شیطان ایک ویران سڑک کے نیچے بینچ پر بہت اداس بیٹھا ہوا تھا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ میں نے شیطان کو دیکھ کر سکوٹر روک لیا۔
خیریت؟ تنہا کیوں بیٹھے ہو؟ کیا میں تمھارے کسی کام آ سکتا ہوں۔ میں نے سکوٹر پر بیٹھے بیٹھے پوچھا۔
میں راستہ بھٹکانے آیا ہوں ۔ کیا تم مجھے کوئی نیا شکار دکھا سکتے ہو۔ کسی نئی جگہ جہاں میں اپنا ٹھکانہ بنا سکوں۔ شیطان نے شریر نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے سکوٹر سٹارٹ کیا۔ شیطان سکوٹر پر بیٹھنے کی بجائے میرے سر پر سوار ہوگیا۔
میں نے چار قدم پر ایک مسجد کے سامنے سکوٹر روکا۔ ابلیس مسجد میں داخل نہیں ہوا ۔
باہر سے ہی ایک طائرانہ نظر دوڑائی ایک ہی صف میں لوگ مختلف طریقے سے نماز پڑھ رہے تھے کسی نے ہاتھ ناف سے نیچے باندھے ہوئے تھے تو کسی شخص کے ہاتھ ناف سےاوپر۔ اور تو اور کچھ نمازیوں نے ہاتھ چھوڑے ہوئے بھی تھے۔ شیطان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا شاید اسے اپنی دال گلتی نظر نہیں آ رہی تھی ۔ خدا خدا کرکے جماعت ختم ہوئی اور مولانا صاحب جیسے ہی باہر آئے میں نے آگے بڑھ کر حال احوال کے بعد مدعا بیان کیا کہ قبلہ اس شخص کو رہنے کے لئے جگہ چاہیے ۔
مولانا صاحب نے محبت سے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ الحمد اللہ پاکستانی قوم بہت با ضمیر اور بندہ پرور ہے۔اگر بھوک لگی ہے تو سیلانی و جے ڈی سی کے دسترخوان پر لے جاؤ۔ سر چھپانے کو جگہ چاہیے تو ایدھی سینٹر اور چھیپا موجود ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی انتظام نہیں اور مسجد خدا کا گھر ہے اعتکاف کے علاوہ یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ اس کے علاوہ میرا ایک کمرے پر مشتمل غریب خانہ ہے جس میں میری زوجہ اور پانچ بچے مقیم ہیں اگر کہیں تو وہاں لے چلتا ہوں۔
شیطان حیرت سے منہ کھولے سب سنتا رہا۔ میں نے سکوٹر سٹارٹ کیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہم ایک امام بارگاہ پہنچے۔ محرم کے دن نہیں تھے اس لیے وہاں متولی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ چلے آئے۔
’’السلام علیکم حضرت! یہ ایک صاحب ہیں۔ راستہ بھول گئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ گھر پہنچا دو۔ میں انھیں یہاں لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے انھیں آگاہ کیا۔
یہاں حضرت علی اور امام حسین کے پیروکار حاضر ہوتے ہیں۔ یہاں قربت الٰہی کے حصول کے لئے مجالس برپا ہوتی ہیں۔ آپ رہنا چاہیں تو بصد خوشی رہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں درودی کھچے چلے آتے ہیں اور بارودی فرار ہو جاتے ہیں۔ ایام فاطمیہ کے سلسلے میں مجالس آج سے ہی منعقد ہونے جا رہی ہیں محبان مصطفٰی و زہرا کروڑوں کی نیازو خیرات کریں گے۔ چاہو تو پورے سال کا راشن سٹاک کر لو لیکن یہ لنگر حسینی ختم اور کم نہیں ہوگا۔
شیطان نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا اورہم نے سکوٹر کی طرف دوڑ لگا دی۔
یار خدا سے بھاگتے بھاگتے صدیاں گزر گئی ہیں ان ہی جگہوں پر کیوں لے گئے تھے کسی ایسی جگہ لے جاؤ جہاں مذہب کی کوئی بات نہ کرے۔ شیطان نے میرے بالوں سے کھیلتے ہوئے درخواست کی۔
کچھ سوچ بچار کے بعد میرا رخ قحبہ خانے کی طرف مڑ گیا۔ تنگ تاریک رستے سے ہوتے ہوئے ہم اس چاردیواری کے باہر کھڑے تھے جو ہماری مطلوبہ آماجگاہ ہو سکتی تھی۔ اندر داخل ہوئے تو ایسی شکلیں دیکھنے کو ملی جن کے چہروں سے ہی خباثت ٹپک رہی تھی۔ مول تول کا آغاز ہی ہوا تھا کہ شیطان نے میرے کانوں میں سرگوشی کی کہ مجھ سے بڑے بڑے شیطان پہلے ہی موجود ہیں یہاں سے بھی کھسکتے ہیں۔
آدھی رات ہوچکی تھی۔ میں شیطان کو لے کر ائیر پورٹ کے قریب ایک شراب خانے پہنچا۔ اس کا مالک میرا دوست تھا۔ ہم اندر گئے تو کچھ بدمعاش لوگ بوتلیں سامنے رکھے الحاد پر گفتگو کررہے تھے۔
’’کیا تم شراب پیتے ہو؟‘‘ شیطان نے دریافت کیا۔
’’نہیں، میں نہیں پیتا۔ لیکن اس وقت شہر میں کہیں اور نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ پولیس آوارہ گردی کے الزام میں پکڑ کے تھانے میں بند کردیتی ہے۔ تم تو چھوٹ جاؤ گے لیکن میری ضمانت کون دے گا؟‘‘ میں نے تیز لہجے میں کہا۔
میں اتنا امیر کبیر تو نہیں ہوں ، لیکن تمھیں جہاز کا ایک ٹکٹ ضرور خرید کے دے سکتا ہوں۔ اس دیس میں تمھاری دال گلنے والی نہیں۔ جو برے ہیں انہیں تم اور کیا بگاڑو گے اور جو اچھے ہیں ان کا تم کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں سب منجن بیچنے میں آسانی رہے۔
شیطان نے دیدے پھاڑتے ہوئے کہا لیکن جاؤں گا کہاں؟؟؟
میں نے گلوگیر آواز میں کہا۔۔۔۔
“امریکہ”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں