جمہوریت یا سرمایہ دارنہ اریسٹو کریسی۔۔زاہد سرفراز

حکومت میں افراد کی تعداد کے لحاظ سے تین طرح کی حکومت ممکن ہوتی ہے۔
آٹو کریسی، اریسٹو کریسی اور ڈیمو کریسی ۔
کسی فرد واحد کی حکومت آٹو کریسی کہلاتی ہے  جبکہ چند افراد کی حکومت اریسٹو کریسی کے نام سے جانی جاتی ہے  اور بہت سے افراد کی حکومت کو ڈیمو کریسی یعنی جمہوریت کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں کہنے کو تو جمہوریت ہے  مگر حقیقت میں یہ سرمایہ دارنہ اریسٹو کریسی ہے  ہمارے ہاں ہر کوئی جمہوریت کا راگ آلاپتا  ہے  اور یہ سمجھتا  ہے  کہ جمہوریت سے ہی سب مسائل حل ہوں گے مذہبی طبقہ ہو یا لبرلز ہوں یا پھر ترقی پسند سب کسی نہ کسی طریقے سے عملی طور پر اسی نظام سیاست کے مدعی اور  سپورٹر ہیں مگر موجودہ نظام سیاست کو چونکہ معشیت کنٹرول کرتی   ہے اس لیے اس مناسبت سے اسے سرمایہ دارانہ اریسٹوکریسی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا اس وقت معاشی لحاظ سے مجموعی طور پر ملکی معیشت تین حصوں میں منقسم  ہے ‘ پیسے کی مارکیٹ اشیاء پیداور کی مارکیٹ اور محنت کی مارکیٹ ۔
اشیاء کی مارکیٹ سرمائے اورمحنت کے بل بوتے پر کھڑی ہوتی  ہے  جبکہ سرمائے کی مارکیٹ خالص سرمائے کی بنیاد پر چلتی  ہے  جس میں محنت کا کوئی کردار نہیں ہوتا اشیاء پیدوار کی مارکیٹ کو کاروباری طبقہ چلاتا  ہے  جو سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان مڈل مین کا کردار ادا کرتا  ہے ، مزدور کی محنت کا استحصال یہی مڈل مین یعنی کاروباری طبقہ کرتا  ہے  کیونکہ یہ طبقہ آزاد نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ دار کا زر خرید غلام ہوتا  ہے ۔

دلچسپ بات یہ  ہے  کہ سرمائے کی یہ مارکیٹ ہماری ہی وجہ سے قائم رہتی  ہے ، وہ اس طرح کہ اشیاء پیداوار اور محنت کی مارکیٹ سے کمائی ہوئی دولت جب لا کر بینکوں میں رکھی جاتی  ہے تو یہ پیسہ خالص سرمائے کی منڈی میں رہن رکھ دیا جاتا  ہے،جہاں کوئی محنت نہیں ہوتی بلکہ آپ ہی کا پیسہ آگے استعمال کرنے کو دیا جاتا  ہے۔جو سرمایہ دار کے مڈل مین یعنی مزدور کے آقا کو استعمال کے لیے ملتا  ہے جس میں اس کا اپنا پیسہ بھی شامل ہوتا  ہے جو اشیاء پیدوار کی مارکیٹ میں لگا کر پھر سے پیسے کمائے جاتے ہیں آپ کے ہی دو لاکھ دے کر بغیر محنت کیے واپس آپ ہی سے محنت کروا کر سرمایہ دار تین لاکھ وصول کر لیتا  ہے ۔ اس طرح ایک لاکھ بغیر کچھ کیے اس کا ہو جاتا  ہے ، جس پر اس نے کوئی محنت نہیں کی ہوتی جبکہ وہ پیسہ بھی دوسروں کا ہوتا  ہے  جو بددیانتی سے حفاظت کے نام پر لوگوں سے لے کر استعمال کیا جاتا  ہے ۔ یہ مارکیٹ چونکہ اشیاء کی مارکیٹ کو سود پر پیسہ دیتی  ہے اس لیے یہ اشیاء کی مارکیٹ کو کنٹرول کرتی  ہے، جب چاہے اشیاء کی مارکیٹ سے پیسہ اٹھا کر کسی کو بھی دیوالیہ کر دے، قانونی طور پر اس کے لیے جائز  ہے اور اس طرح پورا   ملک سرمایہ دار کی مٹھی میں آ جاتا  ہے۔ جب چاہے سرمایہ دار مارکیٹ سے پیسہ اٹھا کر اسے دیوالیہ کر دے اس کا مکمل اختیار سرمایہ دار کے پاس ہوتا  ہے ، پچھلے عرصے میں یونان کے ملکی سطح پر دیوالیہ ہونے کی مثال آپ کے سامنے موجود  ہے۔

معاشرے میں یہی چند سرمایہ دار کاروباری حضرات کے ذریعے الیکشن کا حصہ بنتے ہیں اور پیسے کے بل بوتے پر حکومت کے ایوانوں میں بھی پہنچ جاتے ہیں چونکہ تمام وسائل ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اس لیے یہ طبقہ حکومت کے مزے بھی لیتا  ہے  اور قانون سازی بھی اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے کرتا  ہے  اور عوامی مفاد میں بنے ہوئے قوانین پر عمل کو ناممکن بنا دیتا  ہے ، یوں سرمایہ دار اشرافیہ کی اریسٹوکریسی قائم ہو جاتی  ہے  جسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے  مگر وہ جمہوریت نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ دارانہ اریسٹوکریسی کہلاتی  ہے ۔

اس وقت پاکستان میں یہی نظام  ہے مگر لوگوں کو جمہوریت کا لولی پاپ تھما دیا گیا  ہے  جو کسی بھی طور   جمہوریت نہیں  ہے بلکہ پیسہ بنانے اور سرمائے کے تحفظ کو یقینی بنانے والی سرمایہ دارانہ اریسٹو کریسی  ہے ، اس طبقے کا کام چونکہ صرف پیسہ بنانا  ہے  اس لیے اسے صرف اپنے سرمائے تک مطلب ہوتا  ہے۔ عوامی مسائل سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہوتا اور جب عوامی مسائل حل نہیں ہو تے تو عوام چیخ اٹھتے ہیں مگر کچھ عرصہ احتجاج کرنے کے بعد پھر جمہوریت کی پھکی لے کر سو جاتے ہیں، سب خوش ہیں اور جہالت میں اس قدر مست ہیں کہ جمہوریت کھونٹے سے بندھی ہے، مسائل کا کوئی حل نہیں ، کیونکہ مسائل کا حل جمہوریت میں نہیں بلکہ نظام معیشت میں ہوتا  ہے

کہتے ہیں کہ افلاطون جس طرح حکومت کی باگ ڈور فوج کو دئیے جانے کا سخت مخالف تھا اسی طرح وہ اسکی باگ ڈور کاروباری لوگوں کو دینے کا بھی سخت مخالف تھا کیونکہ اس کے خیال میں کاروباری حضرات کو صرف اپنے کاروبار پر توجہ دینی چاہیے ان کا حکومت سے کوئی مطلب نہیں ۔افلاطون کے اس فلسفے کو تو تسلیم کر لیا گیا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے مگر کاروباری لوگوں نے سرمایہ دار کی مدد سے کاروبار حکومت میں اپنا کردار یقینی بنا لیا اگر حکومت کو کاروبار بننے سے بچانا  ہے  تو آئین میں یہ لکھ دیا جائے کہ کوئی بھی سرمایہ دار یا بزنس مین حکومت نہیں کر سکتا، اس کا کام کاروبار کرنا  ہے ، حکومت کرنا نہیں !

Advertisements
julia rana solicitors

اگر سماج سے سرمایہ دار ی کا خاتمہ کرنا  ہے  تو سب سے پہلے سرمائے کی مارکیٹ کو ختم کرنا ہو گا جس کے  لیے سب سے پہلے سود ختم کرنا پڑے گا کیونکہ سود ختم کیے بنا سرمائے کی منڈی کا مصرف ختم نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے تمام بینکوں کو حکومتی تحویل میں دے کر معیشت میں موجود اس ٹرائی کاٹمی کو ختم کرنا ہو گا تاکہ معاشرہ سرمایہ دار کی غلامی سے آزاد ہو کر سکھ کا سانس لے سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جمہوریت یا سرمایہ دارنہ اریسٹو کریسی۔۔زاہد سرفراز

Leave a Reply