ہمارے وقت نے ہم کو شکست بھی دے دی،
وہ ماہ و سال جو میراثِ مشترک تھے کبھی،
وہ اب مقدمہِ تقسیم کا اثاثہ ہیں،
مگرفراق و وصل میں تو کچھ عجیب نہیں،
عجب نہیں کہ مجھے تیری زلف کا سایہ،
چہاردانگ میں،عالم میں ،دن میں دکھتا ہے،
کہ صنعتِ الم میں درد ہی توبکتاہے،
نہ تیرےعارض ولب کی نہ سرو قامت کی
ہمارے دل میں گھڑی ہےتو بس قیامت کی
نہ ہم،نہ تیری جبیں مثلِ انگبیں جیسے
ہر اک ادا میں شرارے تھے آ تشیں جیسے
کشید کرتے تھے گردن سے آبگیں جیسے
طوافِ پہلوے جانِ جہان کرتے تھے
سپرد خود کو درآغوشِ آن کرتے تھے
تو اب جہاں ہے تو سن لےاے میری جانِ فراق
کہ تیری طرح بھی ہے یاد سابقہ تیری
وہ سابقہ کہ جو اب حسبِ حال شامل ہے
وہ مشق جو میری انفاس کا سہارہ ہے
ہمارے ہجر کاموسم خوش آگیا ہے ہمیں
تجھے بھی عشق کا سودا بہت مبارک ہو
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سابقہ۔۔محمد علی جعفری“