آفاقی نظریہ اور اس کے محافظ

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وجہء تخلیقِ انسان خدائے بلند و برتر کی عبادت اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ اللہ رب ذوالجلال کو یہ بات قطعی پسند نہیں کہ اس کی زمین پر اسی کا کھانے والا اس کے بھیجے گئے دستور سے ہٹ کر کسی اور دستور پر زندگی بسر کرے۔ اقوام و معاشروں کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ خدا کی کبریائی کا اقرار کرتے ہوئے خود کو اس چیز کے تابع کرے جو آسمان سے نازل کی گئی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ دنیا میں فساد کی ابتداء تب ہوئی جب لوگوں نے ایک الہٰ کو رب ماننے سے انکارکیا یا پھر اس کے دستور سے منہ پھیر لیا۔ جنت سے آدم کو نکالے جانے سے لے کر زمین پر ہونے والے پہلے قتل اور اس کے بعد پیدا ہونے والی ہر برائی کی بنیادی وجہ خدا کا انکار یا قانون خدا سے رو گردانی بنی۔
تمام تر حالات و واقعات ہمیں اس بات پر سوچنے کے لیے مجبور کرتے ہیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے ایک حقیقی نظریے کی پیروی ضروری ہے۔ نظریہ دستور بھی ہے اور ہر بدی کی راہ میں رکاوٹ بھی۔ علاقوں، ملکوں اور ریاستوں کی تعمیر و ترقی کے لیے کسی نہ کسی دستور کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا کوئی دستور و ضابطہ نہیں جو اسلام کے بنیادی ضابطے و قانون سے بڑھ کر ہو۔ ہرطرح سے مکمل ضابطہ حیات دین فطرت اسلام اور اس کا قانون ۔۔۔۔خدا نے ہر دور میں ہر جگہ اپنے کلمے کی بلندی کے لیے افراد کو کھڑا کیا۔ کبھی اپنے پیغمبروں سے اپنے کلمے کی بلندی کا کام لے کر ملکوں پر توحید کو غالب کیا تو کبھی اپنے برگزیده بندوں سے سربلندی لا اله کا کام لیا۔ برصغیر میں ہزار سالہ اسلامی دور کے اختتام کے بعد ایک لمبے عرصے تک نظریہ اسلام دب کر رہا۔ برطانیہ کے سیکولر نظریے کی ناکامی نے ثابت کیا کہ تمام کے تمام دنیاوی و انسانی تخلیق کردہ نظریات اس زمین پر نہیں چل سکتے۔1857سے1940تک مسلمانان ہند کے بدترین سال تھے۔ اس دوران مسلمانوں کے ہونے والے قتل عام کا کوئی ریکارڈ بھی ٹھیک طرح مرتب نہیں ہوسکا۔ اس سارے کے سارے ظلم کی بنیادی وجہ مغل بادشاہوں کا نظریہ سے پھر جانا اور خود ساختہ نظریہ کو خدا مان کر ریاست کو چلانا تھی اور آفاقی نظریے سے رو گردانی کی وجہ سے تقریباً سو سال غلامی میں بسر کرنے پڑے۔۔حقوق کے بے تحاشا استحصال کے بعد جب غلامی انتہائی ناگزیر ہو گئی ۔۔۔ سیکولر ہندوستان کے نظریے کی حقیقت اقوام عالم پر بلخصوص مسلمانوں پر عیاں ہو گئی تو مسلمانوں نے دوبارہ سے بھلائے ہوئے سبق کو یاد کرنا شروع کیا۔ بے تحاشہ ظلم کے بعد مسلمانان برصغیر نے اس ضروت کو محسوس کیا کہ اب یہاں اس آفاقی نظریے کا اطلاق ہی ہماری گردنوں کو طوق آزادی سے نجات دلا سکتا ہے۔ ہر طرح سے غلامی میں جھگڑے مسلمانوں کو عزت جان مال کے ساتھ ساتھ ایمان کے جانے کے خطرات لاحق تھے
اسی ضرورت کے پیش نظر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کا بنیادی منشور مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حکومت کو قائم کرنا تھا۔ جہاں مسلمان اپنی مذہبی، سیاسی اور ثقافی سرگرمیوں کو آزادانہ ادا کر سکیں۔۔۔ ایک ایسا معاشرہ اور ملک قائم کریں جہاں کا ہر ضابطہ ہر قانون اسلام کا عکس ہو۔ اسی کے پیش نظر تحریک آزادی کو شروع کیا گیا۔ طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد بلآخر23مارچ1940کو مسلمانان ہند نے اس آفاقی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے حصول کی پہلی منزل کو پا لیا۔ اب ہر زبان پر ایک نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا اله الا الله۔۔۔۔برطانیہ نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ہندو مسلم دو الگ مذہب ہیں ۔۔ الگ الگ نظریات جدا افکار رکھنے والی ان دو قوموں کا مل کر رہنا ناممکن ہے۔۔ یوں14اگست1947کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ہجرت کا باب اپنی الگ المناک تاریخ رکھتا ہے۔نظریہ پاکستان اسلامی نظریہ حیات لا اله الا الله محمد رسول اللہ کا نظریہ ہے۔ اس دستور میں خدا کی حاکمیت، رسول عربی کی رہبری، عدل، انصاف اور امن کے ساتھ ساتھ غیر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے وہ حقوق ہیں جو خود ان کے مذاہب میں بھی ان کے لیے نہیں ۔ اسی خوبصورت کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا گیا ملک اول دن سے چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔ مگر گورے کی غیر منصفانہ تقسیم اور پھر چند اپنوں کی دغا بازیوں نے اسلام کے اس پاکستان کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔
ابتدا ہی سے پاکستان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں نے ہمیں اس قدر کمزور کر دیا کہ ہمیں پھر سے بیرونی ہاتھوں کی طرف دیکھنا پڑا۔ بیرونی امدادوں کے چنگل میں پھنسا کر پھر سے پاکستان کے نظریے کو تار تار کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ تعلیمی اداروں میں جدت کے نام پر الحاد ۔۔ بنکاری میں سود ۔۔۔ خدمت کے نام پر مادیت پرستی اور میڈیا کے نام پر منفی ذہن سازی کر کے اس قوم کو دوبارہ نظریے سے ہٹانے کے لیے بھرپور کوشش کی گئی۔۔ یہی پر بس نہیں اپنے جمہوری نظاموں کو مسلط کر کے یہاں علاقیت، لسانیت، صوبائیت اور قومیت کے جھگڑوں کو پیدا کر کے پاکستان کو نظریاتی طور پر کمزور کرنے کی بھرپور سازش بھی کی گئی۔ اس مشکل دور میں جب قوم نظریہ پاکستان کو بھلا کر ایک نئے راستے پر چلنے لگی تو پاکستان کے نظریے کی حفاظت کے لیے اللہ نے چند جماعتوں کو کھڑا کیا۔
جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ پاکستان نے نظریے پاکستان کے تحفظ اور احیاء کے لیے ہر فارم پر بھرپور کردار ادا کیا، کشمیر کی وکالت کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے سربکف حافظ سعید اور ان کی جماعت نے ہر مقام پر نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کام شروع کیا۔علم کے میدان میں الحاد کے راستے میں دیوار بن کر سکول کالجز کا قیام ۔۔ طلبہ سیمینارز کے ذریعے تخلیق پاکستان کا مقصد اور پاکستان کا مطلب نوجوان نسل کو بتایا۔ میڈیا وار کے اس دور میں جب میڈیا کا استعمال کر کے پاکستان کی نظریاتی حدود کی پامالی کی جانے لگی تو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر نظریہ پاکستان کے حوالے سے کام شروع کیا۔
خدمت کے نام پر جب نظریہ پاکستان سے نفرت کے بیج بوئے جانے لگے تو پاکستان کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں پہنچ کر خدمت کا عزم اور پاکستانیت کا مشن لے کر جماعت الدعوہ اور الخدمت فاؤنڈیشن وہاں ملی۔ ہر دل میں نظریہ پاکستان سے محبت اور اس کے احیا کے لیے گلی گلی سیمینارز کر کے پوری قوم کو پاکستان کا مطلب ازبر کروایا۔۔ کہا “نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے”۔

Facebook Comments

نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply