برطانوی امیگریشن۔ 1

( یار من، علی سجاد شاہ، نے جب “چٹکی” شروع کیا تو مجھ سے امیگریشن سیریز لکھوائی۔ ایک تو بہت لوگوں تک پہنچی نہیں اور دوسرا مجھے لگتا ہے کہ “مکالمہ” پہ یہ سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔ ہم برطانوی امیگریشن کے تمام موضوعات کو قسط وار بیان کریں گے۔ اسکے علاوہ، “مکالمہ” کے قارئین کو برطانوی امیگریشن پر مفت قانونی مشورے دیں گے۔ قارئین اپنے مسائل کیلیے اس ای۔میل پر رابطہ کر سکتے ہیں:
info@juliaranasolicitors.co.uk)

پہلی قسط:
معاشی ترقی کی خواہش، بہتر مستقبل کا خواب اور بعض اوقات جان بچانے کی آرزو انسان کو اپنی جنم بھومی سے ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایک وقت میں یہ ہجرت صرف ہمت اور وسائل پر ہی منحصر تھی۔ مگر آج جب اللہ کی زمین ریاستوں میں بٹ چکی ہے، اس ہجرت کا بہت زیادہ دارومدار ان قوانین پر بھی ہے جو اس ریاست نے اپنا رکھے ہوں جہاں آپ جانا چاہیں۔ ریاستیں ان قوانین کو اپنا ریاستی تشخص قائم رکھنے اور اپنی مقامی آبادی کو متاثر ہونے سے بچانے کیلیے استعمال کرتی ہیں۔
برطانیہ امیگریشن کے حوالہ سے ان پہلے تین ممالک میں آتا ہے جہاں ہمارے لوگ امیگریشن کی کوشش کوشش کرتے ہیں۔ اسکی ایک بڑی وجہ وہ تاریخی رشتہ ہے جو ہمارے سابقہ حاکموں سے ہمارا قائم ہے۔ دوسرا، برطانیہ یورپ میں ابھی بھی مظبوط معاشی طاقت ہے۔ اور پھر اکثر ہمارا کوئی نہ کوئی دوست یا رشتہ دار پہلے ہی سے برطانیہ میں موجود ہے سو ہمیں برطانیہ جانا ہمیشہ زیادہ پرکشش لگتا ہے۔
برطانیہ میں برصغیر سے ہجرت انیسویں صدی کے اواخر سے باقاعدہ شروع ہو چکی تھی۔ مگر اسّی کی دہائی تک یہ تعداد اتنی نہ تھی کہ برطانوی اقدار کیلیے ایک خطرہ تصور کی جاتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے خود امیگریشن کو آسان پالیسیوں کے زریعے آسان کیا تاکہ ملک کی تعمیر نو میں یہ مائگرینٹس کردار ادا کریں۔ بلاشبہ برطانیہ کے نوآبادیات ختم ہونے اور جنگ عظیم کے نقصانات کے باوجود اپنے قدموں پہ کھڑا رہنے میں امیگرینٹس کی محنت کا بھی اہم کردار رہا۔ اس عرصہ میں آنے والے اکثر لوگ مزدور پیشہ اور کم پڑھے لکھے تھے۔ چنانچہ برطانیہ کی لیبر مارکیٹ میں آسانی سے کھپ گئے۔ مگر جب ان ہی مائگرینٹس کی اولادیں اس ملک میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئیں تو انکا رویہ نہ تو مودبانہ و غلامانہ تھا اور نہ ہی وہ برابری سے کم کے درجہ کو ماننے پر تیار تھے۔ اس نسل نے تعلیم، کاروبار، نوکری اور سیاست میں حصہ لیا اور خود کو منوانا شروع کیا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا جب گوروں کو یہ اندازہ ہوا کہ انکا گورا پن خطرے میں ہے۔
برطانوی سیاست میں لیبر پارٹی کو ہمیشہ پروامیگریشن اور کنزرویٹو پارٹی کو اینٹی امیگریشن سمجھا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ لیبر پارٹی نے اپنی پچھلی حکومت میں برطانیہ کو ایک کثیرالتہذیبی یا ملٹی کلچرل معاشرے کے طور پر پروان چڑھایا۔ اسی میں امیگریشن پالیسی کو اتنا آسان کیا گیا کہ نئے آنے والے امیگرینٹس کی تعداد نے گوروں کو تو کجا پرانے امیگرینٹس کو بھی پریشان کر دیا۔ آپ نے خود بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ پاکستان میں پرچون والے نے بھی اس دور میں ایجوکیشن کنسلٹینسی کھول لی تھی اور اسی طرح برطانیہ میں ٹیکسی ڈرائیور تک نے کالج بنا کر دھڑا دھڑ سٹوڈنٹس بلانے شروع کر دیے تھے۔ اسی دوران برطانیہ کو یورپی یونین قوانین کے تحت یورپ میں شامل نئے ممالک کو یہ حق دینا پڑا کہ وہ ویزے کی روک ٹوک کے بغیر برطانیہ میں آباد ہو سکیں۔ اس سب نے برطانوی عوام کو معاشی خطرے سے دوچار کر دیا۔ لوگوں کیلیے نوکریاں کمیاب ہو گئیں اور اسی کے ساتھ برطانوی اقدار کو بھی شدید خطرہ محسوس کیا گیا۔
کنزرویٹو پارٹی نے ان حالات میں امیگریشن اور اس سے منسلک مسائل کو اپنا سیاسی نعرہ بنایا اور جیت کر حکومت قائم کر لی۔ گزشتہ سال وہ دوبارہ جیت کر اگلے پانچ سال کیلیے پھر اقتدار میں آ چکے ہیں اور اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ کنزرویٹوز نے آتے ہی امیگریشن پالیسیوں کو سخت بنانا شروع کر دیا۔ چنانچہ آسان الفاظ میں اب برطانیہ آنا یا یہاں رہنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا کبھی تھا۔ امیگریشن قوانین اس کثرت سے بدلتے جا رہے ہیں کہ کئی سالوں سے امیگریشن وکیل ہونے کے باوجود مجھے باقاعدگی سے خود کو اپ ڈیٹ رکھنا پڑتا ہے۔
برطانیہ میں امیگریشن کی مختلف کیٹیگریز ہیں۔ جن میں معروف وزٹ ویزہ، سٹوڈنٹ، سپاؤز، ورک ویزہ، بزنس ویزہ، اسائلم اور یورپی قوانین کے تحت مایگریشن ہیں۔ ہم ان تمام کیٹیگریز پر معلومات فراہم کریں گے تاکہ اگر آپ برطانیہ آنا چاہیں تو اصل صورتحال سے واقف ہوں اور کسی ایجنٹ کے جھوٹ اور فراڈ کا نشانہ نہ بنیں۔
وزٹ ویزہ:
برطانیہ ہر سال لاکھوں افراد کو مختلف وجوہات کی بنا پر قلیل مدت کا وزیٹر ویزہ دیتا ہے۔ پہلے وزٹ ویزہ کی مختلف تھیں جیسے کہ سیاحتی، فیملی وزٹر، بزنس وزٹر، طبی وجوہ پر وزٹ ویزہ یا شادی رجسٹر کرانے کیلیے ویزہ۔ حال ہی میں ان سب کو “سٹینڈرڈ وزٹ ویزہ” کے نام سے ایک کیٹیگری بنا کر اس میں ضم کر دیا گیا ہے۔
اگر آپ سیاحت کی غرض سے برطانیہ آنا چاہتے ہیں تو آپکو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کے پاس اس سفر کے لیے وافر اخراجات موجود ہیں۔ اسکے علاوہ آپکو دکھانا ہو گا کہ آپ نے اپنے قیام کے عرصے کے دوران ہوٹل بکنگز وغیرہ کر رکھی ہیں۔ مزید یہ کہ آپکی ملازمت یا کاروبار اس قدر مستحکم ہے کہ آپ واپس لوٹ کر آئیں گے۔ کسی بھی وزٹ ویزہ میں ہمیشہ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں آپکی خاندانی، ملازمتی یا کاروباری تعلق اتنا مظبوط ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آپ مدت ویزہ ختم ہونے پر وطن واپس نہیں لوٹیں گے۔
کافی زیادہ لوگ اپنے برطانیہ میں مقیم رشتہ داروں سے ملاقات کیلیے ویزہ اپلائی کرتے ہیں۔ اس ویزہ کو پہلے فیملی وزٹ ویزہ کہا جاتا تھا۔ یہ ویزہ نسبتا آسان ہے کیونکہ اس میں آپکا رشتہ دار آپ کو سپانسر کرتا ہے۔ ضروری دستاویز میں آپکا رشتہ دار اپنا سپانسر لیٹر، اپنے پاسپورٹ کی کاپی، آیا وہ آپکے سفر کے اخراجات اٹھائے گا یا نہیں، اگر وہ آپکو مفت رہائش دے گا تو اسکی رہائش اور اس رہائش میں آپکی گنجائش سے متعلق دستاویز اور سپانسر کی بینک سٹیٹمنٹ وغیرہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپکو اپنی آمدنی اور مالی آسودگی سے متعلق دستاویز دے کر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ مالی طور پر خود بھی مستحکم ہیں۔
اسکے علاوہ اگر آپ علاج کروانے کیلیے، اپنے زیر تعلیم بچے سے ملنے یا کسی مختصر کاروباری مصروفیت کیلیے آنا چاہیں تو بھی آپ یہ سٹینڈرڈ وزٹ ویزہ اپلائی کر سکتے ہیں۔
اس ویزہ کی فیس 85 پاؤنڈ ہے۔ یہ ویزہ چھ ماہ کی مدت کیلیے دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں قوانین میں ہونے والی تبدیلی کے مطابق اب آپ اس قیام کے دوران تیس دن کا کوئی مختصر تعلیمی کورس بھی کر سکتے ہیں۔ اس ویزہ میں اپیل کا حق ختم کر دیا گیا ہے اور ویزہ افسر کا فیصلہ ہی حتمی شمار ہو گا۔
آئندہ قسط میں ہم معروف ویزہ، سٹوڈنٹ ویزہ پر تفصیل سے بات کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply