مغربی تہذیب کے اثرات۔۔اکرام الحق

بلاشبہ آج پوری دنیا مغربی تہذیب پر دیوانہ وار مرتی ہے اور اس حد تک فریفتہ ہوچکی ہے کہ ہر انسان مغربی لباس ، مغربی وضع قطع اور مغربی طور اطوار کو اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور اسلامی تہذیب سے دور بھاگتا دکھائی دیتا ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنی وضع قطع اور لباس میں مغربی اقوام کی پیروی کرتی ان کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ ہمارے مسلمان بھائی اسلام کی ارفع تعلیمات پر توجہ دینے کی بجائے غیروں کی باتوں کو اہمیت دینے لگتے ہیں اگرچہ ان لوگوں نے بھی اسلامی تعلیمات کی اساس پر ہی ترقی کی منازل پائی ہیں ۔

مغربی تہذیب اور ان کا تمدن ہمارے سماج ، تہذیب ، ہمارے گھریلو معاملا ت ، یہاں تک کہ ہماری زندگیوں کے چھوٹے چھوٹے معاملے پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے ـ اس کی وجہ سے ہمارے کھانے پینے کا ، پہننے اوڑھنے کا ، رہنے سہنے کا ، اٹھنے بیٹھنے کا ، بات چیت کا ، سوچنے سمجھنے کا، سب انداز ہی بدل گیا ہے ، چنانچہ آج کے زمانے میں جو چمچہ کی بجائے ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے اسے “ان کلچرڈ ” کہا جاتا ہے ـ جو لڑکی برقعہ استعمال کرتی ہے اسے دقیانوس سمجھاجاتا ہے ، جو اسلامی اصولوں کو اپناتا ہے اسے قدامت پسند خیال کیا جاتا ہے ـ ہم اس قدر مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ چکے کہ ہماری اپنی اسلامی تہذیب ہی کہیں کھو گئی ہے ـ خیال رہے کہ مغربی تہذیب کے یہ سارے اثرات صرف غیر مسلم لڑکیاں ہی نہیں بلکہ مسلم لڑکیاں بھی بڑی تیزی سے قبول کر رہی ہیں ـ اور وہ بھی غیروں کی طرح بے حیائی و بے پردگی کے سیلاب میں بہی جارہی ہیں ـ
بقول شاعر؀
نام کل تک تھا جن کا حیاداروں میں
آج وہ منہ کھولے ہوئے پھرتی ہیں بازاروں میں ​!

آج ہم جس تہذیب کو مشعلِ راہ سمجھ رہے ہیں ، وہ تہذیب محض ایک دھوکہ ہے ، فریب ہے ، ہمیں اپنے اصلی مقصد ، اسلامی واصلاحی مقصد سے دور کرنے کی سازش ہے ـ اس کے پیچھے ہم اپنے آپ کو حقیر و کمتر بنا رہے ہیں ـ
بقول شاعر؀
اس قدر ارزاں نہ کر خود کو تو ہے ایسی متاع
سہل ہے جس کی طلب ، دشوار ہے جس کا حصول ​!

ضرورت اس بات کی کہ ہم ہوش میں آئیں ـ اسلامی تہذیب کو اپنا لیں اور مغربی تہذیب کو ٹھکرا دیں
خواتین کو بھی تلاشِ معاش کے لیے گھروں سے نکلنا پڑرہا ہے۔ہمارے ہاں خواتین کے احترام کی روایت اب مضبوط نہیں رہی ۔ اسی طرح لوگ بالعموم مرد و زن کے اختلاط کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ اس لیے یہ یہ مخلوط معاشرت اپنے ساتھ نئے اخلاقی مسائل لارہی ہے۔پھر بہت سی جگہوں پر خواتین کو ان کی نسوانیت ہی کی بنا پر ملازمت ملتی ہے۔اس کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔میڈیا اور اشتہارات کی صنعت میں کم اور تنگ کپڑے پہننے ہی سے کافی پیسے مل جاتے ہیں۔اس لیے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں بھی اس میدان میں اتررہی ہیں۔جو زیادہ غریب ہیں وہ دوسرے طریقے سے اپنی قیمت وصول کررہی ہیں۔

مغربی تہذیب کے عطا کردہ فتنوں میں سے ایک بڑا ماڈرن شادی کا چلن بھی ہے ـ چنانچہ آج کے زمانے میں لڑکا لڑکی اسلامی شادی جو چند نہایت ہی سادہ امورپر مشتمل ہے ، اپنانے کی بجائے ، شادی سے پہلے مہینوں دوستی کا تماشہ کرتے ہیں اور جب ان سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے لائف پارٹنر کے خیالات جاننے کے لئے ایسا کرتے ہیں تاکی شادی کے بعد ہم میں مس انڈرسٹینڈ نگ نہ ہوـ اس طرح شادی سے پہلے رسم منگنی کی ادائیگی اور شادی میں جہیز کو جزو لازم سمجھتے ہیں ـ اسی طرح آرکیسڑا ، مرد و زن کے باہمی ڈانس ، موسیقی ، ڈرنکنگ اور دیگر فضولیت کو لازمی قرار دیتے ہیں ـ

جس معاشرے میں نہ دوا خالص ملتی ہو نہ غذا اس کی اخلاقی حیثیت پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ جہاں ہر ناجائز کام رشوت دے کر کرانا ممکن ہو اور بغیر رشوت کے کسی جائز کام کا کرنا ناممکن ہو، اس معاشرے کی اسلامی حیثیت پر سوال پیدا ہونا لازمی ہے۔ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم دنیا کی سب سے زیادہ بدعنوان ریاست تھے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں کرپشن کی صورتحال میں ابھی تک کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی۔ کاروباری طبقہ ناجائز منافع خوری اور غیر معیاری اشیا کی فراہمی سے اپنے خزانوں میں ہر روز اضافہ کررہا ہے۔جن غریب غربا کے لیے یہ راستے بند ہیں انہوں نے جرائم کی راہ اپنالی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قرآن اور حدیث ہدایت کا ماخذ ہیں۔اس میں ہمیں الف سے لیکر والسلام ، انفرادی سے لیکر اجتماعی زندگی تک ، جینے کے طریقوں سے لیکر عائلی قوانین تک ،سیاست سے لیکر سماجیات تک ، اخلاق سے لیکر معاشیات و معاشرت تک ۔تمام کا احاطہ مکمل کیا گیا ہے ۔
وہی حدود ہمارے حدود اور یہی مشعل راہ ہے۔۔۔
ورنہ اخلاقی گراوٹ کی معراج کو ہم انتہا نہ سمجھیں۔ بہت کچھ مزید خرابیاں بھی ہمارے سماج میں شامل ہوتی رہیں گی ۔
آخر میں اس خصوصی دعا کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ
اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ہمیں‌اتنی قوت عطا فرمائے کہ ہم ان تمام فتنوں کا مقابلہ کرسکیں۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مغربی تہذیب کے اثرات۔۔اکرام الحق

Leave a Reply to Annas Niaz Cancel reply