متبادل بیانیہ کے حقیقی مالک۔۔۔۔ ایم کیوایم کا مستقبل

شاگرد : کیا ملک میں واقعی کسی متبادل بیانیہ کی ترویج پر کام ہو رہا ہے اور کیا یہ ممکن ہو سکے گا ۔
استاد : دو الگ الگ سوال ہیں جیسے خواہش کرنا اور اسکا پورا ہونا دو الگ باتیں ہیں ۔ سماج میں تبدیلی کسی خواہش کے زیر اثر راتوں رات ممکن نہیں اس کیلئے ایک ازاد ماحول میں پرورش پانے والے شعوری ارتقا کا انتظار کرنا پڑتا ہے اس کے برعکس جب کسی خواہش کے زیر اثر زمینی حفائق کے بر خلاف کسی بیانیہ کو مصنوعی طور پر سماج پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو نتائج علاوہ تباھی و بربادی کے نہیں نکلتے ۔
شاگرد : چالیس سال قبل جب طلبا یونینوں ، ٹریڈیونینوں پر پابندی لگا کر صحت مند مکالمے کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے اور بزور طاقت ایک من چاہی مذہبی تشریح کا سہارا لیکر جہادی کلچر متعارف کروا کر پوری قوم پر عسکری نظریات کا کوہ گراں گرایا گیا تھا وہ بھی تو اس خطے کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے برعکس تھا مگر آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات ہمیں ہر شعبہ زندگی میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔
استاد : طاقت کے زور پر کسی بیانیہ کی ترویج میں قبولیت عام کا عنصر ہمیشہ معدوم رہتا ہے معاشرے کا ایک خاص طبقہ ضرور ان خیالات سے متاثر ہوتا ہے اور انھیں آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا سبب بھی بنتا ہے مگر بحیثیت مجموعی جبر سے نافذ کیئے جانے والے بیانیہ کو اکثریت کی جانب سے کبھی حمایت نہیں ملتی سو جو اثرات تمیں آج نظر آ رہے ہیں وہ انتظامی مشنری کے کلیدی پرزوں پر بیشک اب تک اپنا نیم جان کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہیں مگر سماج کا ایک بڑا حصہ آج بھی ان اثرات کے اثر سے باہر ہے اور کسی متبادل بیانیہ کیلئے پر امید ہے ۔
شاگرد : جو لوگ آج فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں انھیں دہشت گردوں کا سہولت کار کہا جارہا ہے ۔
استاد : یہاں ایک بہت اہم اور کلیدی سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی سکت شائد عوام کا منتخب ادارہ نہیں رکھتا کہ آیا فوجی عدالتوں کا قیام خود دہشت گردی کیلئے مہیا کی جانے والی ایک سہولت کاری نہیں ؟ ایک طرف آپ جن اداروں پر یہ الزام لگاتے ہو کہ تزویراتی گہرائی ان دہشت گرد جتھوں کو اثاثہ قرار دیکر انکی پرورش کرتی رہی ہے پھر آپ ان سے ہی کہتے ہو کہ انھیں پکڑو بھی آپ اور عدالتیں لگا کر انھیں سزائیں بھی آپ دو کیا اس سے انتہا پسندوں کے حوصلے ٹوٹیں گے یا بلند ہونگے ؟ بدقسمتی سے ان سوالات پر ایک صحت مند مکالمہ کی ضرورت تو ہے مگر اسے قومی سلامتی اور ملکی مفاد جیسی اصطلاحات کا لبادہ پہنا کر شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے اور اس حوالے سے کوئی بات کرنا گویا ملک دشمنی اور سنگین ترین غداری قرار پایا ہے ۔
شاگرد : مگر اس کے سوا کوئی متبادل حل بھی تو نہیں ۔
استاد : ہنگامی حالات میں خصوصی اقدامات کا آپشن ایک بار استعمال کیا جاتا ہے بار بار اس پریکٹس سے وہ معمولات کا حصہ بن جاتا ہے جب ایک بار یہ کڑوا گھونٹ پیا گیا تھا اس وقت سے آج تک نظام عدل کو بحال کرنے کیلئے کیا کام ہوا ؟ حکومت نے کیا کیا ؟ انتظامی مشنری نے کیا کارنامہ انجام دیا اور خود عدلیہ ہی نے اس دوران کون سی ایسی اصلاحات کی جانب پیش رفت کی جو آج بھی عدالتیوں کیلئے ان مقدمات کو سننا دشوار سمجھا جا رہا ہے ۔
شاگرد : ہو سکتا ہے یہ سوچ رہی ہو کہ آپ کے بنائے ہوئے ہیں آپ ہی پکڑو اور آپ ہی لٹکاو ۔
استاد : یہ کسی فٹ پاتھ کسی گلی محلے کی سوچ ہو سکتی ہے ایک عوام کی نمایندہ جمہوری حکومت اور پارلیمان کو اس انداز فکر پر ڈوب مرنا چاہئے پانچ سال کی کامیاب تکمیل کے بعد دوسری مدت اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے اس جمہوری پراسس سے پارلیمنٹ کی طاقت میں بتدریج اضافہ ہونا چاہئے نہ یہ کہ پارلیمنٹ اپنے اختیارات بھی خود اپنے ہاتھ سے گنواتا جائے ۔
شاگرد : جنوبی سندھ کی واحد اکثریتی نمایندہ جماعت اور پارلیمنٹ کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت کے پارلیمانی لیڈر کو تین دن قبل کراچی میں بنا قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت کے حراست میں لیا گیا فاروق ستار کو دو گھنٹے حراست میں رکھ کر ہراساں کیا گیا جس کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم سے مائنس ون کا کہا گیا ہم نے لاتعلقی کا اعلان کردیا مگر اب اس سے آگے بھی کچھ مطالبات کیئے جا رہے ہیں مگر ان تمام حالات میں پارلیمنٹ خاموش ہے ۔
استاد : اس حوالے سے پارلیمنٹ کا رویہ ناقابل فہم ہے جب ان سے ایم کیوایم کا سوال کیا جائے تو وہ ایک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت یعنی الطاف حسین غدار ہے ہم اسکی مذمت کرتے ہیں جب کہا جائے کہ فاروق ستار قیادت سے لاتعلقی کر چکا اور ایم کیوایم کا اب لندن سے کوئی تعلق نہیں تو کہا جاتا ہے کہ فاروق ستار کون ؟ انکے پاس تو مینڈیٹ ہی نہیں ایم کیوایم تو صرف وہی ہے جسکا قائد الطاف حسین ہے ۔ اگر حکومت اور پارلیمنٹ اپنے کسی ایک بھی موقف کو سچا جانتے ہیں تو انھیں یا تو ایم کیوایم کو کالعدم قرار دیکر صوبائی اسمبلی سے اسکی 51 قومی اسمبلی سے 25 اور سینٹ سے 9 سیٹوں کو خالی کروا کر دوبارہ الیکشن کروا لینا چاہئے الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ بنا کر اسے پاکستان آنے کی اجازت اور اپنے خلاف مقدمہ کے دفاع کا حق دینا چاہئے بصورت دیگر ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر کی بار بار کی جانے والی تذلیل کو پارلیمنٹ کی تذلیل ہی سمجھا جائے گا ۔
شاگرد : کسی بیانیہ کی ترویج کیلئے پراپگینڈے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے چالیس سال قبل کی نسبت آج پرنٹ اور خاص طور پر الیکٹرانک مڈیا کی ترقی نے یہ بہت آسان کر دیا ہے ایک چینل پر سابق صدور پرویز مشرف اور زرداری کو کیا متبادل بیانیہ کی ترویج کیلئے جمع کیا گیا ہے ۔
استاد : ممکن ہے کل اس چینل پر عمران خان اور مصطفی کمال کو بی یکجا کیا جائے اور ایک روشن خیال بیانیہ کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جائے ۔
شاگرد : مقصد بیانیہ میں تبدیلی کی بات ایک بین الاقوامی دباو کا نتیجہ ہے جہاں ہماری انتہا پسند پالیسیوں کو شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا ہے ۔
استاد : بین الاقوامی دباو بھی ہے اور عوام کی اکثریت کی سوچ بھی باوجود چالیس سال جبر مسلسل میں گزارنے کے عوام کی ایک غالب اکثریت انتہا پسندی کو قبول نہیں کرتی مگر یہاں بہت سی باتیں غیر فطری انداز میں نشو نما پا رہی ہیں جیسے مصطفی کمال جیسے عناصر کو کراچی یا جنوبی سندھ کی سیاست میں زبردستی داخل کرنے کو کوشش ۔
شاگرد : ایم کیو ایم کا ایک بہتر مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جنوبی سندھ کے عوام کا سیاسی مستقبل ۔
استاد : جرائم اور سیاست میں ایک واضع حد فاصل قائم کرتے ہوئے ایک ایسا فاروق ستار جسے الطاف حسین کی اعلانیہ اخلاقی حمایت حاصل ہو وہ عوام کیلئے بھی قابل قبول ہوگا اور متبادل روشن خیال بیانیہ کیلئے بھی ۔
شاگرد : پھر مسلہ کیا ہے الطاف حسین نے بھی جو جذباتی تقریر کی وہ انتہا پسندی پر مبنی زہریلی سوچ کے اثرات کا ایک معکوس ردعمل ہی تھی ۔
استاد : مسلہ کراچی جیسے معاشی حب کی مستقبل میں سی پیک کے بعد جو بین الاقوامی حیثیت ہونے جا رہی ہے اس میں اجارہ داری ہے سول و فوجی اشرافیہ کیلئے کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے کہ کراچی کا نظم انکے کنٹرول سے باہر ہو یا اس پر کراچی کے مقامی افراد کی سیاسی اجارہ داری قائم ہو سو ایک غیر فطری اور منظم انداز میں اسکی بنیادی اور حقیقی سیاسی شناخت کو بدلنے کی شرمناک کوشش کی جا رہی ہے جو ایک کھلی فسطائیت ہے ۔
شاگرد : ہواوں کا رخ دیکھ کر اب حکومت یعنی میاں نواز شریف نے بھی متبادل بیانیہ اور روشن خیال پاکستان کی بات کرنا شروع کر دی ہے مگر لگ ایسا رہا ہے کہ انکے خلاف خود ایک متبادل بیانیہ کا محاذ تیار کیا جا چکا ہے ۔
استاد : بظاہر تو ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے مگر 2018 میں مجھے انکی جگہہ زرداری اور ممنون حسین کی جگہہ وہ خود دکھائی دے رہے ہیں ۔
شاگرد : روشن خیال بیانیہ کو جس پلیٹ فارم پر جمع کیا جا رہا ہے وہ تو خود انتہا پسند سوچ کا محور و مرکز ہے کیا پی پی جیسی جماعت کا بھی اس پلیٹ فارم پر آنا اور فوجی عدالتوں پر مصلحت کا شکار ہو جانا عوام اور جمہوریت سے بے وفائی نہیں
استاد : عوام کی تو خیر بات ہی نہ کرو یہاں عوام کو کون پوچھتا ہے بس یوں سمجھو ملکیت بدل رہی ہے انتہا پسندی کے مالک ہی روشن خیالی کے بھی مالک ہونگے ۔
شاگرد : یہ کیسے ممکن ہے انتہا پسندی تو ایک سوچ ہے ۔
استاد : ہاں سوچ ہے عوامی سطح پر تمہارے اور میرے لیئے اگر تم مجھے قائل کر سکو کہ جب چالیس برس قبل جنرل اختر کی نگرانی میں جہادی کیمپ تیار کیا گیا تھا اس وقت کیمپ کے اندر اور باہر کا منظر نامہ ایک جیسا تھا جذبہ جہاد نے جہاں ہر شعبہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیئے وہاں عسکری کلب اور عسکری زندگی کے شب و روز میں بھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی تو میں اپنے موقف سے دستبردار ہو جاونگا ورنہ حقیقت یہی ہے کہ انتہا پسندی کے چالیس سالہ پروپرائٹر خود کافی ” لبرل ” ہیں اتنے عرصہ انہوں نے انتہا پسندی کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا اب ہتھیار ناکارہ ہو گیا ہے تو روشن خیالی کو ہتھیار بنا لینگے مگر ملکیت سے دسبردار نہیں ہونگے جہاں حفقی عوامی قیادت کمیاب ہو وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply