طبقہ، طبقاتی جدوجہد اور سیاسی جماعتیں۔۔ضعیغم اسماعیل خاقان

طبقاتی جدوجہد کیا ہے؟، اس کو سمجھنے کے لیے طبقات کو سمجھنا ناگزیر ہے۔ طبقات کیا ہیں؟، کیسے وجود میں آئے؟ اور مختلف ادوار میں مختلف سماجوں میں ان کا ارتقاکیسے ہوا ؟یہ چند ایک بنیادی سوالات ہیں جن کو سمجھے بغیر نہ تو طبقاتی جدوجہد کو سمجھا جا سکتا اور نہ ہی اس بنا پر طبقاتی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے طبقاتی کردار کو سمجھا، پرکھا جا سکتا ہے ۔

کرہ ارض کے پہلے قدیم اشتراکی سماج میں قرن ہا قرن تک انسان مل جل کر اپنی ضروریاتِ زندگی کا سامان کرتے رہے، نہ کہیں ذاتی ملکیت کا وجود تھا، نہ طبقات موجود تھے اور نہ ہی فرد کے ہاتھوں فرد کا استحصال وجود رکھتا تھا۔ قدیم اشتراکی سماج کے زوال کے بعد ایک ایسا نیا سماج وجود میں آیا جسے غلام داری سماج کہا جاتا ہے۔ یہ سماج قدیم انسان کے قدرتی وسائل بالخصوص پیداواری زمین پہ قبضہ کرنے اور فاتح قبائل کا مفتوحہ قبائل کی افرادی قوت کو غلام بنانے کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ اوائل افرادی برتری اور طاقت رکھنے والے قبائل کمزور قبائل کی ذرخیز زمین پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ ان قبائل کواپنے قبیلے میں ضم کر لیتے یا قتل کر دیا کرتے تھے۔

بعد ازاں جیسے جیسے زمین کی ملکیت میں اضافہ ہوا قبائل کی افرادی قوت اس زمین پر کام کرنے کے لیے ناکافی ہو گئی۔ اس افرادی قوت کو بڑھانے کے لیے مفتوحہ قبائل کے افراد کو غلام بنایا گیا اور یوں ذاتی ملکیت کے آغاز نے طبقات کو جنم دیا۔ یہ کرہ ارض پر پہلا طبقاتی نظام تھا جس میں انسان دو طبقوں یعنی آقا و غلام میں تقسیم ہوئے، ذاتی ملکیت کا جنم ہوا اور اس کے بڑھاوے اور تحفظ کے لیے ایک جنگ و جدل اور خونریزی کا آغاز ہوا جو اب تک کے طبقاتی سماجوں میں جاری ہے۔ اسی کے ساتھ اس طبقاتی جدوجہد کا بھی آغاز ہوا جو ان دو طبقات کے درمیان مستقل تضاد کی وجہ سے موجود تھا۔ یعنی انسان نے قدیم پنچایتی غیر طبقاتی سماج سے ایک طبقاتی سماج غلام داری میں قدم رکھا اور اس سماج نے دو طبقات کو جنم دیا، آقا اور غلام کے طبقات۔ ایک طرف آقاؤں کا طبقہ تھا یہ حاکم تھے، ذرائع پیداوار پہ قابض تھے اور ان کا محنت کے عمل میں کوئی عمل دخل نہ تھا تو دوسری طرف غلام تھے جو محنت کار تھے لیکن ذرائع پیداوار اور اپنی ہی محنت سے کی جانے والی پیداوار پر ان کا کسی قسم کا کوئی حق نہ تھا۔ایک طبقے کی محنت پر دوسرے طبقے کا تصرف اور استحصال کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔

غلام داری سماج نے بعد ازاں ارتقاء و انقلابات کے مراحل طے کرتے ہوئے جاگیرداری اور پھر سرمایہ داری میں قدم رکھا۔ سماجی ارتقاء سے طبقات کی نوعیت تو تبدیل ہوئی لیکن طبقات کا خاتمہ نہ ہوا۔ طبقات آقا اور غلام سے جاگیردار اور کسان اور پھر سرمایہ دار اور مزدور میں تبدیل تو ضرور ہوئے  لیکن طبقات کا وجود آج بھی موجود ہے۔ دونوں طبقات کے مفادات کا تضاد ان طبقات کے درمیان ایک نا ختم ہونے والی کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ یہ کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے اور یہ ہی طبقاتی جدوجہد کہلاتی ہے۔ یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک طبقات کا وجود ہے اور جب سماج ایک غیر طبقاتی سماج میں تبدیل ہوگا تو یہ جدوجہد خود بخود ختم ہو جائے گئی۔

معلوم انسانی تاریخ میں ہمیں اسپارٹیکس کی شکل میں غلاموں کی بغاوتیں ملتی ہیں، اسی طرح مزدک سے لے کر صوفی شاہ عنایت شہید کی تحریک کی شکل میں کسانوں کی بغاوتوں اور طبقاتی جدوجہد کا اظہار نظر آتا ہے۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام کے ابتدا کے بعد مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کی ابتدا ہوتی ہے جس کی ایک مثال 1871 کو پیرس کمیون اور پھریکم مئی 1886 کے شکاگو سے ہوتی ہوئی 1917 کے انقلابِ روس اور بعد کے سوشلسٹ انقلابات کی شکل میں نظر آتی ہیں ۔

ایک غیر طبقاتی سماج یعنی سوشلسٹ سماج ہی اس طبقاتی کشمکش کا خاتمہ کرے گا۔ سماج کا سرمایہ داری میں داخل ہونا سیاست کے نئے باب کھولتا ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد اور جاگیرداری کے زوال کے ساتھ سیاسی نظام میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں بورژوا جمہوریت ایک ہے۔ بورژوا یعنی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں انتخابات کا عمل اور طریقہ کار وضع ہوا اور مختلف سیاسی جماعتوں نے جنم لیا۔ ان جماعتوں میں اکثریت سرمایہ داروں کی سیاسی جماعتوں کی تھی یعنی ایسی جماعتیں جو سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی تھیں اور اسی طبقے کے مفادات کی محافظ تھیں اور ہیں۔ لیکن اس کے مقابل ایسی جماعتوں کا بھی وجود تھا جو محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتی تھیں اور محنت کش طبقے کے طبقاتی مفاد اور جبر سے نجات کے لیے جدوجہد کرتی تھیں۔ ان جماعتوں میں سب سے پہلے تشکیل پانے والی جماعت کمیونسٹ لیگ تھی جس کی بنیاد کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے رکھی۔کامریڈ لینن وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے محنت کش طبقے کی نمائندہ جماعت کی تشکیل اور کردار کے بنیادی اصول وضع کیے اور انہیں اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے دنیا کا پہلا سوشلسٹ مزدور انقلاب برپا کیا۔

اس وقت دنیا میں جتنی بھی جماعتیں ہیں یہ کسی نہ کسی طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسی طبقے کے مفادات کی لڑائی لڑ رہی ہیں یعنی سرمایہ دار، جاگیردار طبقے یا محنت کش طبقے کی نمائندہ جماعتیں۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان میں پائی جانے والی سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی طبقے کی نمائندگی اور اس کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہیں۔ پاکستانی سماج نیم سرمایہ دارانہ، نیم جاگیردارانہ سماج ہے چنانچہ سیاسی جماعتوں کی ساخت بھی اسی طرح کی ہے۔ پاکستان میں چار قسم کی جماعتیں وجود رکھتی ہیں، اول ایسی جماعتیں جن کی باگ ڈور جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوم وہ جماعتیں ہیں جو سرمایہ دار و نیم سرمایہ دار وں کے قبضے میں ہیں۔ سوم وہ جماعتیں جو مڈل کلاس پر مشتمل ہیں۔ ایسی جماعتوں میں مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں اور چہارم محنت کش طبقے کی نمائندگی کرنے والے سیاسی جماعتیں ہیں۔

پہلی قسم کی جماعتیں وہ ہیں جو جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں پہ مشتمل ہیں اور اسی طبقے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی عمل کا حصہ بنتی ہیں۔ ایسی جماعتیں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کے مفادات کی محافظ ہوتی ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد عملی طور پر اسی طبقے کے مفادات کے مطابق قانون سازی کرتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نفع جاگیرداروں کا ہو۔

دوسری قسم کی جماعتیں وہ ہیں جو سرمایہ داروں، تاجروں، چھوٹے کارخانے داروں، کاروباری حضرات، مخدوموں، پیروں پر مشتمل ہیں چنانچہ ہم ان جماعتوں کو نیم سرمایہ دار جماعتیں کہ سکتے ہیں کیوں کہ ان میں سرمایہ داروں کی اکثریت کے باوجود نیم سرمایہ دار، جاگیردار بھی شامل ہیں۔ یہ جماعتیں سرمایہ دار طبقے اور کاروباری لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ایسی قانون سازی کرتی ہیں کہ کاروباری لوگوں کے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے، کاروبار کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہوں اور محنت کشوں کی محنت کے استحصال سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔

تیسری قسم کی سیاسی جماعتوں میں اکثریت مڈل کلاس کی ہوتی ہے۔ مڈل کلاس ایک ایسا طبقہ ہے جو ہوتا محنت کش طبقہ ہے جو کسی حد تک ذاتی ملکیت رکھتا ہے۔ یہ خود کو محنت کشوں سے افضل سمجھتا ہے اس طبقے کی اگر شعوری تربیت طبقاتی بنیادوں پر نہ ہو تو اس کا جھکاؤ سرمایہ داروں کی طرف ہوتا ہے۔ محنت کشوں کے استادِ گرامی کارل مارکس کے مطابق مڈل کلاس وہ طبقہ ہے جس کے پاؤں کیچڑ میں دھنسے ہوتے ہیں لیکن نظر آسمان کی طرف ہوتی ہے۔ یعنی اس کی طبقاتی پوزیشن نازک ہوتی ہے یہ گردن تک محنت کش طبقے میں ہوتا ہے لیکن سر بورژوا (سرمایہ دار) طبقے میں ہوتا ہے۔ اسے ہر گھڑی یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن سے گر کر محنت کش طبقے میں نہ چلا جائے، اس کی نظر بورژوا طبقے میں شمولیت پر ہوتی ہے اور اسی لیے عمومی طور پر مڈل کلاس میں انفرادیت پسندی، خود پسندی، لالچ، خود غرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے چنانچہ یہ طبقہ بسا اوقات محنت کش طبقے سے موقع آنے پر غداری کا مرتکب بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن بہر صورت اس کا کردار منفی نہیں ہوتا دنیا کی انقلابی تحریکوں میں اس طبقے کے افراد نے ممتاز کردار بھی ادا کیا ہے ایسی جماعتیں جن میں اکثریت ایسے مڈل کلاسیوں پر مشتمل ہو جن کی طبقاتی بنیادوں پر شعوری تربیت نہ ہوئی ہو، سرمایہ دار طبقے کی گماشتہ جماعتیں ہوتی ہیں اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی ہی حفاظت کرتی ہیں۔ ایسی جماعتوں میں پاکستان میں پائی جانے والی مذہبی اور کچھ قوم پرست، لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والی جماعتوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

چوتھی قسم خالصتاً محنت کشوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ گو کہ اس وقت ایسی سیاسی جماعتیں اتنی طاقتور نہیں جتنی 60 اور 70 کی دہائی میں تھیں لیکن بہرحال یہ وجود رکھتی ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق محنت کشوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہیں۔ محنت کش طبقے کی نمائندہ جماعت میں محنت کشوں کے ساتھ ساتھ طبقاتی شعور رکھنے والے مڈل کلاس کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی نظریاتی تربیت طبقاتی بنیادوں پر ہوئی ہوتی ہے۔ چوں کہ مڈل کلاس ایک ایسی کلاس ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے محنت کش طبقے کے قریب ہوتی ہے چنانچہ طبقاتی شعور رکھنے والے مڈل کلاس کے نمائندے مخلص، وفادار اور اہم ساتھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود کامریڈ لینن کی ہے جو مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے تھے اور محنت کشوں کی راہنمائی کرتے ہوئے انقلاب روس کے معمار ثابت ہوئے۔

محنت کشوں کی جماعتوں کے علاوہ اس وقت پاکستان میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں ان کا منشور کم و بیش ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ اس میں محنت کش طبقے خاص کر محنت کشوں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پالیسی بنانا، کم سے کم اجرتوں، نوکریوں کی تقسیم و حصول، صحت کے شعبہ، تعلیم ، روزگار کی فراہمی، سوشل سکیورٹی، پنشن جیسی مراعات سے لیکر یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری تک سے کم و بیش ایک جیسی بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ ان جماعتوں کے منشور میں عمومی طور پر بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا وعدہ کیا جاتا ہے، روٹی، کپڑا اور مکان سے لے کر خوشحالی اورتبدیلی تک جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ محض نعروں اور وعدوں کی حد تک ہی ہوتے۔ وگرنہ دیکھا جائے توان پر کتنا مخلصانہ عملی کام کیا جا رہا ہے؟، کون سی جماعتیں عملی طور پر محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے لڑ رہی ہیں؟، ان حقوق کی حصول کے لیے مؤثر اقدامات کر رہی ہیں؟، اور ان حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں؟۔

مذکورہ بالا چار اقسام کی جماعتوں میں سے پہلی تین قسم کی جماعتیں کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں بھی رہ چکی ہیں اور اس وقت بھی ہیں، چنانچہ ان جماعتوں کے کام کا تنقیدی جائزہ لینا آسان ہے اور یہ بھی پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کون سی جماعت کس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے، کون سی جماعت ہے جو صحت، تعلیم، روزگار، گھر کی مفت فراہمی کے لیے کوشاں ہے، کون سی جماعت ہے جو بیروزگاری کے خاتمے، سوشل سیکورٹی کی فراہمی، مہنگائی میں کمی لانے میں کامیاب رہی ہے، غریب محنت کشوں پر ٹیکس ختم کر کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں پر بھاری ٹیکس عائد کر رہی ہو۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ تمام کی تمام وہ جماعتیں جو اقتدار میں ہیں یا رہ چکی ہیں عملی طور پر محنت کشوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کام نہیں کر رہیں بلکہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نفع کے لیے کام کر رہی ہیں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو زیادہ سے زیادہ محنت کشوں کے استحصال اور منافع کمانے کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔

کون سی جماعت ایسی ہے جس نے مزدور دشمن ٹھیکہ داری نظام، نجکاری کا خاتمہ کیا ہو، کم از کم تنخواہ، سوشل سیکورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ سمیت اپنے ہی تسلیم کردہ لیبر قوانین کے عملی اطلاق کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہوں؟۔ اس کا جواب ہو گا کوئی بھی نہیں۔ کوئی بھی جماعت جو اقتدار میں ہے یا رہ چکی اور پہلی تین قسم کی جماعتوں میں سے ایک ہے، وہ محنت کشوں کے مفادات کی محافظ نہیں ہے۔ کچھ تو یہ نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ مزدور کی اجرت اسی وقت یعنی روزمرہ کی بنیادوں پر دی جائیں۔ مذہبی شعار میں ملفوف یہ بات سننے کو تو کانوں کو بھلی لگتی ہے لیکن تکنیکی اعتبار سے نہایت بھیانک اور سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے۔ اجرتیں روزانہ کی بنیادوں پر ادا کریں اس طرح نہ تو پنشن دینی پڑے گی اور نہ ہی سوشل سیکورٹی اور دیگر مراعات جو محنت کشوں نے طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی ہیں۔ یعنی ملازمت دینے والا ایک مقررہ اجرت روز کے روز ادا کر دے اور باقی تمام ذمہ داریوں سے مبرا ہو جائے یعنی اگر کوئی حادثہ درپیش آئے اور مزدور معذور ہو جائے تو اس کے گزر بسر کی ضمانت نہیں ہے۔ یا مزدور کام کرنے کے قابل نہ رہے یعنی بوڑھا ہو جائے تو بھی اس کی زندگی گزارنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے یعنی محنت کش طبقے کے مفادات کے لیے کون جدوجہد کر رہا ہے۔ ہمیں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مذہبی پیشواؤں اور ان کے درمیانی طبقے کے نمائندوں سے کسی قسم کی امید وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں محنت کش طبقے کی طاقتور اور مضبوط جماعت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ، انھیں طاقتور، پہلے سے بہتر طبقاتی جدوجہد کو تیز تر، ذاتی ملکیت کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج یعنی سوشلزم کے لیے صف بندی کرنی چاہیے تاکہ ہم محنت کش طبقہ جو کہ دنیا کا اکثریتی طبقہ ہیں کل انسانیت کے لیے ایک ایسا سماجی نظام قائم کر سکیں جس میں ذرائعِ پیداوار اور ہونے والی پیداوار میں سب کی ساجھے داری ہو، جو ذاتی ملکیت، طبقات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی انسانیت کی قرن ہا قرن سے کی جانے والی تذلیل، جبر واستحصال کے خاتمے کا سنگِ بنیاد ہو۔ سرمایہ داری، جاگیرداری مردم خور طبقاتی نظام کا خاتمہ اور سوشلزم کا نفاذہی محنت کش طبقے کی نجات اور حقیقی آزادی کا راستہ ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشو  ایک ہو جاؤ !

Facebook Comments

ضیغم اسماعیل خاقان
میں اسلام آباد میں مقیم ہوں اور سماجی علوم کے مطالعہ اور تحریر و تقریر میں مصروف ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply