسی پر ٹیسٹ کروانے جائے گی۔
وہ دفتر سے کچھ جلد ہی نکل گئی اور سیدھا لیبارٹری پہنچی۔ سپاٹ چہرے والے لیب اسسٹنٹ سے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا کہ اسے حمل ٹیسٹ کروانا ہے۔ وہ رات بہت بےچین تھی سپنوں اور خدشات سے بھری۔۔۔۔ اگر ٹیسٹ پازیٹو آگیا تو کیا فائز اس بچے کو قبول کرے گا؟ کیا وہ اس سے شادی کرلے گا؟ اگر اس نے کہا کہ اسے یہ بچہ نہیں چاہئے تو کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنی مامتا کا گلا گھونٹ سکے گی؟ اسی پریشانی میں رات کٹ گئی ۔ اگلے دن ٹیسٹ کی متوقع رپورٹ آئی۔ وہ ماں بننے والی تھی۔۔۔۔ خوشی سے اس کا روم روم ناچ اٹھا۔ سب سے پہلے یہ خوشخبری وہ فائز کو سنانا چاہتی تھی ۔ اچانک ہی اس کا دل ڈوبنے لگا اگر فائز کے آنے سے پہلے اس کی ماں کو پتا چل گیا تو اس کی غیرت مند ماں جیتے جی مر جائے گی۔ رشتہ دار اور محلے والے تو پہلے ہی اتنی باتیں بناتے ہیں کہ دونوں بہنوں کی شادی نہیں ہوئی اور ادھر اگر وہ فائز کے آنے سے پہلے بن بیاہی ماں بن گئی تو کیا ہوگا؟ اچانک ایک امید کی کرن جھلملائی نہیں فائز اتنا ظالم نہیں ہے۔۔۔ اس کے اپنے دو بچے ہیں وہ مجھ پر یہ ظلم نہیں کرسکتا۔ اسے مجھ سے محبت ہے اور وہ اس محبت کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔
بالآخر فائز آہی گیا۔۔۔اس بار اسے عجلت تھی اس نے فوراً ملنے کا کہا۔ فائز تو خود یہی چاہتا تھا ملنا تو ایک بہانہ تھا اس سے زیادہ جسمانی خواہش بےچین کررہی تھی۔ حسبِ سابق جب فائز نے اسے پک کیا تو وہ اسے خوشخبری سنانے کیلئے لفظ بُننے لگی۔ اس نے بہت لاڈ سے کہا ” فائز اگر آپ کے تین بچے ہوں تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟” فائز کے پاؤں بریک پر پڑ گئے اور وہ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا کہ اس کو کس نے بتایا۔ وہ یہ بات ادھوری چھوڑ کر اس کی غیرحاضری میں اپنی کیفیت بتانے لگی۔ اس کے کانوں میں تو گویا شہد انڈیلا جارہا تھا۔ انسان بھی کتنا ظالم ہے اگر کبھی فرد دوسرے کیلئے تڑپتا ہے تو دوسرا ہجر کے بیان پر ہی محبت لُٹا بیٹھتا ہے۔ اس دن بھی یہی ہوا۔ محبت کی تپش میں اس نے اپنا مقصد بیان کرنا شروع کیا۔ ” فائز۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اب شادی کرلینی چاہئے۔” اسے بالکل امید نہیں تھی کہ زارا ڈائریکٹ اسے کہہ دے گی۔ اس سے پہلے تو وہ اشاروں کنایوں میں کہہ چکی تھی، اس لئے وہ تھوڑا ایزی ہی رہا کہ وہ اسے باتوں سے بہلا لے گا۔ “میری جان۔۔۔ پھر شادی کا بھوت سر پہ سوار ہے تمہارے سر پر ۔۔۔ میں تمہیں مل تو لیتا ہوں۔ اور شادی ہے کیا محض کاغذی کارروائی۔۔۔۔ اور تمہاری اہمیت ثمن سے کہیں زیادہ ہے میرے لئے۔ ایسے ہی تم خفا ہوجاتی ہو میں نے تمہیں بہت مس کیا ہر لمحے، ہر پل۔ مجھے ثمن بالکل یاد نہیں آئی، نہ بچے یاد آئے میرے دل میں صرف تم ہی ہو۔” ایک لمحے کیلئے زارا کا دل موم ہوا لیکن اگلے ہی لمحے عشق پر مامتا غالب آگئی اور اس نے پرس سے اپنے ٹیسٹ کی رپورٹ اس کی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے کہہ دیا ” فائز شادی کرنی پڑے گی ہر صورت ميں کیونکہ اب ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے۔”
فائز آنکھیں پھاڑے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جو زارا کو اپنی آغوش میں لینے کیلئے بیقرار تھا یک دم یوں پیچھے ہٹا جیسے کسی ناپاک چیز کو چھُو لیا ہو۔ فائز کے اس ردِ عمل پہ اب دھچکہ زارا کو لگا اور اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنے قدموں پہ کھڑی نہیں رہ سکتی وہ لاچاری سے بستر پہ بیٹھ گئی ۔ اسے متلی محسوس ہورہی تھی اور وہ ملحقہ غسل خانے میں چلی گئی ۔ اس دوران فائز تھوڑا نارمل ہوا اور سوچنے لگا کہ یہ معاملہ آج حل کرکے ہی رہے گا ۔ اب اس نے غور سے زارا کو دیکھا وہ خاصی زرد لگ رہی تھی۔ اسے زارا پر غصے کے ساتھ ترس بھی آیا۔ “اس کا مطلب کہ تم نے دوائی جان بوجھ کے نہیں کھائی؟ کیوں؟ تم میرے حالات سے واقف ہو میں یہ سب افورڈ نہیں کرسکتا۔ ہمیں اس سے جان چھُڑانی پڑے گی پلیز میرا مطلب سمجھو۔ مجھے تم سے شدید محبت ہے لیکن یہ ہم دونوں کیلئے مناسب نہیں ہے۔ اب مجھے بتاؤ تم کسی ڈاکٹر پہ جارہی ہو کہ نہیں ۔” فائز کا رویہ غیر متوقع تو نہیں تھا وہ یہی سوچتی رہی تھی کہ وہ اسے منا لے گی۔
“دیکھو فائز ۔۔۔۔اگر محبت کرنا گناہ ہے تو یہ ارتکاب ہم دونوں نے کیا ہے۔ گناہ ہم دونوں کا ہے تو سزا ہم بچے کو کیوں دیں؟ محبت اور عشق حلال اور پیدا ہونے والا بچہ حرام کا کیوں؟ یہ میری اولاد ہے ۔۔۔۔ میرا سپنا، میرے بڑھاپے کا سہارہ۔۔۔۔ تم مرد کبھی نہیں سوچ سکتے کہ اولاد کیا ہوتی ہے؟ کس اذیت سے ابھی گزر رہی ہوں اور پیدا کرنے تک کتنی اذیت سے گزروں گی تمہیں ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہاری تو اولاد ہے، میری نہیں ہے۔۔۔ میری بار نکاح صرف کاغذی کارروائی رہ گیا۔ تم اتنے کٹھور کب سے ہوگئے؟ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے ۔ تم صرف نکاح کرلو۔ بچے کو میں خود پال لونگی۔”
“دیکھو زارا ۔۔۔۔۔ ابھی میں ایسا کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ایک مسئلے میں پھنسا ہوا ہوں ابھی اس معاملے کو ختم کرو۔” وہ چاہتے ہوئے بھی یہ نہ بتا پایا کہ ثمن بھی ماں بننے والی ہے۔ “تمہیں ہر صورت یہ معاملہ ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں یہ رواج نہیں ہے۔”
“معاشرے میں اگر ایسے بچے کا رواج نہیں ہے تو میرے اور تمہارے رشتے کا بھی رواج نہیں ہے۔ بولو ۔۔۔۔۔ کیا ہوں میں تمہاری؟ کیا لگتی ہوں؟ مزے سارے پورے کئے ہیں اور اب بچہ پیدا ہونے پہ آیا تو ختم کردو۔” اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آج پہلی بار فائز کے آگےاپنے حق کیلئے آواز اونچی ہوگئی ۔ فائز حیران تھا اسے ہو کیا گیا ہے۔ اس نے چادر اوڑھی اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔ چند لمحے وہ ششدر کھڑا رہا پھر اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے زارا ہوٹل کی لابی میں نہیں نظر آئی، اتنے میں وہ لابی کراس کرگیا اور پارکنگ سے باہر نکل کے دیکھنے لگا سڑک پر بھی وہ نظر نہیں آئی۔ اس نے زارا کا نمبر ڈائل کیا فون کاٹ دیا گیا۔ کئی بار اس نے نمبر ڈائل کیا لیکن اس نے فون نہ اٹھایا۔ تشویش دو باتوں کی تھی ایک تو اس کی محبت اسے اولاد کیلئے دھتکار کے چلی گئی تھی اور دوسرا اگر اس بچے کا کوئی بندوبست نہ ہوا تو آفت آجائے گی۔ اب تو کچھ کرنا پڑے گا۔

اس وقت زارا کو اپنے حال پہ چھوڑ دینا ہی بہتر تھا، زرا غصہ ٹھنڈا ہو تو شاید بات مناسب طریقے کی جاسکے۔ شام ڈھلنے کو تھی وہ یہ سوچتے ہوئے گھر پہنچ گیا۔ اسے زارا کا بہت بری طرح خیال آرہا تھا لیکن ابھی وہ غصے میں تھی بات کرنا مناسب نہ تھا۔ وہ اتنا اپ سیٹ تھا کہ اسے کسی بات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اسے یہ فکر ستا رہی تھی کہ اس نے زارا کو تکلیف دی ہے وہ اس سے دور نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن ابھی مجبوری تھی۔ سامنے صوفہ پہ بیٹھی ہوئی ثمن اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کے چہرے کی پریشانی بھانپنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس نے اپنے مسائل کبھی بھی ثمن سے ڈسکس نہیں کئے تھے۔ پچھلے چند سال میں وہ کافی بدل گیا تھا۔ شادی کے شروع میں وہ ثمن کے کافی قریب رہا وہ گھنٹوں باتیں کرتے نہ تھکتے تھے اور لانگ ڈرائیو لمبی واک ان کے شغل تھے۔۔۔۔ بچوں کے بعد ثمن مصروف تو ہوگئی اس وجہ سے اس نے اپنی مصروفیت باہر ڈھونڈنی شروع کردی۔
اس نے اب ٹھنڈے دل سے سوچنا شروع کیا زارا ٹھیک ہی تو کہتی ہے ایسی حالت میں وہ مجھ پہ چیخے نہ تو کیا کرے۔ اس نے بھی یہ جان بوجھ کے تھوڑی کیا ہے۔ وہ مجھے ہمیشہ ہی احتیاط برتنے کا کہتی تھی ۔ بہرحال ابھی معاملہ سلجھانے میں تھوڑا وقت تو لگے گا وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے مان ہی جائے گی۔ یہی سوچتا ہوا وہ کروٹ بدل کے سوگیا۔ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کسی کے کراہنے کی آواز سے کھل گئی ۔ وہ یک دم ڈر گیا تھا کہ کہیں ثمن کی طبعیت تو خراب نہیں۔ لیمپ جلا کر دیکھا تو وہ بے خبر سورہی تھی۔ شاید اس کے لاشعور میں ثمن کی صحت کو لے کر کچھ خدشات تھے۔ وہ سوچنے لگا جو مشورہ زارا کو دیا اگر وہی مشورہ ثمن کو دیتا تو کیا حالات ہوتے۔ لازمی بات وہ دو سے زیادہ بچے پال سکتا ہے آرام و  آسائش کے ساتھ ثمن بھی آنے والے بچے کیلئے اس طرح راضی نہ ہوتی۔ شاید ہم مرد واقعی کٹھور ہوتے ہیں عورتیں سبھی نرم دل کی ہوتی ہیں۔ اس نے بہت خوبصورت رومینٹک سا میسیج زارا کو بھیجا تاکہ کچھ تو غصہ ٹھنڈا ہو۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ زارا نے اس کے کسی بھی میسیج کا رپلائی نہ کیا ہو۔ وہ کچھ مایوس سا ہوگیا۔ لیکن بہرحال اسے منانا تو تھا یہی سوچ کر اس نے کئی  میسیجز بھیجے۔
اگلے دن وہ تھوڑا دیر میں جاگا جونہی موبائل اٹھایا اسے یقین تھا کہ زارا نے اس کے محبت بھرے میسیجز کا ضرور جواب آیا ہوگا۔ لیکن موبائل بھی خاموش پڑا تھا۔ اس کا دل ٹوٹ سا گیا لیکن کوئی بات نہیں آج میں اپنی زارا کو صبح بخیر کا میسیج کردیتا ہوں کیا ہوا اگر آج اس نے نہیں کیا تو۔ لیکن وہ اگلے دس منٹ انتظار کرتا رہا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ وہ بےدلی سا اٹھا اور دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ دن بہت بےدلی سے گزرا اس نے کئی بار کال کی لیکن اس اللہ کی بندی نے فون نہ اٹھایا اس لئے اسے میسیجز کا سہارہ لینا پڑ رہا تھا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ دو دن بعد اسے دفتر میں بیٹھے ہوئے خیال آیا کیا پتا زارا اس کے لاپرواہ روّیے سے دل برداشتہ ہوکر بیمار نہ ہوگئی ہو۔

یہ سوچ کر وہ اس کے دفتر چلا گیا۔ وہ اپنی سیٹ پہ کچھ بیزار بیٹھی نظر آئی، اسے بیٹھا دیکھ کےدل کو سکون سا مل گیا۔ انسان بھی کتنا عجیب ہے بعض دفعہ کسی کی موجودگی ہی دل بہلانے کا سبب بن جاتی ہے اور بعض وہ بدقسمت ہوتے ہیں کہ آپ کے آمنے سامنے اپنی متلاشی نظروں سے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آپ کسی اور میں کھوئے ہوتے ہیں ان پر توجہ نہیں دے پاتے۔ وہ دو ایک لوگوں سے علیک سلیک کے بعد زارا کے ٹیبل پر آگیا اور کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا۔ خلافِ معمول اس نے سلام تو درکنار اس کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اگرچہ   پچھلے چار سال میں زارا نے اس سے ایسا رویہ کبھی نہیں رکھا تھا لیکن ایسے روئیے سے واقف تھا کہ ابھی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ خاموشی سے بیٹھا محبت پاش نظروں سے اسے تکتا رہا۔ اس کا چہرہ خاصا مرجھایا ہوا تھا اور سُوجی ہوئی آنکھیں سارا ماجرہ بیان کررہی تھیں ۔ اس سے خفا ہوکر وہ بھی بےچین تھی، لیکن یہ خفگی بھی اسی لئے تھی کہ محبت کا مان تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے چپڑاسی کو بلایا اور فائز کیلئے چائے لانے کا کہا، بات اس سے پھر نہ کی۔ وہ خاموشی سے بیٹھا چائے پیتا رہا اور سامنے پڑے کاغذ کے پیڈ پر لکھا “میں شرمندہ ہوں ۔۔۔ سڑک کی دوسری جانب گاڑی میں انتظار کررہا  ہوں۔” اور جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اب زارا نے اس کی طرف دیکھا پھر رائٹنگ پیڈ کی طرف اور پھر گھڑی کی طرف ۔ فائز کچھ مطمئن سا کمرے سے نکل گیا۔
دفتر کا ٹائم ختم ہونے کو تھا اس نے ساتھ والی میز پر موجود کولیگ کو جانے کا بتایا۔ میز پر پڑے چند کاغذات اٹھا کر دراز میں مقفل کئے اور باہر نکل گئی ۔ سڑک پار وہ ٹکٹکی باندھے عمارت کے دروازے کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحہ کیلئے زارا کے چہرے پر محبت بھری مسکان آئی لیکن دوسرے ہی لمحے چہرے کے تاثرات سنجیدہ ہوگئے۔ “ہوسکتا ہے یہ آج مان جائے” اس نے پرامید ہوکر سوچا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔ گاڑی میں خاموشی تھی اس نے ایک جوس کارنر کے سامنے گاڑی روک دی اور آرڈر لینے والے لڑکے کو دو فریش جوسز کا آڈر کیا۔ جونہی اس نے جوس کا گلاس زارا کی جانب بڑھایا اس نے انکار کردیا۔ “یہ تمہارے لئے نہیں ہے۔۔۔۔ بےبی کیلئے ہے”۔ اس نے حیرت سے فائز کی جانب دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا۔ کچھ مطمئن سا ہوکے اس نے گلاس تھام لیا۔
“دیکھو زارا۔۔۔۔۔۔ میں اپنی کچھ الجھنوں میں الجھا ہوا ہوں اور تم نے اس دن ایک دم مجھے سرپرائز دیا جس پہ مجھے دھچکہ سا لگا۔ میں ایکسپیکٹ نہیں کر رہا تھا، تم اس دن کے روئیے کیلئے مجھے معاف کردو۔”
زارا خوشی سے سرشار ہوگئی  اور تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی بالکل اسی طرح جیسے محبت کی انتہاؤں میں کوئی عورت اپنے مجازی خدا کو دیکھتی ہے، جس میں وہ عشق چھلکتا ہے جب مخلوق اپنے خالق کے آگے جھک جاتی ہے۔۔۔۔۔ وہ نظر جو حسن و عشق کا مظہر سمجھی جاتی ہے۔ بات کسی حد تک سمٹتی جارہی تھی زارا بے حد مطمئن ہوگئی تھی۔ یہاں سے فارغ ہوکر وہ دونوں پھر سے ہوٹل میں چلے گئے ۔ زارا اب اس انتظار میں تھی کہ فائز مطلب کی بات کرے لیکن وہ فون کال میں مصروف تھا۔
فون سے فارغ ہوکر وہ زارا کی جانب متوجہ ہوا، وہ اسی طرح جانے کن خیالوں میں گم اسی کو دیکھ رہی تھی۔ چند لمحہ کیلئے وہ اپنے حالات بیگانہ ہوگیا اور خود کو دنیا کے خوش قسمت لوگوں میں سمجھنے لگا جس سے محبت کرنے والی بندی اس کے سامنے بیٹھی ہے لیکن اب محبت کا خمار کہ  چند لمحات کے بعد وہ نارمل ہوگیا اور اپنے مقاصد کیلئے لفظوں کے تانے بانے جوڑنے لگا۔ “دیکھو زارا! میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جو ہوا ہے مجھے اس کی امید نہیں تھی۔ تم اچھی طرح جانتی ہو میرے والد اور سسر کا مشترکہ کاروبار ہے اور والد مجھے عاق کردیں گے لیکن میری بیوی بچوں کو تنگی نہیں آنے دیں گے۔ میں تمام عمر تمہیں یونہی چاہتا رہوں گا، میرے وجود پر صرف تمہارا حق ہے لیکن میں دوسری شادی کسی صورت نہیں کرسکتا۔ تمہیں ہر حال میں اس بچے سے جان چھڑانی ہوگی۔” زارا کا  چہرہ پھر سے مرجھا گیا “فائز ۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے صرف اس بچے کو اپنا نام دیدو، تاکہ یہ دنیا میں سر اٹھا کر جی سکے۔ اب جبکہ لگ رہا تھا کہ پہلے وہ غصے سے اسے رام کرنا چاہتی تھی اب وہ محبت، التجا اور مِنت سے ہی اسے منا سکتی تھی۔ فائز کے پاس اب آخری حربہ رہ گیا تھا نہیں تو شاید اس کا دل پھر سے موم ہوسکتا تھا۔ “تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ یہ بچہ میرا ہے؟ کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے؟” اور زارا کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ کھڑے کھڑے گر گئی ۔
اب تو فائز کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے اس نے پانی کا چھڑکاؤ اس کے چہرے پر کیا۔۔۔۔ چند منٹوں بعد وہ ہوش میں آگئی اس نے نفرت سے فائز کا ہاتھ جھٹک دیا۔ “فائز میں نے تم سے محبت کی ہے اسی لئے اپنے نفس کو جھٹک کے تمہیں اختیار دیا۔ تم شاید میری محبت کے لائق نہیں ہو۔ تم جو محبت مجھ سے کرو وہ حلال اور اس محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ حرام۔ بہت انصاف پسند ہو بھئ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔لیکن قصور میرا ہے جس نے اعتبار کیا تم پر، تمہاری محبت پر، اس کی سچائی پر۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ میں نے تمہیں سچے دل سے چاہا ہے۔ اولاد مجبوری نہیں ہوتی، مجبور کردیتی ہے لیکن یہ تمہاری اولاد شاید تم جیسی ہی مطلبی اور بےحس ہوگی۔ اچھا ہوا تم نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی۔” اس کی آواز بھر آئی اور وہ کمرے سے باہر نکل گئی ۔ فائز چند لمحے ساکت کھڑا رہا۔۔۔۔آج یہ معاملہ بھی ختم ہوگیا۔ دل پر بوجھ تھا لیکن اس کو یقین تھا کہ اب زارا لازماً بچے سے چھٹکارہ حاصل کرے گی اور اس معاملے کے بعد وہ پھر اسے منا لے گا۔

وہ انتہائی عجلت میں ہوٹل کی لابی سے نکلی پارکنگ کراس کرکے سڑک پر آگئی۔ سڑک پار کرکے جو پہلا رکشہ رکا وہ اس میں بیٹھ گئی ۔ آنسو تھے کہ  بہتے ہی جارہے تھے۔ اگرچہ   زندگی محرومیوں سے بھری ہوئی تھی لیکن بےقدری کا احساس اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ “باجی کہاں جائیں گی آپ؟ ” اسے یاد آیا کہ رکشہ والے کو بتایا تو ہے نہیں کہ کہاں جانا ہے۔ اس نے رکشے والے کو اپنے گھر کے علاقے کا کہا۔ فائز کے اس روئیے کی اسے توقع نہ تھی کہ وہ بچے کو ماننے سے ہی انکار کردے گا۔ اسے یہ محسوس ہوا کہ وہ کوئی طوائف ہے جسے اپنے بچے کو justify کروانے کیلئے ایک باپ کی ضرورت ہے اور وہ خود یہ فیصلہ نہیں کرپا رہی کہ بچے کا اصلی باپ کون ہے؟ ایسے بچے کے زندہ رہنے کا کیا جواز جسے اس کا وارث ہی قبول نہ کرے۔ یہ خیال آتے ہی اسے خیال آیا کہ جتنا زیادہ وقت ہوجائے گا پیچھا چھڑانا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ اس نے اپنے آنسو پونجھے اور رکشے والے کو قریبی میڈیکل سٹور پر رکنے کا کہا۔ سٹور پر موجود لڑکے کو اسقاطِ حمل کی دوائی کیلئے کہا تو اس نے نسخہ مانگا۔ لیکن نسخہ ہوتا تو دکھاتی۔ وہ بولا ” میڈیم ڈاکٹر کو دکھائیں پہلے دوائی اس طرح نہ لیں۔” وہ مایوس سی سٹور سے باہر نکلی اور ڈاکٹر پہ جانے کے بارے میں سوچنے لگی۔ راستے میں جو پہلا کلینک ملا وہ وہاں چلی گئی ۔
ریسیپشن پہ موجود خاتون سے اس نے لیڈی ڈاکٹر کا پوچھا۔ اس کی راہنمائی میں وہ ڈاکٹر کے کمرے میں چلی گئی ۔ سلام دعا کے بعد ڈاکٹر نے اسے پوچھا اور اس نے جھجکتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ اسقاطِ حمل کیلئے آئی ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا “کیا یہ آپ کا پہلا بچہ ہے؟” اس نے مرے مرے انداز میں کہا “جی”۔ “تو آپ ایسا کیوں چاہتی ہیں؟ اولاد تو نعمتِ خداوندی ہے۔ اگر آپ کو نہیں چاہئے تھی تو پہلے حفاظتی اقدامات کرنے چاہئے تھے۔ بہر حال آپ اپنی رپورٹس دکھائیں۔۔۔۔ کتنے ہفتے ہوگئے ہیں؟ ” وہ آہستہ سے بولی “رپورٹس تو میں لائی نہیں ” اسے آج پتا چلا کہ اس میں ہفتوں کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اسے خاموش دیکھ کے ڈاکٹر پھر بولی ” آپ اپنے ہزبینڈ کے ساتھ آئیں۔۔۔۔ میں ان سے بات کرنا چاہوں گی۔ یہ قتل ہے ہم مسیحا ہیں قاتل نہیں ۔” اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ کل ہی اپنے میاں کے ساتھ آئے گی۔
اب تو وہ مصیبت میں پھنس گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ گھر آئی تو وہاں وہی روٹین تھی۔ چونکہ وقت زیادہ ہوچکا تھا اس لئے ٹیوشن والے بچے جا چکے تھے۔ گھر میں خاموشی تھی۔ وہ بےدلی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور سوچنے لگی کہ کیا کروں؟ کس طرح اس سے نجات حاصل کروں؟ سب سے پہلے اس نے الماری کی مقفل دراز سے اپنی رپورٹ نکالی اور پڑھنے کی کوشش کی ۔ کیلینڈر سامنے رکھ کے ہفتوں کا حساب لگایا تو تقریباً پندرواں ہفتہ بن رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ساڑھے تین مہینے۔۔۔۔۔ اب تو لازماً ہسپتال ہی جانا پڑے گا۔ اس نے سوچ لیا کہ صبح وہ سرکاری ہسپتال چلی جائے گی۔ صبح وہ معمول کے مطابق جاگ گئی  ۔۔۔ دفتر فون کرکے طبعیت کی ناسازی کا بتایا۔ دفتر کے ٹائم پر گھر سے نکلی اور سرکاری ہسپتال چلی گئی ۔۔۔رش نہیں تھا باری جلد ہی آگئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہاں بھی ڈاکٹر نے وہی کہا۔ وہ ڈاکٹر سے التجا کرنے لگی کہ اسے کوئی دوائی لکھ دو اسے یہ بچہ نہیں چاہیے ۔ ڈاکٹر غصے میں آگئی ” بی بی پہلا بچہ ہے اور وہ بھی تمہیں نہیں چاہیے ناشکری نہ کرو۔ ٹائم زیادہ ہوچکا ہے اب دوائی سے کام نہیں چلے گا۔” وہ پریشان سی ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکلی تو  ذومعنی نظروں سے ایک آیا نے اسے اپنی جانب اشارہ کیا۔ “بی بی تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہارا مسئلہ حل کرواتی ہوں”
اسے وہ عورت ایک مسیحا لگی۔۔۔ ہسپتال کے برآمدے سے باہر نکل کے اس نے اسے بتایا کہ اس کی بہن ڈاکٹر ہے اور ان عورتوں کے کیس کرتی ہے جن کو بچہ نہیں چاہیے ہوتا بس تھوڑے پیسے لگیں گے۔ اندھا کیا چاہے آنکھیں ۔۔۔وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔ باہر سے آکر رکشہ لیا چند منٹ بعد وہ ایک چھوٹے سے میٹرنٹی ہوم میں تھی۔ آیا کی بہن ڈاکٹر تو نہیں تھی مڈوائف تھی۔ اس نے پہلی نظر میں ہی جان لیا کہ لڑکی شادی شدہ نہیں ہے۔ “یہ بتاؤ وہ شادی کیوں نہیں کرلیتا تم سے۔۔۔۔” وہ انجیکشن بناتے ہوئے بولی۔ وہ بوکھلا گئی ” نہیں ۔۔۔۔ شادی تو ہوچکی ہے بس اسے بچہ نہیں چاہیے  ۔۔۔اور میں اسے مناتی رہی وقت زیادہ ہوگیا”۔ دیکھو لڑکی میں یہاں یہی کام کرتی ہوں ۔ میرے پاس بہت عورتیں آتی ہیں۔ سولہ سال کی لڑکی سے لے کر پختہ عمر کی عورتوں تک۔ بھاگ تو نہیں گیا؟ ” زارا آنسو پیتے ہوئے بولی “نہیں “۔ “دیکھو ایک چھوٹا سا آپریشن ہوگا اور تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔” اور وہ راضی ہی تھی ۔۔۔ کچھ چیزیں قسمت سے جڑی ہوتی ہیں، ہم چاہ کر بھی وہ نہیں کرسکتے جو ہمارا دل چاہتا ہے۔ ایسے ہی سوچتے ہوئے وہ ذہنی طور پر تیار ہورہی تھی۔ اسے کسی کا کوئی خیال نہیں آرہا تھا اسے صرف یہ خیال تھا کہ فائز نے اس محبت پر بےحسی کی مہر لگائی ہے انجیکشن لگنے کے ایک منٹ کے اندر وہ ہوش سے بیگانی ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیں :  والدین کی ذمہ داریاں۔۔صاحبزادہ امانت رسول
مڈوائف کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا، وہ ایسے درجنوں کیس کرچکی تھی۔ کوئی پچیس منٹ میں وہ فارغ ہوگئی۔ اور ہمیشہ کی طرح اس نے مریضہ کا بلڈ پریشر چیک کیا۔اسے معلوم تھا کہ یہ تقریبا دوگھنٹے تک بےہوش رہے گی۔ لیکن یہ کیا اس کا بلڈ پریشر نیچے جارہا تھا۔ وہ پریشان ہوگئی، اسے لگ رہا تھا کہ معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن مریضہ کو ہوش نہیں آرہا تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ یہ زارا کا فون تھا، مڈوائف نے حوصلہ کرکے فون اٹھا لیا کہ مریضہ کے ساتھ کوئی نہیں ہے اس کے گھر کے لوگوں کو اطلاع تو ہوجائے گی۔ شومئی قسمت زارا کی بہن کا فون تھا مڈوائف نے اسے بتا دیا کہ اس کی حالت خراب ہے وہ آئے اور اسے ہسپتال لے جائے ۔
آدھے گھنٹے کے بعد عائشہ اس کلینک میں داخل ہوئی وہ حیران تھی کہ زارا یہاں کیا کررہی تھی۔ مختصر الفاظ میں مڈوائف اور آیا نے اسے سمجھایا کہ وہ اسقاطِ حمل کروانے آئی تھی اور آپریشن ہوجانے کے بعد بےہوش ہے اور بلڈ پریشر کنٹرول نہیں ہورہا۔ جس رکشے میں وہ آئی تھی اسی میں ڈال کر ہسپتال لے گئی ۔ ہسپتال والوں نے کوشش تو کی پر زارا جانبر نہ ہوسکی۔ اور عشا  کے وقت انتقال کرگئی۔ معاملہ کیا تھا؟ عائشہ کو مکمل حالات کا علم تو نہیں تھا لیکن اس نے اپنے منہ کو بند رکھنا  ہی مناسب  سمجھا۔ اسی میں ان کی بھلائی تھی اور یوں بھی بدنامی تو ایسے بھی سات پشت تک ساتھ دیتی ہے۔ اس نے ماں کو بھی یہی کہا کہ صبح دفتر جاتے ہوئے اس کو دل کا دورہ پڑا اور شام تک انتقال کرگئی۔ آج کل کے دور میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ کوئی عزیز رشتہ دار پوچھتا۔ غربت، تنگدستی، شادی کا نہ ہونا لوگ افسوس ہی کرتے رہے اور زارا اپنی بےحس محبت کے ہاتھوں منوں مٹی تلے دفن ہوگئی۔
آج زارا سے ملاقات ہوئے تقریباََ ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔ فائز نے پہلے سوچا کہ اسے کال کرکے حالات معلوم کیے  جائیں پھر سوچا کہ بہت دن ہوگئے ہیں جاکر شکل ہی دیکھ لوں۔پتا  نہیں کیسی ہوگی؟ پتا نہیں اب تک جان بھی چھُڑائی ہے کہ نہیں؟ یہ سوچتے ہوئے وہ اس کے دفتر پہنچ گیا۔ اس کی سیٹ خالی تھی ، اس کے دل میں کچھ اطمینان سا ہوا کہ اگر وہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ کام ہوگیا ہے۔ اس نے اس کے کولیگ سے استفسار کیا تو معلوم ہوا۔ اسے ایک دھچکہ سا لگا، وہ دفتر آرہی تھی راستے میں ہارٹ اٹیک ہوا اور اسی دن انتقال ہوگیا۔ یہ اس سے ملاقات کے اگلے دن کی بات تھی۔ بہت دیر تک زارا کا کولیگ اس کی باتیں کرتا رہا کہ اچھی اور شریف لڑکی تھی اللہ کی رضا تھی وغیرہ۔ کچھ دیر بعد اس کے  دل میں پچھتاوے کا شدید احساس ہوا اس نے پوچھا کہ اس کو بتادیں کہ زارا کو دفنایا کہاں گیا ہے؟ تاکہ وہ فاتحہ پڑھ دے۔
قبرستان وہاں کے مکینوں کی کم مائگی کا تاثر دے رہا تھا ۔ اس نے قبروں پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے ایک گورکن کو پوچھا کہ پانچ دن پہلے زارا نام کی لڑکی کو دفنایا گیا ہے۔ گورکن نے اس قبر تک اس کی راہنمائی کردی۔ وہ لڑکی جس نے اس کو آسودہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس نے اپنی روایت، خاندان، عزت اور مذہب کو اس کی محبت پر قربان کردیا آج اس قبر میں دفن تھی۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے اس کے الفاظ خنجر بن کر اس دل کو لگے اور وہ اس کی بےاعتنائی کو سہہ  نہ سکی۔ انسان کتنا ظالم اور مطلبی ہے کہ ہر ایک کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ وہ روتا رہا، اس سے معافیاں مانگتا رہا لیکن وہاں کون تھا جو معاف کرتا۔۔۔۔ وہ بار بار سرگوشیوں میں اس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرتا لیکن پچھتاوے کے الفاظ اتنے ہی بےمول تھے جتنی اس کی محبت۔ اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی، دیکھا تو گھر سے فون تھا۔
“فائز ثمن کو ہسپتال لگ کے جارہی ہوں تم وہیں آجاؤ۔” ماں کا فون تھا بیوی کو ہسپتال لے کر جارہے تھے۔ وہ زارا سے دوبارہ آنے کا کہہ کر قبرستان سے نکل گیا۔ ہسپتال پہنچا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر ثمن کو آپریشن کیلئے لے جا چکے ہیں۔ وہ اپنی ماں اور ساس کے پاس ہی آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہلنے لگا۔ اسے اس وقت کچھ یاد نہیں   تھا، اگر یاد تھی تو زارا تھی۔۔۔جو مرنے کے بعد اور زیادہ فعال ہوگئی تھی، جسے وہ ایک لمحہ کیلئے اپنے ذہن سے محو نہیں کرسکا تھا۔ آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر نے بچہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا “مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے”۔ پھول جیسی بچی کو گود میں لے کر جیسے ہی اس نے پہلی نگاہ ڈالی تو وہ ششدر رہ گیا وہ ثمن کی نہیں زارا کی بیٹی تھی۔ ہوبہو وہی شکل، وہی ناک نقشہ۔ وہ سناٹے میں آگیا اور زارا کے الفاظ اس کے کانوں میں سناٹوں کی طرح گونجنے لگے۔۔۔!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply