امریکیوں کی پاکستان شناسی۔۔رشید یوسفزئی

پاک امریکہ تعلقات کے  تین ادوار میں پہلا  اور بنیادی دور 50 اور ساٹھ کی دہائی ہے، سرد جنگ کے  باقاعدہ آغاز پر عصر حاضر کے مؤرخین اور بین الاقوامی امور کے ماہرین متفق نہیں، تاہم عربی نژاد امریکی سکالر راشد خالدی کے بقول متعلقہ ماہرین کی زیادہ تعداد 1945 کو سرد جنگ کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے تو سرد جنگ اور پاک امریکہ تعلقات کچھ کم و بیش ہم عصر ہیں۔

پچاس کی دہائی میں کمیونزم کی تحدید کیلئے امریکہ نے ایشیائی ممالک میں مختلف معاہدے کیے جن میں سیٹو CEATO اور سینٹو CENTO پاکستان کے حوالے سے قابل ذکر ہیں،پاکستان ایک نوزائیدہ ملک کی  حیثیت سے عالمی نقشے پر ابھرا تھا اور امریکیوں کی  بھاری اکثریت پاکستان پر زیادہ اعتماد کے حق میں نہ تھی ‘ جبکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پاکستان کو مذکورہ معاہدات میں شامل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کرتا رہا۔ سرد جنگ کے تصور کے مؤجد اور مشہور امریکی صحافی والٹر لیپمن Walter Lippmann سیٹو میں پاکستان کی  شمولیت کے مخالفین  میں  سر فہرست تھے، پاکستان کے حوالے سے ایک مضحکہ خیز واقعہ لیپمن کے سوانح نگار پروفیسر رونالڈ سٹیل Ronald Steele نے اپنی کتاب
WALTER LIPPMANN AND THE AMERICAN CENTURY
میں ذکر کیا ہے کہ سیکرٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈلس Jhon Foster Dulles نے لیپمن کو پاکستان کے حوالے سے اعتماد میں لینے کیلئے ظہرانے پرمدعو کیا، کھانے پر ڈلس نے لیپمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
“Look, Walter, I have got to put some real fighting men into South Asia. Thats why we need them in the alliance. The only men who can fight South Asian are Pakistanis; we can never get along without the Gurkhas.”
Lippmann snapped, “But, Foster, Gurkhas are not Pakistanis. They are Indians.”
“Well”, Responded Dulles unperturbed by such details, ” they may not be Pakistanis but they are Muslims.”
Lippmann: “No, no, I am afraid they are not even Muslims. They are Hindus.”
Dulles: “No matter, who they are……..”
Responded the secretary of state and proceeded to lecture Lippmann for half an hour on the virtues of SEATO.
( جبکہ گورکھے نہ پاکستانی ہیں نہ انڈین،  بلکہ نیپالی ہیں)
یہ واقعہ صرف جان فاسٹر ڈلس سے مخصوص نہیں، پاکستانی امور کے تقریباً ہر امریکی ماہر کی یہی حالت ہے۔

پامیلا کانسٹیبل Pamela Constable کافی طویل عرصہ سے پاکستان میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی نمائندہ ہیں  اور سالوں سے پاکستانی موضوعات پر لکھتی آئی ہیں ، پامیلا کی آخری کتابPlaying With Fire
امریکہ  سے شائع ہوچکی ہے، سیلاب کی  تباہ کاریوں سے آغاز کرتے ہوئے، غربت، بے روزگاری، انتہاپسندی، فرقہ وارانہ فسادات، شدت پسندی، دہشت گردی، عدلیہ، سیاست اور ملٹری تک مصنفہ نے کہیں سطحی کہیں دقیق خامہ فرسائی کی ہے۔ مصنفہ نے ایسا تاثر دیا ہے کہ محترمہ بنفس نفیس سندھ کے دیہاتوں، پنجاب کے شہروں، بازاروں اور مزاروں سے لے کر خیبر پختونخوا اور فاٹا کے مزاروں تک   روایتی فقیروں اور سادھوؤں کی  طرح پھرتی رہی ہیں ، جبکہ ساری روایات کی سطحیت سے لگتا ہے کہ پامیلا کی  ساری  اطلاعات کی حقیقت مقامی صحافیوں کے موبائل کے ذریعے لی  گئی ، گپ شپ سے زیادہ نہیں، پامیلا کی  کچھ غلطیوں کی املا تعجب خیز ہے۔

جماعت اسلامی  پاکستان کی ایک ایسی سیاسی مذہبی جماعت جس پر مغربی دنیا میں شاید سب سے زیادہ  لکھا گیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب اسلامی نظریاتی اور سیاسی لٹریچر کے حوالے سے تحقیقی دنیا میں کسی تعارف کے  محتاج نہیں۔ کتاب کے صفحہ 60 پر مصنفہ نے قاضی حسین احمد کو جماعت کا بانی لکھا ہے۔
سپاہ صحابہ پاکستان کا ترجمہ صفحہ 86 پر
Ranks of the Companions of Prophet
لکھا ہے۔

پاکستانی فوج برطانیہ  کی جانشین ہے اور اس کے عہدے اور مراتب بالکل برٹش آرمی کی  طرز پر ہیں۔ پاک آرمی کا ایک ستارے والا one star جنرل، بریگیڈیئر کہلاتا ہے، دوستاری 2 star جنرل، میجر جنرل اور تین ستاری جنرل 3 star جنرل لیفٹیننٹ جنرل کہلاتا ہے، جبکہ گریڈ اکیس کا مکمل جنرل چیف آف آرمی سٹاف چار ستاری 4 star جنرل ہوتا  ہے  اور صدر مملکت خود پانچ ستاری 5 star جنرل یا سپہ سالار ہوتا ہے۔( پاکستان کی  ملازمت کے قواعد و ضوابط کے مطابق گریڈ اکیس افسر چیف آف آرمی سٹاف کے اوپر گریڈ 22 کا سیکرٹری ڈیفنس ہوتا ہے حقیقت میں سول سروس کا بندہ ہونا چاہیے تاکہ سویلین برتری برقرار رہے. پاکستان میں عموماً اس عہدے پر کرنل سے لیفٹیننٹ جنرل تک بندہ رکھا جاتا ہے تاکہ اس کے برعکس مقاصد حاصل ہوں۔۔اور آپ مانیں یا نہ  مانیں ،زرداری آپ کے سپہ سالار تھے اور ممنون حسین اب بھی ہیں)

پامیلا نے آرمی اور آئی ایس آئی پر اچھی  تنقید کی ہے تاہم صفحہ 95 پر سابق ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل احسان الحق کو چار ستاری جنرل 4 Star General لکھا ہے۔ صفحہ 102 پر پاک فوج کے موٹو’ ایمان، جہاد، تقوی کو انعام لکھا ہے جو ٹائپنگ کی غلطی ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں سات خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں ، آئی بی پاکستان کا  پہلا خفیہ ادارہ ہے، اس ادارے کا فائدہ اور ذمہ داریاں ادارے کے ملازمین اور سربراہان کو بھی پتہ نہیں تاہم ادارہ وزیراعظم کے ماتحت ہے اور ایک آئی جی رینک کا سول پولیس آفسر اس کا ڈائریکٹر جنرل ہوتا ہے، تاہم صفحہ 109 پر محقق صاحبہ نے آئی بی کو ملٹری ادارہ لکھا ہے۔
پاکستان سے متعلق دوسری اطلاعات ثانوی درجہ رکھتی  ہیں لیکن ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے، کہ پامیلا کانسٹیبل نے صفحہ 194 پر لکھا ہے کہ “پاکستان کی بنیاد جناح نے 1948 میں رکھی”۔

عالمی شہرت یافتہ، عمر رسیدہ محقق اور جرنلسٹ سے ایک ذمہ دار تحقیق اور مستند کتاب کی توقع تھی مگر محترمہ  نےایسے  لکھا جیسے کوئی  اوپن یونیورسٹی کا طالبعلم اسائمنٹ لکھتا ہو۔
وائٹ ہاوس اور امریکی دفاع سے وابستہ فاٹا امور کے سابق ماہر ڈینیئل مرکی Daniel S. Murky نے گزشتہ دہائی میں پاکستان پر اپنی  کتاب No Exit from Pakistan میں ایک جگہ لکھا ہے کہ دارلعلوم حقانیہ پاک افغان سرحد ڈیورنڈ لائن پر واقع ہے، جبکہ پاکستان کے مذہبی جغرافیہ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ دارلعلوم حقانیہ پنجاب کی  سرحد پر ضلع نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک میں واقع ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ غلطیاں شاید زیادہ اہمیت کی  حامل نہ  ہوں، تاہم بیرونی دنیا کے طالب علموں کیلئے یقیناً گمراہ کن ہیں۔ 2011 میں غلط نشانے پر کیے گئے ایک ڈرون حملے کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی حکام نے یہ توضیح  پیش کی تھی کہ لوکیشن کے تعین میں غلطی ہوئی تھی، لیکن مذکورہ حملے میں درجنوں بے گناہوں کی جان گئی تھی۔
اس واقعہ  کے بیان کرنے کے بعد جواب میں مولانا فضل الرحمن نے راقم کو بتایا کہ پاکستانی اربابان بست و کشاد تو اس سے بھی بڑھے کر ہیں، “ایک اہم خارجی میٹنگ میں وزیر خارجہ، حنا ربانی کھر نے مجھ سے پوچھا کیا وزیرستان، وانا میں ہے؟”

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply