خدا ایک ویران سڑک پر درخت کے نیچے بینچ پر اداس بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں خلا میں جمی ہوئی تھیں۔ پیشانی پر شکنیں تھیں۔ ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔
جھٹپٹے کا وقت تھا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ میں نے خدا کو دیکھ کر سکوٹر روک لیا۔
’’خیریت؟ تنہا کیوں بیٹھے ہو؟ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟‘‘ میں نے سکوٹر پر بیٹھے بیٹھے پوچھا۔
’’میں راستہ بھول گیا ہوں۔ کیا تم مجھے میرے گھر پہنچا سکتے ہو؟‘‘ خدا نے خالی خالی نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے سکوٹر اسٹارٹ کیا۔ خدا میرے پیچھے بیٹھ گیا۔
میں نے چار قدم پر ایک مسجد کے سامنے جاکر سکوٹر روکا۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگ جاچکے تھے۔ مولوی صاحب دروازے سے نکل رہے تھے۔
’’السلام علیکم مولانا! یہ خدا صاحب ہیں۔ راستہ بھول گئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ گھر پہنچا دو۔ میں انھیں یہاں لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے عرض گزاری۔
یہ بھی پڑھیں : آوارہ عورت۔۔مریم مجید/،قسط1
مولوی صاحب کو غصہ آگیا۔
‘‘کیا بکواس ہے۔ خدا صاحب کو بھوک لگی ہے تو سیلانی کے دسترخوان پر لے جاؤ۔ سر چھپانے کو جگہ چاہیے تو ایدھی سینٹر موجود ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی انتظام نہیں۔ غضب خدا کا، لوگ مسجدوں پر قبضے کرنے چلے آتے ہیں۔‘‘
خدا حیرت سے منہ کھولے سب سنتا رہا۔ میں نے اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہم ایک امام بارگاہ پہنچے۔ محرم کے دن نہیں تھے اس لیے وہاں متولی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ چلے آئے۔
’’السلام علیکم حضرت! یہ خدا صاحب ہیں۔ راستہ بھول گئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ گھر پہنچا دو۔ میں انھیں یہاں لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے انھیں آگاہ کیا۔
’’کیا ہانک رہے ہو میاں؟ یہاں حضرت علی اور امام حسین رہتے ہیں۔ اور کسی کے قیام کا بندوبست نہیں ہوسکتا۔ خدا صاحب کو بھوک لگی ہے تو ملک ریاض کے دسترخوان پر لے جاؤ۔ سر چھپانے کو جگہ چاہیے تو کوئی مزار دیکھو۔ جاتے جاتے یہ تو بتادو کہ خدا صاحب کس آیت اللہ کی تقلید میں ہیں؟‘‘
یہ بھی پڑھیں : کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 19
خدا حیرت سے منہ کھولے سب سنتا رہا۔ میں نے سکوٹر اسٹارٹ کیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہم ایک گرجا گھر پہنچے۔ رات ہوچکی تھی اور وہاں پادری کے سوا کوئی نہیں تھا۔ میں نے ڈور بیل بجائی تو وہ باہر آگئے۔
’’گڈ ایوننگ فادر! یہ گاڈ صاحب ہیں۔ راستہ بھول گئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ گھر پہنچا دو۔ میں انھیں یہاں لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے مسئلہ بیان کیا۔
’’مائی سن، تم جانتے ہو کہ مغربی تہذیب میں بیٹا جوان ہوجاتا ہے تو اپنا گھر بناتا ہے۔ باپ الگ گھر میں رہتا ہے۔ تم انھیں غلطی سے بیٹے کے گھر لے آئے ہو۔ اگر گاڈ صاحب کو بھوک لگی ہے تو انھیں سینٹ مائیکل چیریٹی لے جاؤ۔ اگر انھیں سر چھپانے کو جگہ چاہیے تو سینٹ میری سینٹر کا رخ کرو۔‘‘
خدا حیرت سے منہ کھولے سب سنتا رہا۔ میں نے سکوٹر اسٹارٹ کیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہم ایک مندر پہنچے۔ رات بھیگ رہی تھی۔ پنڈت کے کمرے میں روشنی ہورہی تھی اور دھیمی موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ میں نے دروازے پر جاکر آواز دی تو وہ نکل آئے۔
’’رام رام پنڈت جی! یہ بھگوان صاحب ہیں۔ راستہ بھول گئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ گھر پہنچا دو۔ میں انھیں یہاں لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
ہ’مورکھ، یہ کالی ماتا کا مندر ہے۔ یہاں ہم پجاریوں کے سوا کوئی مرد نہیں رہ سکتا۔ اگر ان کی کوئی بیٹی یا بہن ہے تو ہم بندوبست کردیتے ہیں۔ اگر بھگوان صاحب کو بھوک لگی ہے تو پرساد نگر لے جاؤ۔ اگر سر چھپانے کو کوئی جگہ نہیں تو گاندھی آشرم پہنچا دو۔‘‘
خدا حیرت سے منہ کھولے سب سنتا رہا۔ میں نے سکوٹر سٹارٹ کیا اور انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
آدھی رات ہوچکی تھی۔ میں خدا کو لے کر ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک شراب خانے پہنچا۔ اس کا مالک میرا دوست تھا۔ ہم اندر گئے تو کچھ شریف لوگ بوتلیں سامنے رکھے مذہب پر گفتگو کررہے تھے۔
’’کیا تم شراب پیتے ہو؟‘‘ خدا نے دریافت کیا۔
’’نہیں، میں نہیں پیتا۔ لیکن اس وقت شہر میں کہیں اور نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ پولیس آوارہ گردی کے الزام میں پکڑ کے تھانے میں بند کردیتی ہے۔ میں تو چھوٹ جاؤں گا لیکن تمھاری ضمانت کون دے گا؟‘‘ میں نے تیز لہجے میں کہا۔ خدا نے حیران ہوکر مجھے دیکھا تو میں چپکا ہوگیا۔ پھر میں نے جیب ٹٹولی۔
یہ بھی پڑھیں : اسلامی شریعت اور حلالہ۔۔عمار خان ناصر
’’میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ لیکن تمھیں ریل کا ایک ٹکٹ ضرور خرید کے دے سکتا ہوں۔ یہ بڑا شہر ہے اس لیے کوئی تمھیں رکھنے کو تیار نہیں۔ تم ٹرین میں بیٹھ جاؤ اور کسی بھی چھوٹے شہر یا قصبے کے اسٹیشن پر اتر جانا۔ بہت امید ہے کہ وہاں تمھیں کوئی میزبان مل جائے۔‘‘ میں نے کہا۔ خدا نے سر ہلایا۔ میں نے جیب سے برآمد ہونے والے پندرہ سو روپے میں سے ایک نوٹ رکھ کر باقی رقم خدا کو دے دی۔
’’جاتے جاتے کوئی آیت، کوئی دعا، کوئی وظیفہ بتاتے جاؤ!‘‘ میں نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ فرمائش کی۔
خدا نے ساتھ والی میز سے ایک بوتل اٹھائی اور میرے سامنے رکھے گلاس کو بھر دیا۔
Facebook Comments
بہت خوب. دوستووسکی کی برادر کراموزوف یاد آ گئی. کرشن چندر کا ایک افسانہ بھی اس موضوع پر ہے. اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنے تعصبات میں اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اصل اگر سامنے آجائے تو یہی ہوتا ہے
بھائی بہت بھاری ھے
اور ہم بہت کمزور اور ناتواں
بوجھ نہ اٹھا پائیں گے
کیا بات ہے, کیا بات ہے , مذہب کے تمام ٹھیکیداروں کا آپریشن کر کے رکھ دیا ,
خدا کے جھوٹے نام لیواؤں کو بے نقاب کرتی ایک سچی تحریر ۔
مختصر اور جامع تحریریں لکھنا زیدی کا کمال فن ہے۔۔۔۔
بے مثال ۔۔۔۔بے مثال ۔۔۔۔
یہ تحریر اردو ادب کا ایک فن پارہ کہلائے گی ۔
Is mozoou par mazmoon likhnay ka irada barso say that magar munasib alfaz nahi milay thay
اپنی لادینیت کے پرچار میں اور مذہبی رہنماوں کی تنقید میں اتنا آگے بڑھ گئے زیدی صاحب کہ خدا کو ایک بےبس اور بے آسرا ذات باور کروادیا… کاش آپ میں اتنی عقل ہوتی تو کسی کے خدا پر تنقید کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتے کہ پھر وہ آپ کے خدا کو برا کہیں گے اور نتیجہ سوائے نفرت و انتشار کے کچھ نہیں نکلے گا.
انسانیت کو سب سے بڑے ٹھیکیدار انسانوں کے جذبات کا یوں استحصال کر رہے ہیں جیسے قلم آپ کے باپ کی جاگیر ہے؟