ہیجڑا کون؟؟؟

وہ روز یونیورسٹی کے باہر کھلی دهوپ میں اپنا رنگ روپ جلاتی اور آتے جاتے اسٹوڈنٹس سے پیسے مانگتی .آج بھی وہ حسبِ معمول اپنے کام میں مصروف تھی مجھے دیکھ کر ایک شناسا سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔۔ اے بِٹیا دے دے نا کچھ اللہ تیرے نصیب اچھے کرے ۔تجھے کامیاب کرے حسبِ معمول اسکی دعاؤں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ دیکھو ہم جو اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں یونیورسٹی سے گھر جاتے جاتے ہماری جیب خالی ہو جاتی ہے ۔میں نے بھی ہمیشہ کی طرح ہنستے ہوئے کہا، آج مجھے اسائمنٹ کے سلسلے میں اس سے کام تھا، مجھے تم سے آج بہت کچھ پو چھنا ہے، بتاؤگی مجھے۔۔؟ میں نےدوستانہ انداز میں پو چھا۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں بِٹیا رانی۔۔ پو چھو، کیا پوچھنا ہے؟ تمهارا اصلی نام کیا ہے؟؟ (میرے سوال پر چونک کر اس نے مجھے دیکھا) عامر۔۔ میرا نام عامر ہے، یہ نام میری ماں نے رکھا تھا وہ مجھ سے بہت پیار کر تی ہے، مائیں تو جی سب کی سا نجھی ہو تی ہیں۔ محبتوں سے گندهی ہوئی ممتا سے بھر پور جان نچھاور کر نے والی۔۔ (اس نے نم آنکھوں سے کہا) تم عامر سے ریشم کیسے بنیں ؟ کن کن حالات سے تمھیں گزرنا پڑا ۔۔آج بتاؤ ہر وہ بات جو تمهارے دل میں ہے۔۔
میں جانتی تھی اس کے اندر ایک جنگ چھڑی ہو ئی تھی ۔ا چها تھا وہ بول دیتی۔۔ بِٹیا! میں اسی شہر کراچی کی باسی ہوں۔ یہیں پیدا ہوئی میری3بہنیں اور2بھائی ہیں، جب میں پیدا ہوئی ابا اماں بہت خوش تھے چلو ایک اور بیٹا ہوا ۔میری اماں نے میرا نام رکھا انهیں مجھ سے بے حد محبت تھی جیسے جیسے میں بڑا ہونے لگا میری ماں کو میرے اندر کی کمی کا احساس ہوا اس نے یہ بات ابا سے چھپائی لیکن کب تک جب ابا کے سامنے یہ حقیقت آئی وہ تو یکدم آپے سے باہر ہوگئے مجھے پکڑ کر خوب مارا ۔میں حیرت زدہ اس تشدد کو برداشت کر تا رہا اماں بچانے کی کو شش کرتی رہی، جب ابا کا جی پیٹنے سے بهھ گیا تب وہ باہر چلا گیا۔ اگلے دن میرے زخموں کی پرواہ کئے بغیر مجھے گھر سے لے گیا۔ سب بہن بھائی سہمے ہو ئے دیکھتے رہے ۔۔اماں نے بہت روکا مگر ابا مجھے لے کر گروجی کے پاس آگئے۔ یہاں کی زندگی میرے لیے بہت عجیب تھی، میک اپ زدہ چہرے، گھنگرو، طبلے کی تھاپ ناچ گانا۔
مجھ میں کمی تھی مگر میرا دهیان اس طرف نہیں تھا، ہیجڑوں کی اس بستی میں میرا دل آہستہ آہستہ لگنے لگا۔ میں بھی ان کے ساتھ پروگرام میں جانے لگی۔ زندگی کے ایک نئے رنگ کو اپنے اندر سمو نے لگی۔ آہستہ آہستہ یہ سب میرے معمول کا حصہ بنتا چلا گیا جب پروگرام کم ملنے لگے باقی ساتھیوں کے ساتھ میں بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے لگی میں نے بہت پیسہ کمایا۔ گرو کو اسکا حصہ دے کر اپنا حصہ اپنے پاس جمع کیا۔
کبھی گھر جا نا ہوا ماں باپ بہن بھائیوں سے ملنے؟؟ ہاں جی شروع شروع میں ابا کے ڈر سے نہیں جانا ہو تا تھا مگر ماں کی محبت سے مجبور ہوکر چھپ کرملنے جاتی۔ ابا کی وفات کے بعد سب سے ملنا آسان ہو گیا۔ بہن بھائیوں کی محبت پر دل بڑا ہو جاتا ۔بھائیوں کو کاروبار کروایا ان کی زندگی سیٹ ہوگئی بہنوں کی فرمائشیں پوری کر نے سے جو خوشی ملتی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ اماں کو اپنے گھر کی خواہش تھی انکے نام پر تین منزلہ گھر بنایا۔ اب میرا زیادہ وقت انکے ساتھ گزرتا ۔۔ زندگی بہت آسان لگنے لگی تھی۔ مجھے میرے صبر اور محنت کا صلہ مل رہا تھا۔ ماں کی خواہش پر بہن بھائیوں کی شادی کروائی پتہ ہے بِٹیا رانی مجھے دکھ کب ہوا۔۔۔؟ جب ان کی شادیوں پر خرچہ کرنے کی مجھے مکمل اجازت تھی۔ لیکن اس میں شرکت کر نے کی ہر گز اجازت نہیں تھی۔۔۔ خیر یہ بھی ان کی مجبوری تھی گھر والے تو ہم جیسوں کو قبول کر سکتے ہیں مگر معاشرہ نہیں۔
سب اچھا چل رہا تھا میرا گروہ کے پاس بھی آنا جانا تھا اور گھر والوں کے پاس بھی زندگی بہت اچھی چل رہی تھی۔ لیکن برا ہو اس مال و زر کی ہوس کا بڑے بھائی نے دهوکے سے گھر اپنے نام کروا لیا، اس پر ہی بس نہیں کیا، میرا اپنی ہی کمائی سے بنائے گئے گھر میں آنا بند کروادیا اس دکھ نے مجھے ختم کر ڈالا۔۔ ماں کی صورت دیکھنے کو ترس گئی، میری زندگی کی جمع پونجی ختم ہوگئی میرا اعتماد یقین مان سب ٹوٹ گئے ۔ایسے حالات میں مجھے گرو اور میری ساتھیوں نے سنبھالا۔۔ اپنوں سے بڑھ کر میرا ساتھ دیا۔
نہ تو اب میرے پلے کچھ تھا اور نہ میں کمانے کے لائق تھی لیکن انہوں نے کبھی مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ایک بار پھر میں نے ہمت کی اور ان سڑکوں پر اپنے رزق کی تلاش میں نکل آئی۔ اس راہ گزر نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ آج جو کچھ بھی کما رہی ہوں اپنے گرو اور ساتھیوں پر خرچ کر تی ہوں اب یہی میرے اپنے ہیں۔ دکھ صرف ماں سے دوری کا ہے باقی دولت تو کما ہی لوں گی۔۔۔
اس نے آنسووں کو پونچھتے ہوئے بھرائےہوئے لہجے میں کہا اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply