کشمیری جوانوں کی بیروزگاری،اسباب،سدِ باب۔۔ غازی سہیل خان

تمام والدین کا یہ  خواب ہوتا ہے کہ اپنے بچے کوپڑھا ئیں  لکھائیں ،  تا کہ  وہ اچھی نوکری حاصل کرنے کے بعد ان کے بڑھاپے کا   سہارا بنیں ۔جب بچے کو  سکول میں داخل کرایاجا تا ہے تو وہاں پہ بھی اس کو یہی بات ذہن نشیں کروائی جاتی ہے کہ پڑھو گے تو اچھی نوکری ملے گی، جب یہی بچہ اپنی پڑھائی مکمل کر لیتا ہے تو بس نوکری کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب کہاں کوئی موقع  ملے تا کہ کسی سرکاری نوکری کے لئے درخواست جمع کرائے۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک نوجوان کا ذہن تازہ ہو جاتا ہے وہ ہر  مسئلے  پر  تمام پہلوؤں  سے سوچ سکتا ہے، اپنی ذہنی استعداد کےت بل بوتے پر  وہ سماج کے مسائل کا حل تلاش کر سکتا ہے۔

مگر کشمیر میں ایسا کچھ نہیں ہے، یہاں پہ جتنی تعلیم بڑھتی ہے اتنے ہی  زیادہ  مسائل  جنم لے رہے ہیں ۔ارض جموں کشمیر میں  اس وقت نوجوانوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے ، جن میں  بے روزگاری  سرِ فہرست ہے۔1947  سے ہندوستان اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد دنیا کا مظلوم ترین اور بدنصیب خطہ   جموں کشمیر غلامی کے دلدل میں پھنس گیا اور نوجوان سامراجی قوتوں کا پہلا نشانہ بنے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی آزادی پر وقت کے فرعونوں نے ضربیں  لگائیں ،اور یہی    نوجوان اپنی آزادی کو   غلامی  میں تبدیل ہوتا دیکھ کر   غم و الم میں ڈوب گیا اور اس  ظلم و ستم  نے     نوجوانوں کے دل و دماغ کو بے حد متاثر کیا ، اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ جموں کشمیر کے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد  ذہنی مریض بن  چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  بلوچستان میں بیروزگاری کا عفریت اور عوامی وسائل کی لوٹ مار

اسی طرح  اس مسئلے  کا اثر براہ راست کشمیر کی معیشت  پر  بھی پڑا ہے اور  یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ  نوجوان ‘پولیس ،آرمی اور مختلف   نوکریاں   حاصل کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے  ہیں۔ہر  نوجوان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد  (عصر حاضرمیں تعلیم کا مقصد ہی سرکاری نوکری ہے)سرکاری نوکر ی حاصل کرے گا اس کے بعد    گھر بسا ئے، نیا گھر اور گاڑی ہو  اور زندگی   سکون   سے  گزرے۔لیکن جب یہ نوجوان عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تو یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا ، یہاں پر ڈیلی ویجز کی نوکری حاصل کرنے کے لئے بھی ہزارروں  ، لاکھوں روپے بطور رشوت دینے پڑ رہے ہیں اور وہ بھی جب کوئی منسٹر چاہے۔دوسری   ستم ظریفی یہ کہ کشمیرمیں پرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں نہ تو کارخانے ہیں اور نہ ہی دوسری کمپنیاں، جب یہی نوجوان ریاست سے باہر کسی پرائیویٹ کمپنی یا کارخانے میں کام کی غرض سے  کہیں اور  جاتے ہیں تو وہاں ان ہی نوجوانوں  کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کوئی بد نصیب ایسا بھی ہوتا ہے جس کو فرضی کیسوں میں پھنسا کر حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے،اور جو بچ جائے وہ اس کے دن رات خؤف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں ۔یعنی جب یہ نوجوان سرکاری نوکری حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور  ذریعے سے معاش کما سکتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ  یہی نوجوان غلط کاموں میں لگ جاتے ہیں،بے راہروی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ڈگری بیچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ہر محکمے  میں کا م کرنے والے عملے کی کمی ہے یہاں کے تعلیمی اداروں میں جہاں پر  بیس اساتذہ کی ضرورت ہے وہاں پہ دس سے پندرہ ہی دستیاب ہیں، جن میں سے تین چار کو عارضی  بنیادوں پر تعینات کیا  ہوتا ہے۔جس دفتر میں دس افراد کی ضرورت ہے وہاں پر پانچ ہی دستیاب ہیں جس کی وجہ سے عوام کو بھی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور رشوت خوری کو بھی فرو غ ملتا ہے۔اور دوسری وجہ یہاں کے پرائیویٹ سیکٹر کو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کیا گیا ہے۔یہاں جتنی بھی آج تک حکومتیں بنی ہیں کسی نے بھی آج تک پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ نہیں دیا۔یہاں کی سیاحت کو ایک منظم پروگرام کے تحت بھارتی میڈیا کے ذریعے سے ختم کرایا جا رہا ہے۔یہاں کے ہُنرمند نوجوانوں کے کام کے مواقع  مفقود ہو تے جا رہے ہیں۔اور نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں کے ذریعے ہی رزق کمانے کو کہا جاتا ہے جس کی مثال ہمیں حال ہی میں ملی کہ ٹیچرپوسٹس کے لئے حکومت نے درخواستیں جمع کرنے کے لیے  ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں ایک اُمیدوار کو350 روپے فارم کے ساتھ جمع کرانے کو کہا گیا اور اس طرح سے کروڑوں روپے سرکاری خزانے میں   جمع کیے گئے اور دوسری طرف شومئی قسمت کہ  ایک پوسٹ کے لئے 170اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ بھی کرایا جا رہا ہے۔اس طرح  بے روزگار نوجوانوں کو اور زیادہ آزمائش میں ڈال  دیا گیا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں :  بجٹ،بیروزگاری اور خودکشی

Advertisements
julia rana solicitors

بے روز گار نوجوانوں  کو اس ذہنی پریشانی سے نکالنے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے حکومت کو چاہیے  کہ بے روزگاروں کے مفاد کی  سکیمیں  متعار کروائے، پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط ہی نہیں از سر نو تعمیر کیا جائے۔اسی طرح سے لاکھوں کی تعداد میں خالی اسامیاں پڑی ہوئی ہیں جن کو پُر  کرنے کی  ضرورت ہے،انفراسٹرکچر کو بڑھاوا دیں کچھ سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی بھی بے حد ضرورت ہے رشوت خوری،بدعنوانی کا قلع قمع کریں اور سب سے اہم بات سیاحت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور سیاسی،سماجی اور مذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی چاہیے   کہ نوجوانوں کو اس کٹھن گھڑی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ    ہمارے نوجوان اس بے روز گاری کے دلدل سے نجات پانے میں کامیاب ہو سکیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”کشمیری جوانوں کی بیروزگاری،اسباب،سدِ باب۔۔ غازی سہیل خان

  1. کشمیری نوجوانوں کو بے روزگاری کے مصائب میں پهانس کر انہیں اپنے مستقبل (آزادی کی جدوجہدسے غافل کیا جارہا ہے.

Leave a Reply to حمنہ بخاری Cancel reply