روحانیات، آنٹی ایم ایک قلندر صفت خاتون ۔۔ثنااللہ خان احسن

جن لوگوں نے قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ اور ممتاز مفتی کی الکھ نگری پڑھی ہے وہ آنٹی ایم کے نام سے ناواقف نہیں ہیں۔ آنٹی ایم ایک انتہائی  پراسرار اور راہ سلوک میں اعلی مقام خاتون جو مستقبل میں جھانکنے اور کشف کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے وہ کلفٹن باتھ آئی  لینڈ کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔ بعد میں وہ ڈیفنس کے ایک گھر میں شفٹ ہو گئی تھیں۔ آنٹی ایم کا ذکر جتنا قدرت اللہ شہاب نے کیا ہے وہ قاری کو مزید سسپنس اور جستجو میں مبتلا کردیتا ہے۔ آنٹی ایم ایک ایسی صاحب کشف خاتون تھیں کہ جن کا کشف فوری اور باقاعدہ لوگوں کے پوچھنے پر جاری ہوتا تھا۔ وہ فوری طور پر سائل کا اور والدہ کا نام پوچھنے کے بعد با آواز بلند اللہ الصمد کا نعرہ بلند کرتیں اور مراقبے میں چلی جاتی تھیں۔ ذرا دیر بعد وہ سب کچھ ایسے بتا دیتیں جیسے کہ ہونے والے واقعے کی ریکارڈڈ فلم دیکھ کر آئی  ہیں۔ صاف صاف اور بالکل واضح۔

یہ بھی پڑھیں :  مراقبہ، تخلیہ روح اور حقیقت کا علم۔۔حافظ محمد زبیر

ان کے پاس لوگ طرح طرح کے مسائل کے حل کے لئے آتے تھے۔ صبح دس سے بارہ کا وقت غریبوں کے لئے مختص تھا۔ شام پانچ سے سات نماز کا وقفہ چھوڑ کر وہ امیروں سے ملا کرتی تھیں۔ہر مسئلے کا حل چٹکی بجاتے بیان کردیتی تھیں۔ ان کے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں ایک باکس رکھا ہوتا تھا جس میں امیروں کو حسب استطاعت کچھ رقم ڈالنے کا حکم تھا ۔ جمعہ کے دن غریبوں کو بلا کر قرآن مجید کا ختم کیا جاتا اور شریک ہونے والوں کو انتہائی  پُرتکلف طعام کھلایا جاتا۔ باقی بچ جانے والی رقم غریبوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ کسی نے ایک مرتبہ آنٹی ایم کے ذریعے مشہور پامسٹ کیرو کی روح کو بلا کر اپنا ہاتھ دکھا کر اپنی قسمت کے حالات بھی پوچھے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ان کا جو واقعہ شہاب نامہ میں بیان کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس زمانے کے صدر پاکستان ایوب خان کو قتل کرنے کی ایک سازش انٹیلی جنس ایجنسیز نے پکڑی لیکن یہ قطعی طور پر معلوم نہ تھا کہ قاتل کون لوگ ہوں گے اور ان کا پلان کیا ہوگا۔ قدرت اللہ شہاب آنٹی ایم سے یہی معلوم کرنے پہنچے تھے۔ آنٹی ایم نے صرف صدر صاحب کی والدہ کا نام دریافت کیا اور مراقبے میں چلی گئیں۔ ذرا دیر بعد انہوں نے بتایا کہ قاتل  شہر میں آن پہنچے ہیں اور کچھ آج شام تک پہنچ جائیں گے۔ ان قاتلوں میں پنڈی کے چار بڑے فوجی افسران کی بیگمات شامل ہیں جنہیں صدر صاحبہ کی بیگم نے کھانے پر بلایا ہے۔ اور یہ بات آپ اپنے بھس بھرے دماغ والے صدر کو بتادیں۔ ایسا ہی ہوا اور  آنٹی ایم کا کہا ہوا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا۔ سازشی گرفتار ہوئے۔ اگر شہاب صاحب  آنٹی ایم سے مدد نہ لیتے تو صدر صاحب کے قتل کی سازش کی کامیابی میں کوئی  کمی نہ رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالی کب اور کیسے اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے وہ ہم نہیں جان سکتے۔

یہ بھی پڑھیں :   حیرت کدہ ۔سید ثمر احمد/قسط1

اس واقعے کے بعد صدر ایوب نے آنٹی ایم سے ملنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن آنٹی نے صاف انکار کردیا۔ انٹی ایم کے ڈرائنگ روم میں ایک تصویر لگی تھی۔ یہ بابا تاج الدین ناگپوری کی تصویر تھی۔ اس تصویر کے بارے میں وہ بتاتی تھیں کہ ایک شام ایک دبلے پتلے کالے بھجنگ بزرگ ان کا گھر ڈھونڈتے ہوئے ان تک پہنچے۔ بزرگ نے بغیر ٹائی  کے سوٹ پہنا ہوا تھا۔ انگریزی بولتے تھے اور فرمانے لگے کہ حیدرآباد دکن سے تشریف لائے ہیں۔ انہیں حکم ہوا ہے کہ یہ ایک تصویر تو بی بی صاحبہ (آنٹی ایم) کو دے دی جائے اور دوسری کسی اور کے لئے ہے۔ پھر پوچھنے لگے کہ یہ قدرت اللہ شہاب کدھر رہتا ہے؟ ان دنوں دارلخلافہ پنڈی منتقل ہو چکا تھا اور صدر کے پرنسپل سیکریٹری ہونے کی وجہ سے شہاب صاحب بھی پنڈی جا چکے تھے۔ وہ کسی کو مرید وغیرہ نہیں کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ ایک عورت ہونے کے حیثیت سے وہ اس سے معذور ہیں بلکہ وہ یہ بھی بتاتی تھیں کہ ان کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کا سلسلہ افغانستان کے راستے کہیں آگے منتقل ہوجائےگا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ وارثی سلسلے کے کوئی  بزرگ اس سلسلے کو اپنا لیں۔ لیکن یہ حتمی نہیں ہے کیونکہ ابھی تصویر بہت دھندلی ہے۔وارثی سلسلہ چشتی سلسلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔

آنٹی ایم فرماتی تھیں کہ بزرگوں کی یہاں نہ تو آپ کی مرضی چلتی ہے اور نہ ان کی اپنی۔ وہ کہتی تھیں کہ بزرگان دین کو چار ذائقے بالکل کم یا نہ ہونے کے برابر کردینے کا حکم ہوتا ہے۔ پہلا تو تقلیل طعام، یعنی سادہ اور بہت کم کھانا، دوسرا تقلیل کلام یعنی بہت کم اور بقدر ضرورت گفتگو کرنا، تیسرا تقلیل منام یعنی کم سونا اور چوتھا تقلیل بلاختلاط عوام۔ یعنی لوگوں سے کم کم ملنا۔ گوشہ نشینی اختیار کرنا۔ اپنے پاکستان آنے کا واقعہ کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ سن 1948 میں وہ حیدرآباد دکن میں تھیں۔ اسی دوران ہندوستان نے اپنی فوجیں بھیج کر ریاست حیدر آباد پر قبضہ کرلیا۔ یوں سمجھو کہ مارشل لاء  لگ گیا۔ ان کے والد کو بھی کسی حاسد کی ایما پر گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا گیا۔ یہ بیچاری بھاگم بھاگ اپنے روحانی مرشد داروغہ صاحب کے پاس پہنچیں کہ والد کی رہائی  کا کچھ ہو سکے۔ داروغہ صاحب نے کہا کہ معاملہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ بارگاہ یوسفین شریفین چلی جائیں ، وہاں آجکل ایک بڑے جلالی مجذوب تشریف لائے ہوئے ہیں شاید وہ کچھ مدد کردیں۔ مجذوب صاحب خاصے قوی ہیکل تھے۔ فرمانے لگے کہ وہ جو لیریاں لیریاں کرتا ہے وہ کچھ کرے تو کرے۔ تو مت جائیو۔ عورتوں سے نہ ملے ہے۔ اپنے شوہر کو بھیجئو لیکن تو خود بھی کسی قریبی جگہ پر رہنا۔ پھر ان مجذوب نے اس محلے کا نام بتایا جہاں وہ لیریاں لیریاں کرنے والا مجذوب بیٹھتا ہے۔ یہ خود تو اپنی ایک ہندو سہیلی کے گھر بیٹھ گئیں اور شوہر اس لیریاں کرنے والے مجذوب کے پاس پہنچے۔ وہ بزرگ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے تھے۔ کمرے میں ہر طرف کپڑے کے چیتھڑوں کا انبار لگا تھا جن کی وہ بزرگ مزید دھجیاں کر کے لیرا لیرا کر رہے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں آگ کے انگاروں پر سماوار میں خوشبودار چائے کھول رہی تھی۔ شوہر نے مسئلہ بیان کیا تو بغور سنا۔ پھر سماوار سے انتہائی  خوشبودار چائے کے کوئی  تین پیالے پلائے اور خود بھی اتنے ہی پیے ۔ پھر فرمانے لگے ، ” اپنی مصیبت ہمارے گلے ڈال دیتے ہیں۔” پھر ایک چیتھڑا  آنٹی ایم کے شوہر کو تھما کر کہا کہ “کل صبح کچہری چلے جانا۔ وہاں ایک بڈھا لال گٹھری کے پاس کرسی پر پاؤں  رکھ کر بیٹھتا ہے۔ یہ چیتھڑا اس کو دے دینا اور اپنی جورو کو1
ساتھ لے کر جانا۔”

یہ بھی پڑھیں :  تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/حصہ اولْ

اگلی صبح انٹی ایم شوہر کے ساتھ کچہری پہنچیں- وہاں ایک پرانے وکیل سے دریافت کیا کہ لال گٹھڑی کے پاس کون بوڑھا بیٹھتا ہے؟۔ وکیل نے کچھ سوچ کر بتایا کہ ریکارڈ روم میں جہاں کورٹ کا سارا ریکارڈ لال گٹھڑیوں میں باندھ کر رکھا جاتا ہے وہاں ایک بوڑھے ریکارڈ کیپر کرسی پر پاؤں رکھ کر بیٹھتے ہیں۔ سارا ریکارڈ انہیں زبانی یاد ہے۔ لوگ ان سے پوچھ کر فائلیں بنوا کرلے جاتے ہیں۔ لال گٹھڑی والے بڑے میاں نے ان کی بات توجہ سے سنی۔ پھر دراز سے ایک روپے والے تین نئےنوٹ نکال کر ایک لفافے میں بند کر کے دئیے۔ کہنے لگے ،” کل ان کے والد رہائی  پا کر گھر آ جائیں گے۔ کل کی ٹرین سے پاکستان چلے جاؤ۔کل ہر حال میں ہجرت کرنی ہے۔ ورنہ معاملہ بہت خراب ہو جائے گا۔ سامان کی فکر نہ کرنا۔ لفافہ وہاں اسٹیشن پر جا کر کھولنا۔ اسٹیشن سے پہلے ہرگز نہ کھولنا۔ جاؤ بھاگو، بہت تنگ کیا ہے تم نے سب کو۔”

یہ لوگ بھاگم بھاگ گھر پہنچے اور ضروری سامان باندھا۔ دوسری صبح دس بجے ایک تانگہ گھر کے باہر آکر رکا جس میں آنٹی ایم کے والد صاحب تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کل شام ایک مسلمان وزیر صاحب جیل آئے تھے۔ مجھے دیکھ کر بہت پریشان ہوئے کہ آپ کے میرے والد پر بڑے احسانات ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آج ہی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی  پٹیل سے ان کی رہائی کے بارے میں بات کریں گے۔اور یوں وہ رہا ہو کر گھر پہنچ گئے۔ سامان بندھا دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہے۔وہ بھی چلنے کو تیار ہوگئے۔ یہ تین افراد بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے۔ وہاں بلا کا رش اور افرا تفری تھی۔ ٹکٹ ملنا ناممکن تھا۔ ایسے میں آنٹی کو کچہری کے بزرگ کا دیا لفافہ یاد آگیا۔ جھٹ سے اسے کھولا تو اس میں تین سیکنڈ کلاس کے ٹکٹ مسکرا رہے تھے۔یہ سب لوگ اطمینان سے گاڑی میں سوار ہو کر پاکستان آگئے۔ جس زمانے میں بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ضیاالحق سے ان کا معاملہ چل رہا تھا بھٹو کی ایک قریبی عزیزہ ان کے پاس آئی  تھیں تو  آنٹی ایم نے ان کو بتا دیا تھا کہ اقتدار کی کرسی بھٹو صاحب سے بہت دور اندھیرے میں نظر آتی ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ ان کا عدالتی قتل ہوگا۔ لیکن بہرحال آخری فیصلہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم کو تو جو کچھ نظر آتا ہے بتادیا۔ دعا کیجئے۔ ان خاتون کو یقین نہ آیا لیکن بعد میں ایسا ہی ہوا۔ ایک زمانے میں آنٹی صاحبہ کو حکم ہوا کہ وہ گھمکول شریف کوہاٹ جائیں اور زندہ پیر صاحب سے ملاقات کریں تو ان کے وہاں جانے کے لئے گاڑی کا بندوبست شہاب صاحب نے ہی کیا تھا۔ دربار عالیہ گھمکول شریف کوہاٹ کے سلسہ نقشبندیہ کےنامی گرامی بزرگ حضرت زندہ پیر صاحب سے منسوب ہے۔ گھمکول شریف میں سارے بابے سفید پوش اور باریش، کسی کی آنکھیں نیلی اور کسی کی سبز۔ سب انتہائی  سبک رفتار اور انتہائی  خوش مزاج۔ زندہ پیر صاحب صحن میں گویا ببر شیر کی مانند بیٹھے تھے۔ تمام جسم  چھپا ہوا  صرف چہرہ کھلا تھا۔ انتہائی  جلالی اور پرنور۔ زندہ پیر صاحب کا وصال شاید 2002 میں ہوا تھا۔ اگر آپ کو کبھی اتفاق ہو تو نینا وربنر ‏Pnina Werbener کی کتاب The Pilgrim Of Love پڑھیے جس میں ان بزرگ اور ان کے مزار اور اس پر موجود نیلی اور سبز آنکھوں والے بابوں کے بڑی صراحت سے ذکر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  وحدت الوجود(اناالحق کی توجیہ)

برطانیہ میں اس سلسلے کے بڑے پیرو کار ہیں۔آنٹی ایم سے ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا کہ مولوی اور بزرگ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ فرمانے لگیں کہ مولوی کو آپ اردو کا استاد سمجھ لیجئے۔ وہ ہر سکول میں ہوتا ہے۔ بچوں کو اردو سکھاتا ہے۔ وہ نہ ہو تو بچوں کو اردو کی بنیادی قواعد و ضوابط کا بھی پتہ نہ چلے۔ لیکن پرائمری کا ہر استاد غالب، فراز یا فیض کا درجہ نہیں رکھتا۔ گو یہ بھی کسی نہ کسی استاد کے سکھائے ہوئے ہیں۔ بس بزرگان کو آپ فیض غالب اور فراز سمجھ لیجئے۔ ایک مرتبہ آنٹی کے ایک معتقد نے ان سے پوچھا کہ کشف اور مسائل حل کرنے کے اعتبار سے ان کی موجودہ دور کے بزرگان میں کیا حیثیت ہے؟ آنٹی نے معتقد سے پوچھا کہ وہ ان کو کس درجے پر دیکھتا ہے؟ معتقد نے جواب دیا کہ جس سرعت اور صفائی  کے ساتھ وہ کشف کے ذریعے بالکل درست معلومات اور مسائل کا حل بتاتی ہیں اس لحاظ  سے تو وہ ان کو فرسٹ پوزیشن پر سمجھتا ہے۔ آنٹی نے مسکرا کر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو ہم کو کشف میں پوزیشن ہولڈر سمجھو۔ آنٹی ایم کا درجہ اور مرتبہ راہ سلوک میں جو بھی کچھ تھا لیکن وہ تارک الدنیا بھی نہ تھیں۔ شادی شدہ تھیں۔ شوہر ساتھ تھے۔ پوتا پوتی والی تھیں۔ ان کا ذکر ہمیں ممتاز مفتی کی الکھ نگری اور شہاب نامہ میں ملتا ہے۔ لیکن ان کا تفصیلی ذکر محمد اقبال دیوان نے اپنی کتاب ” جسے رات ہوا لے اڑی” میں کیا ہے۔ چٹکی بجاتے مستقبل میں جھانکنے والی، ارواح کو حاضر کرنے والی اور چٹکی بجاتے لوگوں کے مسائل حل کرنے والی  آنٹی ایم کا انتقال سن 2004 میں کراچی میں ہوا۔ انتقال سے کچھ عرصہ پہلے وہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر ایک کمرے میں منتقل ہو گئی تھیں اور وہیں رہائش کے دوران انتقال ہوا۔ جب میں نے اقبال دیوان صاحب کی کتاب میں  آنٹی ایم کا تفصیلی ذکر پڑھا اور ان کا سن وفات معلوم ہوا تو مجھے شدید پچھتاوا ہوا کہ کراچی میں رہتے ہوئے میں ایسی ہستی سے ناواقف رہا۔ یعنی کہ یہ کوئی  سو پچاس سال پہلے کی بات نہیں بلکہ ابھی بارہ سال پہلے تک وہ اس دنیا میں موجود تھیں لیکن صد افسوس ، صد صد افسوس کہ مجھے ان کے بارے میں معلومات نہ تھیں اور میں ان کی خدمت میں شرف باریابی سے محروم رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے کاش!!! مجھے تو حسرت ہی رہی کہ زندگی میں کبھی کسی ایسی ہستی سے ملاقات ہو سکے۔ مندرجہ بالا مضمون میں نے محمد اقبال دیوان صاحب کی کتاب ” جسے رات لے اڑی ہوا” میں دی گئی معلومات کی مدد سے تیار کیا ہے۔ اگر آپ اس بارے میں تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہیں تو دیوان صاحب کی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔ کیا آپ کسی ایسی صاحب کشف ہستی سے واقف ہیں جو حیات ہوں اور اب بھی پاکستان کے کسی علاقے میں موجود ہوں؟اگر ایسا ہے تو مجھے ان باکس اطلاع کیجئے۔ مشکور ہوں گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”روحانیات، آنٹی ایم ایک قلندر صفت خاتون ۔۔ثنااللہ خان احسن

  1. شہاب جامہ اور الجھ نگری میں ان خاتون کا ذکر ان کے حقیقی نام عطیہ خاتون سے موجود ہے

Leave a Reply to فیصل Cancel reply