ورثہ جو ہم کھو رہے ہیں

صاحبانِ گرامی قدر ہم اپنے کچھ ایسے اثاثے کھوتے جا رہے ہیں جو اگر دنیا میں کسی اور قوم کو ملتے تو وہ نہ صرف ان کی دیکھ بھال کرتے بلکہ ان سے اپنے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بناتے بلکہ ان کی مارکیٹنگ کر کے سیاحت سے کمائی بھی کرتے اور اپنے ملک کی ایک سافٹ امیج بھی دنیا میں بنا سکتے تھے لیکن ہم نے اس کی بجائے زیادہ بہتر اس چیز کو سمجھا کہ ان پرانی جگہوں کا کیا کرنا ہے لہذا اسے گرا کر ان کی اینٹوں سے اور دوسرے چیزوں کسی اور کام کے لیے کوئی اور چیز بنائی جائے۔۔اگلے روز ایمن آباد جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ بڑا دھچکہ لگا کہ وہ قصبہ جو کہ ایک کمیونٹی کے لئے انتہائی پُرکشش اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے اوراس میں ان کے لیے ایک خاص کششِ ہے ہم نے اس کا نہ صرف حلیہ بگاڑ دیا، بلکہ آج سے پندرہ سال پہلے تک جو بچے کھچے آثارتھے ان کو بھی ختم کر کے وہاں پر ہاوسنگ اسکیم بنا دیا اور اسکی منظوری دے دی گئی ہے اور کوئی دن گزرنے کی بات ہے کہ وہاں لگنے والا مشہور زمانہ میلہ بیساکھی کی گراونڈ بھی کسی اسکیم کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا ۔دنیا کھدائی کر کر کے آثار قدیمہ تلاش کر رہی ہے اور ہم اپنے ہاتھ سے ان قیمتی خزانوں کو تباہ کرتے جا رہے ہیں ۔ایسا ہی معاملہ گلگت بلتستان نہیں داسو کے پاس موجود پتھریلی چٹانوں پر لکھی ہوئی تحاریر کا ہے جنھیں محفوظ بنانے کی بجائے ہم یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ دریا برد کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو گمراہی سے بچایا جائے ۔حالانکہ اگر یہ تحریری پتھر کسی اور ملک میں ہوتے تو وہ ان کو بچانے کی خاطر اگر منصوبہ ختم کرنا پڑتا تو ان کی ترجیح ان آثار قدیمہ کی حفاظت ہوتا مگر صاحبان ہم ان جیسے تھوڑی ہیں جو ان بیکار پتھروں سے سر ٹکراتے پھریں ہم تو ان کی بجری بناکر کسی استعمال میں لانا زیادہ اہم سمجھتے ہیں ایسے خزانے آپ کو ملک پاکستان میں جگہ جگہ ملیں گے ۔ان کی فراوانی ہمیں یہ آزادی دیتی ہے ہم ایسی بیکار چیزیں کسی کارآمد استعمال میں لائیں نہ کہ ان کو سنبھالتے پھریں ۔

Facebook Comments

ممتاز ناظر
مطالعہ اور سیروتفریح کا شوق ہے ۔اور اپنا زمینداری پرگزر بسرہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply