محترمہ عاصمہ جہانگیر کا سفرِ آخرت۔۔حافظ صفوان محمد

معروف وکیل اور دنیا بھر میں حقوقِ انسانی کی متحرک رہنما محترمہ عاصمہ جہانگیر کی 11 فروری 2018 کو ہونے والی اچانک وفات پر مخالفانہ، مدافعانہ اور جارحانہ تحریروں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ بھی کئی وجوہ سے معرضِ بحث میں آئی جس پر مذہبی دلائل لائے اور رد کیے جاتے رہے۔ اس سلسلے سب سے اچھی اور نفسِ مسئلہ کو درست فقہی تناظر میں بیان کرتی تحریر مفتی محمد تقی عثمانی کی ہے جو مجلسِ علمی سوسائٹی گروپ پر لگائی گئی ہے۔ اس تحریر پر مجھے بھی ٹیگ کیا گیا۔ شکر گزار ہوں اور اسی لیے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں :  عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ۔۔داؤد ظفر ندیم

اس تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مفتی تقی صاحب نے عاصمہ جہانگیر کا نہ تو نام لکھا ہے اور نہ ان کی ذات، کردار یا عقائد کے بارے میں کوئی بات کی ہے۔ مفتی صاحب کے محتاط قلم کے قربان جائیے، اس لمبی تحریر میں صرف جنازے پر ہوئی   بے وقوفی پر گفتگو ہے اور بس۔ مفتی صاحب نے سارا مدعا مجمع پر ڈال دیا ہے، اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ مجمع پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ احتیاط کی حد یہ ہے جنازہ پڑھانے والے معروف شخصیت جناب سید حیدر فاروق مودودی پر بھی کوئی لفظ نہیں کہا گیا، وجہ یہ کہ قذافی سٹیڈیم میں سید حیدر صاحب کے اختیار میں انتظام انصرام کچھ نہ تھا۔ ایک مخلوط جمِ غفیر ہے جس میں ہر مذہب اور مسلمانوں کے تمام مسالک کے لوگ موجود ہیں، اس میں سے مسلمانوں کو الگ کرکے نماز کی ترتیب بنوانا ہر آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔

میں جنازے کا مذاق اڑانے کے حق میں نہیں ہوں۔ یہ کام بالکل غلط ہوا ہے۔ اصل میں بدنظمی اور رش کی وجہ سے صفیں بنانے کا موقع ہی نہ ملا اور نہ ہی وہاں کوئی ایسا سمجھدار شخص موجود تھا جو صفوں کی ترتیب بنوا دیتا۔ تبھی یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ نماز کی صورت ہی نہ بن سکی۔

یہ بھی پڑھیں :عاصمہ جہانگیر ۔۔آصف محمود

نمازِ جنازہ کے امام جناب سید حیدر فاروق مودودی کسی ٹی وی پروگرام میں اس مجمع کی نماز کے درست ہونے کی توجیہات پیش کرتے رہے۔ اگر وہ وہی ترتیب اختیار کرتے جو مفتی صاحب نے اس تحریر میں فرمائی ہے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

عاصمہ جہانگیر ذاتی زندگی میں نہایت باکردار اور گھر گرہستن عورت تھیں۔ مجھے 1991 سے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ ان کو کئی سورتیں زبانی یاد تھیں اور وہ دن رات میں تقریبًا ڈیڑھ پارہ پڑھ لیا کرتی تھیں۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھ سے ان کے ایمان کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا تاہم جب لوگ ان کے بارے میں منہ بھر بھر کے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ یہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی فکر نہیں کر رہے بلکہ دوسروں کی کردار کشی کرکے اپنا حساب مشکل سے مشکل تر کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مفتی تقی صاحب کی اس تحریر سے سیکھنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اپنی زبان اور قلم کو عاصمہ جہانگیر نیز دنیا سے سفر کر جانے والے تمام بندگان و بندیاتِ خدا کی ذات، کردار اور عقائد پر نفرت آمیز تقریر و تحریر سے روکا جائے۔ خدا سمجھ دے۔ آمین۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply