پانچ کروڑ ذہنی امراض کا شکار

روزنامہ دنیا میگزین میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کا تناسب 34 فیصد تک بتایا جاتا ہے، یعنی ہر تیسرا آدمی ڈپریشن کا شکار ہے۔

آپ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں کی شکلوں کو غور سے دیکھیے، کسی کے چہرے پر 12 بجے ہوں گے تو کسی کے چہرے پر وحشت ٹپک رہی ہو گی۔

کوئی اس فکرات میں گھرا ہو گا تو کوئی غم کی چادر اوڑھے نظر آئے گا۔ ہر کسی کو اپنا روگ لگا ہے اور انہی غموں نے پاکستان کی 34 فیصد آبادی کو ڈپریشن کا شکار کیا۔

مگر ایک اور رپورٹ میں یہ تناسب 44 فیصد تک بتایا گیا اور اس رپورٹ میں پاکستان کی آدمی سے زیادہ خواتین کو ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔

اس کے خیال میں 5 کروڑ پاکستانی عمومی ذہنی امراض کا شکار ہیں اور ان میں 57.5 خواتین اور 25 فیصد مرد شامل ہیں۔

جہاں ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہائی اور دوسری رپورٹ کے مطابق 44 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہیں وہاں سائیکاٹرسٹس کی تعداد محض 800 سو ہے۔

جہاں تک بچوں کی نفسیات کا تعلق ہے تو 40 لاکھ بچوں کے علاج کے لیے ایک سائیکاٹریس موجود ہے اور پاکستان میں پوری آبادی کے لیے 4 ہسپتال نفسیات کے علاج کی سہولت مہیا کر رہے ہیں۔

2015ء اور 2016ء میں 35 شہروں میں خود کشی کے واقعات کا ایک جائزہ لیا گیا۔

تب 1473 کیسز میں سے 673 کیسز سندھ میں 645 پنجاب میں 121 خیبر پختونخوا میں اور 24 کیسز بلوچستان میں ہوئے۔

ان کی بڑی وجوہات میں بے روزگاری، بیماری، غربت، بے گھر ہونا اور خاندانی تنازعات تھے۔

بچوں میں خود کشی کے رجحانات کا ایک انتہائی سبب دوران پیدائش بچے کے ماں باپ کے آپس کے جھگڑے ہیں۔

ماں باپ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ دوران حمل بچہ سب کچھ محسوس کر رہا ہے۔

اس لڑائی جھگڑے کے اثرات ان کے ناپختہ ذہنوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

ایسے بچے جرائم کی دلدل میں بھی پھنس سکتے ہیں۔

یہ اپنا انتقام دوسروں سے لیتے ہیں اور خود بھی خود کشی کر سکتے ہیں۔

یہ رجحانات ایسے بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک سروے سے ایک انتہائی افسوسناک نتائج سامنے آئے جب پتہ چلا کہ مردوں اور عورتوں میں خود کشی کا تناسب 2-1 کا ہے یعنی 66 فیصد مرد اور 33 فیصد خواتین ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سال بھر میں پاکستان کے 35 شہروں میں 3 سو لوگوں کی خود کشی کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ اکثریت کی عمریں 30 سال سے کم تھیں جبکہ مرنے والوں میں غیر شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply