رشتے کرنے کے لیئے ہمارے معیار

انجینئر طیب جنید رانا
پِچھلے کُچھ سال سے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ آج کل شادیاں صرف دولت اور اسٹیٹس کے لئے کی جا رہی ہیں۔ پہلے زمانے میں یا کچھ عرصہ پہلے تک رشتہ داری کرنے کے لئے خاندان ، شرافت اور عزت، روایات ، حسب نسب اور مناسبت یا جُوڑ وغیرہ کو دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اب لڑکے والے صرف یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی کمانے والی ہو ( مثلاً ڈاکٹرنی ، اُستانی ، چاہے نرس ہی ہو یا کِسی بھی محکمے میں ملازمہ ) تاکہ لڑکا اگر کام کرے یا نہ بھی کرے فنانشل مسئلہ نہ بنے اور دوسرا لڑکی کا ابا یا کوئی بھائی ، کوئی انکل بڑا افسر ہو جو کوئی کام دے سکے ، کوئی مدد کر سکے اور آخری یہ کہ رشتہ داروں کو جتا بھی سکیں کہ دیکھو جی بڑی پڑھی لِکھی اور کماؤ لڑکی ڈھونڈ کر لائے ہیں اور لڑکی والے دیکھتے ہیں کہ یا تو لڑکے کی کوئی پکی ملازمت ہو مثلاً فوجی، سپاہی یا کسی بھی گورنمنٹ محکمے میں بیشک درجہ چہارم کا ہی ملازم کیوں نہ ہو ۔یا اچھے خاصے پیسے ہوں چاہے جس بھی ذریعے سے آئے ہوں ۔
دوسری بات جو آج عام دیکھی جا رہی ہے وہ یہ کہ لڑکی صاحبہ کے گِرد دُم ہلانے والا ہو ۔ کام کرے نہ کرے ۔ دُنیا کا پتہ ہو نہ ہو ۔ جاہل ہو پڑھا لکھا ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ، بس تھوڑا فیشنی اور پِھکی شُوں شاں والا ضرور ہو۔اب یہی سٹینڈرڈز رہ گئے ہیں ہمارے پاس ۔ میرے سامنے ایک پڑھے لِکھے افسر صاحب اپنے میٹرک پاس صاحبزادے کے لئے اُس سے پندرہ سال بڑی ایم فِل پاس ٹیچر لے آئے ہیں اور دوسرے آٹھویں کلاس سے بھاگے بیٹے کے لئے اُس سے آٹھ دس سال بڑی ایم اے پاس ٹیچر ۔ واہ واہ۔۔ ایک جونیئر اپنی منگیتر کا بتا رہا تھا کہ وہ عُمر میں مُجھ سے کُچھ بڑی ہیں ، سینئر نرس ہیں کِسی سرکاری ہسپتال میں۔ پکی نوکری ہے ، مُوجیں ہی مُوجیں ہیں۔ ایک دو دوستوں نے یو کے نیشنیلٹی کے لئے اپنے سے بڑی عُمر کی خواتین کے ساتھ شادیاں کر لیں ۔ ایک انجینئر بھائی بتا رہے تھے کہ شادی کے لئے ڈیمانڈ رکھی ہے کہ آسٹریلیا میں سٹڈی ویزہ کے لئے فنانشل سپورٹ کریں ۔ اور لڑکی کو بھی ساتھ بھیجیں کہ وہ وہاں پر کوئی کام وغیرہ کرکے مالی معاونت کر سکے۔ آج دیہات اور شہروں میں لوئر اور لوئر مِڈل کلاس طبقہ اپنے میٹرک فیل عرب ممالک میں مزدوری کرنے والے اور اچھی تنخواہ پانے والے لڑکوں کے لئے یونیورسٹیز کی پڑھی لِکھی اور جاب ہولڈر بہوئیں ڈُھونڈ رہا ہے اور اُنہیں مِل بھی رہی ہیں ۔پتہ نہیں ہماری عوام کو کیا ہوتا جا رہا ہے ۔ہمارے ایسے سماجی روئیوں کی وجہ سے بُہت سی معاشرتی پیچیدگیاں ، مسائل اور بُرائیاں جنم لے رہی ہیں ۔کتنی ہی لڑکیاں ہیں جو گھروں کی دہلیزوں پر ہی بُوڑھی ہو رہی ہیں اور کتنے ہی جوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔آخر کب آئے گا وہ وقت جب ہم اپنا اچھا برا سوچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا اچھا برا سوچنے کے بھی قابل ہو جائیں گے۔۔۔ جب ہمارا معیار دولت نہیں بلکہ اخلاق ہوگا۔ سوچیں اِن رویوں پر۔۔ کوشش کریں بدلنے کی اور دعا کریں کہ ہم اپنی مذہبی اقدار کا جنازہ نکالنے کی بجائے ان پر عمل کر سکیں تاکہ ایک خوبصورت معاشرہ پنپ سکے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply