لندن میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ

لندن میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ
طاہر یاسین طاہر
اس امر میں کلام نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف پوری دنیا میں کارروائیاں جاری ہیں اور عراق،شام،افغانستان و پاکستان سمیت ہر جگہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو پسپائی کا سامنا ہے۔شام و عراق میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں،داعش و النصرہ اور القاعدہوں یا طالبان کی مختلف شاخیں، سب کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے انسانوں کا قتل عام۔گذشتہ روز لندن میں ہاؤس آف پارلیمنٹ کے قریب ’دہشتگردی‘ کے ایک واقعے میں حملہ آور سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 40 زخمی ہو گئے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کی جانب سے برطانیہ سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بیانات دیے جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ بدھ کی شام لندن میں پارلیمان کے باہر ویسٹ منسٹر پل پر ایک حملہ آور نے وہاں موجود راہگیروں پر گاڑی چڑھا دی تھی جس کے بعد حملہ آور پیلس آف ویسٹ منسٹر کے دروازوں کی طرف بھاگا۔ اسی دوران اس نے وہاں موجود ایک پولیس اہلکار کو چاقو سے حملہ کر دیا۔ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار اورتین عام شہری بھی شامل ہیں جبکہ حملہ آور کو پولیس نے ہلاک کر دیا ہے۔امریکہ، جرمنی اور فرانس جہاں گزشتہ برس دہشت گردی کے بڑے واقعات پیش آئے تھے کے سربراہان نے برطانیہ سے اظہارِیکجہتی کیا ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے برطانوی وزیراعظم سے اظہارِیکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ہم سب کا مسئلہ ہے اور فرانس برطانوی عوام کے دکھ کو سمجھتا ہے۔اس سے قبل فرانسیسی حکام نے تصدیق کی تھی کہ زخمی ہونے والوں میں تین فرانسیسی بچے بھی شامل ہیں۔ ملک کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ بچے سکول ٹرپ کے ساتھ لندھ گئے ہوئے تھے۔فرانسیسی میڈیا کا کہنا ہے کہ تین بچوں میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں برطانوی سکیورٹی فورسز کے کردار کی تعریف کی ہے۔جرمنی جہاں گذشتہ برس ایک ٹرک کے ذریعے ہونے والے خودکش حملے میں 84 افراد ہلاک ہوئے تھے کی چانسلر آنگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ان کا ملک برطانیہ کے ساتھ عوام اور حکومت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہے۔
ادھر پیرس کے آئفل ٹاور کی روشنیاں گرینج کے معیاری وقت کے شب گیارہ بجے متاثرین کی یاد میں بجھا دی گئیں۔ روس کی وزارتِ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کو اقسام یا گروہوں میں تقسیم نہیں کرتے، ہم اسے مکمل گناہ سمجھتے ہیں۔اس لمحےبھی ہمیشہ کی طرح ہمارے دل برطانیہ کے عوام کے ساتھ ہیں۔پاکستان نے بھی لندن میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور برطانوی عوام سے اظہار ہمدردی کیا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ابھی تک کسی تنظیم یا گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی اور ممکن ہے کہ حملہ آور کی گاڑی خود کش بارودی مواد سے بھری ہوئی ہو۔لندن کی پارلیمان پر حملہ کوئی بے شک آزادی،جمہوریت اور انسانیت پر حملہ ہے۔ایسی کارروائیاں داعش کا خاصا ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری دہشت گردوں کی تخصیص کرنے کے بجائے سب کے ساتھ ایک سا سلوک کرے۔یہ بات حیرت افروز ہے کہ دہشت گردی کے جواز میں عالمی نا انصافی یا امریکی پالیسیوں اور ان پالیسیوں کو یورپی حمایت سے جوڑا جاتا ہے۔
اصل میں دہشت گرد پسپائی کے بعد ہر جگہ حملہ آور ہو کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔فرانس ہو یا جرمنی یا لندن، ان ممالک مٰن دہشت گردانہ حملوں کے ایشیائی باشندوں بالخصوص وہاں کام کرنے والے مسلمانوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔مٹھی بھر دہشت گرد سارے امن پسند انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بے شک برطانیہ ان افراد کو سزائیں بھی دے اور ملک بدر بھی کرے جو دہشت گردی یا انتہا پسندی کے لیے جواز تراشتے ہیں۔ مگر ان امن پسند مسلمانوں اور ایشیائی باشندوں کو مکالمہ اور ڈائیلاگ کرنے میں اپنے فرنٹ لائن شہریوں کے طور استعمال کرے جو تمام انسانوں کے لیے اپنے من میں محبت اور عافیت و اتحاد کا جذبہ رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply