کوئی تو چراغ جلادے

لعل شہباز قلندر کے چار وں چراغ پھر سے ’’جل ‘‘ گئے لیکن شاہد کی آنکھوں کے چراغ ’’گل ‘‘ہو نے سے کون بچائے گا۔۔؟
19فروری2017 کی شام لعل شہباز قلندر کے مزار پر مست ملنگ، معذور فقیر، مایوس، غریب،عقیدت مند عورتیں، منتیں ماننے والے خوش عقیدہ لوگ، موالی، ننھے بچے اورجوان لڑکے روحانی سکون کے حصول کے لئے دھمال ڈال رہے تھے ،ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے والے قلندر کے دیوانوں کی رگوں میں جیسے خون کی جگہ پارہ دوڑ رہا تھاکہ اچانک دربار پر رقصاں درویشوں کے درمیان زور دار دھماکہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے لعل کا فرش لال ہو گیا۔ہر طرف کٹے ہوئے اعضا، مردہ جسم، پھٹے ہوئے چہرے اور سسکتے زخمیوں کے ڈھیرلگ گئے،تاریخ انسانی ایک بار پھر لہو سے رنگین ہو گئی جس میں کئی ماوں کے ’’لعل‘‘ معصوم بچوں کے سر پر دست شفقت رکھنے والے باپ 90سے زائد ابن آدم گوشت کے چیتھڑوں میں تبدیل ہوگئے اور 250سے زائد افراد زخمی ہوئے ،اسی آہ و بکا اور کہرام کی فضا میں شہید اور زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد میں ضلع رحیم یار خان کے علاقہ ججہ عباسیاں سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان کزن محمد عمران اور محمد شاہد بھی شامل تھے ۔وہ بھی من کے سکون کے لئے قلندر کی درگاہ میں دھمال ڈال رہے تھے ۔دھماکے کے نتیجہ میں ججہ عباسیاں کی بستی صابو آرائیں کے رہائشی محمد عمران موقع پر جاںبحق جبکہ اسکے کزن محمد شاہد کی آنکھیں شدید زخمی ہو گئیں ۔
محمد شاہد کو زخمی حالت میں پہلے حیدرآباد کے اسپتال اور وہاں سے کراچی میں پاکستان نیوی کے شفاء اسپتال منتقل کر دیا گیا ، دھماکے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے دھماکے کے شہدا کے ورثااور زخمیوں کی مالی امداد اور مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے دعوے کئے گئے لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح وہ دعوے سیاسی نعرے ثابت ہوئے ۔چند روز گزنے کے بعد دھماکے میں شدید زخمی محمد شاہد کو اسپتال سے یہ کہہ کر ڈسچارج کر دیا گیا کہ سرکاری خرچ پر مزید آپکا علاج نہیں ہو سکتا ،جائیں اور اپنے خرچ پر کسی اچھے اسپتال میں اپنا علاج کرائیں ،25سالہ محمد شاہد پیشہ کے لحاظ سے موٹر سائیکل مکینک اوربوڑھے والدین اور بہن بھائیوںسمیت خاندان کے 10افراد کا واحد کفیل ہے اور تین چار ماہ قبل اسکی شادی ہوئی تھی،اسکی آنکھوں میں زندگی کے خواب تھے۔
انہی خوابوں کی تعبیرکے لئے منت مانگنے لعل شہباز کی مزار پر گیا لیکن دھماکے کے نتیجہ میں محمد شاہد کی دونوں آنکھوں کی بینائی سے مکمل محروم ہو چکا ہے ،اسپتال سے ڈسچاج ہو کر محمد شاہد گھر پہنچا تو گھر میں کہرام مچ گیا ، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے شاہد کے بوڑھے ماں باپ کی چیخوں سے وہاں موجود ہر انسان کا کلیجہ پھٹ جا ئے گا ،ان کی تو زندگی ہی تاریک ہو گئی ،میں اتنے دنوں سے سوچ رہاہوں کہ کیسے لکھوں کے جانے والا تو چلا جاتا ہے لیکن اْس سے وابستہ لوگوں کا وقت وہیں کلمہ ء شہادت کی آواز پر ہی جیسے تھم جاتا ہے ، پیچھے رونے والوں کا کچھ نہیں بچتا ،ایک ایک جنازے کے ساتھ کتنے ہی خاندان اجڑ جاتے ہیں،ناحق مرنے والوں کا دکھ اپنی جگہ لیکن مجھے توسانحے میں زندہ بچ جانے والے ان زخمیوں کا غم کھا رہا ہے جنہوں نے اپنے جسم کے اعضاء گنوا دئیے ، کسی کا ہاتھ نہیں ، کسی کا پاؤں نہیں ، کوئی ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا تو کوئی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھا اور کسی کی دونوں آنکھوں کے چراغ گل ہوگئے ۔
سوچتا ہوں وہ سب اس کسمپرسی کے عالم میں اپنے آدھے ادھورے وجود کے ساتھ کس طرح زندگی کو گھسیٹتے پھریں گے ؟؟ کیسے کاٹیں گے زندگی کے بقایا دن ؟وہ نہ زندوں میں شمار ، نہ مْردوں میں، میں بے بسی کی اس زندہ تصویر کا نوحہ کس زبان میں لکھوں؟ دماغ میں خیالات کا اک ہجوم ہے، لیکن دل انہیں الفاظ کا پیرھن نہیں پہنا پارہا، ظالموں کی درویشوں پر کی گئی اس بربریت کے نتیجہ میں شہید ہونے والے محمد عمران کا دکھ تو رہے گا لیکن محمد شاہد کی تاریک زندگی کو کس طرح بیان کروں ؟ موٹر سائیکل مکینک کا کام کرکے گھر والوں کی سانس کی ڈوری کو قائم رکھنے کی جدوجہد کرنے والا خاندان کا اکلوتا کفیل اندھیروں میں ڈوب گیا۔بوڑھی ماں کا واحد سہاراخود سہاروں کا محتاج ہوگیا ،شا ہد کی طرح پتہ نہیں کتنے زخمی حکومت کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں گے ؟ نہیں جانتا کہ کتنے سروں کے سہاگ،کتنے بچوں کے سروں پہ دست شفقت رکھنے والے باپ،پتہ نہیں کتنی ماوں کے لعل اور کیا خبر کتنے گھروں کے کفیل مناسب علاج نا ہونے کی وجہ سے عمر بھر اپنے بدن کو گھسیٹیں گے ۔اس کے برعکس حکمرانوں کے بچوں کو چھینک بھی آئے تو لند ن او ر امریکہ کے ڈاکٹرز انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس ملک میں بسنے والے غریب کے بچے کا علاج کرنے کی بجائے اسے اسپتال سے نکال دیا جاتا ہے ،ججہ عباسیاں کی بوڑھی ماں گیلی آنکھیں اور لرزتی ہتھیلیاں پھیلا کر اپنے چشم و چراغ اور خاندان کے واحد کفیل کے علاج کے لئے حکومت یا کسی مسیحا سے فریاد کر رہی ہے جو کسی اچھے اسپتال میں شاہد کا علاج کروائیں اور شاہد دوبارہ زندگی کی روشنیاں دیکھ سکے۔
محمد شاہد نے میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شفاء اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تمہارا علاج ممکن ہے ملک سے باہر یا ملک کے کسی اچھے اسپتال میں علاج کراو تو تمہاری آنکھوں کی روشنی واپس آ سکتی ہے لیکن حکومت کی بے حسی اور غربت کے باعث محمد شاہد کی آخری امید بھی دم توڑتی جا رہی ہے کیونکہ پہلے ہی اس گھر کے صحن کو غربت کے آسیب نے گھیر رکھا ہے اور غریب خاندان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ نوجوان کا ملک کے کسی اچھے اسپتال میں علاج کرا سکیں ،آخر میں سوال کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ لعل شہباز قلندر کے چاروں چراغ دوبارہ جل گئے اور جلتے رہیں گے لیکن محمد شاہد کی آنکھوں کے چراغ ’’گُل ‘‘ ہونے سے کون بچائے گا ؟ حکومت یا کوئی مسیحا ؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply