کسی سیانے کا مشہور قول ہے کہ کوئی کسی کو کچھ عرصے کے لیے تو بیوقوف بناسکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیںاور سب کو تو بالکل نہیں ۔
اسلام آباد کے ایک ضلعی عدالت کے جج پرویز القادر میمن کی برطرفی سے ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے ۔۔۔۔ وہ کئی برسوں سے جعلی ڈگریاں بنانے و بیچنے کا دھندا کررہے ہیں اور اب تک 197 ممالک کے دو لاکھ سے زائد افراد کو بیوقوف بناکر یہ قرطاس غلاظت فروخت کرکے اربوں روپے کما چکے ہیں ۔۔ لیکن پھر ڈھائی برس قبل نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلین والش نے ان کے فریب کا پردہ چاک کیا مگر بدقسمتی سے پاکستانی اداروں نے اس سے کوئی مدد نہ لی بلکہ ایسا کچھ کیا کہ سب کچھ پلٹ سا گیا اور بتدریج ایگزیکٹ کیس کے یکے بعد دیگرے 4 پروسیکیوٹرز نے اس سے علیٰحدگی ہی میں عافیت جانی – اس کے بعد پھر یہ ہوا کہ گزشتہ برس بی بی سی فور چینل نے اپنی رپورٹ میں ان کے جرائم کی مزید تفصیل فراہم کی تب بھی ہمارے تحقیقاتی اداروں کے کان پہ جوں بھی نہ رینگی۔ الٹا جلد ہی شعیب شیخ بری ہوجانے میں کامیاب ہوگئے اور پھر ان کی گھر واپس جانے کی جو تصویر اخبارات میں شائع ہوئی اس میں ان کی اکڑ اور چال میں موجود رعونت اپنی انتہاؤں پہ تھی ۔
یہ بھی پڑھیں : ایگزیکٹ کے سیاں بھئے کوتوال،بول کو ڈر کا ہے کا۔۔سید عارف مصطفٰی
لیکن پھر حسب تاریخ ، قدرت کا نظام حرکت میں آیا اور سب کو بیوقوف گرداننے والے شعیب شیخ کی رسوائیوں کی گٹھری بیچ چوراہے کھول دی گئی اور وہ جج جس کو انہوں نے پچاس لاکھ روپے کی رشوت دے کر انتہائی فریب کاری سے خود کو بری کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی تواب وہی جج یعنی پرویزالقادر میمن عین اسی کیس میں لی گئی رشوت کے جرم میں برطرف کردیا گیا ہے اور اب بالآخر شعیب شیخ سب کو یہ باور کرانے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں ۔ کیونکہ بڑی احتیاط کےباوجود اس جرم کے چند نشانات چھپے نہ رہ سکے جو کہ ا ن کی ذلت و بربادی کا سبب بن گئے کیونکہ انہیں اس الزام پہ ایک محکمانہ انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور مجاز تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور محسن اختر کیانی نے ان سے ایسے تندوتیز سوالا ت کیے کہ وہ اس کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور جرم کا اقرار کرتے ہی بنی اور نوبت ان کے ڈسمس کرنے تک جاپہنچی ۔
یہاں فی الوقت ہمارے پیش نظر شعیب شیخ کی وہ حرکت بھی ہے کہ جس کی رو سے انہوں نے اپنی الغاروںکمائی گئی دولت پہ میڈیا انڈسٹری میں نقب لگانے کی بھرپور کوشش کی اور یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا ایسے لوگوںکے ہاتھوں ریاست کا چوتھا ستون یعنی میڈیا پاکستان میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے لیکن بدقسمتی سے ترقی پذیر ملکوں بالخصوص غیر جمہوری یا نیم جمہوری معاشروں میں ( جیسا کہ پاکستان ) یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔۔۔ دنیا کے کئی ملکوں میں میڈیا نے اپنی آزادی و خود مختاری کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ایک عرصے کی صبر آزما جدوجہد کے بعد اسے فکر کی آزادی اور پیشہ وارانہ خودمختاری میسر آسکی ہے –
یہ بھی پڑھیں : جیپاں آگئیاں کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی
اس لیے اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں بھی میڈیا پہ ناجائز دباؤ جیسے ہتھکنڈوں سے نجات کی منزل دور نہیں تاہم اس رستے پہ سفر کو تیز تر کرنے کے لیے اس مرحلے پہ پاکستانی میڈیا کو ان شعیب شیخ جیسے گھس بیٹھیوں سے بھی نجات پانے کی اشد ضرورت ہے کہ جو اپنے کالے و ناجائز سرمائے کے بل پہ دو دو ٹی وی چینل کھولے بیٹھے ہیں اور ٹی وی کا ہر پاکستانی ناظر بخوبی جانتا ہے کہ شعیب شیخ کے ان دونوںچینلوں یعنی بول اور پاک پہ شب وروز سچائی کا کس قدر خون کیا جارہا ہے اور ارفع اقدار کا کس طرح بیدردی سے خون کیا جارہا ہے تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں الیکٹرانک میڈیا کی نمائندہ تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے اس ضمن میں اپنی ابلاغی ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کیا اور ایگزیکٹ اور شعیب شیخ کو بے نقاب کرنے میں نمایاں و قابل قدر کردار ادا کیا ہے –
اس مرحلے پہ اس اہم بات کی نشاندہی بھی بڑی ضروری ہے کہ گو رشوت خور جج پرویز القادر میمن کو رشوت لینے پہ برطرف کیا جاچکا ہے تاہم حسب ضابطہ فوجداری قوانین کے تحت ان پہ رشوت ستانی کا مقدمہ تاحال داخل نہیں کیا جاسکا ہے کہ جس کے تحت انہیں اس جرم کی پاداش میں جیل میں بند کیا جانا بھی ازبس ضروری ہے ورنہ اس سے یہ تاثر عوام میں جائے گا کہ عام آدمی کے لیے اخلاقی و قانونی معیارات کچھ اور ہیں اور شعبہ قانون کے ‘اپنوں’ کے لیے کچھ اور ۔۔۔ اسی طرح مختلف حلقوں کی اس بات میں بڑا وزن ہے کہ رشوت دینے کا ارتکاب کرنے والا فرد خود بھی تو سزا یابی کے لائق ہے کیونکہ رشوت لینا ہی نہیں دینا بھی ایک بڑا جرم ہے اور شعیب شیخ کی جانب سے کیا گیا یہ جرم تو اب بالکل آشکار ہوبھی چکا ہے پھر نہ صرف یہ کہ اس کی ضمانت منسوخ کی جانی چاہیے بلکہ رشوت دینے کے اس جرم پہ حسب قانون سزا بھی دی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : مزاحمت لیکچراراں ۔۔طارق احمد/قسط3
مناسب بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس کیس سے قومی مقاصد کو پالینے کی راہ پہ گامزن ہونے کی کوئی تدبیر کی جائے اوروطن عزیز میں میڈیا کو ایسے ناپاک عزائم کے حامل لوگوں کا یرغمال ہرگز بننے نہ دیا جائے اور مشکوک اور غیر متعلق اصحاب کو محض ناجائز دولت کے بل پہ میڈیا ٹائیکون بننے سے روکا جائے ورنہ عوام اور میڈیا انڈسٹری کو آئندہ بھی شعیب شیخ جیسے ٹھگوںاور نوسر بازوں کے ہاتھوں بار بار ایسی ہی بدنامی اور گھناؤنی صورتحال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے کہ جنہوں نے ایک طرف تو جعلی ڈگریوںکے کاروبار سے لاکھوں کو لوٹ کر ملک کو بدنام کیا تو دوسری طرف اس حرام کی کمائی سے میڈیا کے شعبے میں پنجے گاڑنے کی کوشش کی اور عوام میں باہم نفرت کی زہریلی جھاڑیاں اگائیں اور مائیک اور کیمرے کو اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کے لیے استعمال کرنے کی روش اپنائی اور عزت داروں کی پگڑیاں اچھالنے اور غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے کا وطیرہ اختیار کیا۔
صاف ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا بھلا صحافت سے کیا لینا دینا ، بہتر ہے کہ اب ایسےجعلی و عیار لوگوںکو اس اہم اور ذمہ دار شعبے سے نکال باہر کیا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ان کی پشت پہ موجود کسی بھی طاقت سے ڈرنے کا چلن ترک کردیا جائے بلکہ ان کے پشت پناہ لوگوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ اب ‘ایسے نہیں چلے گا۔۔۔’ اور یہ کہ ہمیں ایک اللہ ہی کافی ہے!
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں