نظام عدل ہے چیستاں بہت۔۔زاہد سرفراز

آپ کہتے ہیں آدم انسان بن گیا ہے؟
اس میں محبت اور آشتی پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے؟
ایسی کہ جو ماقبل کے انسان میں نہیں تھی؟
مگر ایسا نہیں ہے  آج کا انسان جتنا خوفناک اور ظالم ہے  ماقبل کا انسان ایسا نہیں تھا وہ انسانیت دوست اور عظمت کا سر چشمہ تھا وہ عدل کا داعی محبت کا پیغمبر تھا۔

موجودہ دور میں نظام عدل مقتول سے زیادہ قاتل کا ہمنوا ہوتا ہے جس قدر ظلم بربریت اور بے رحمی سے کوئی کسی کو قتل کر دے اسے بس بہت ہی معمولی سی سزاء دی جاتی ہے اور اگر بندہ نفسیاتی مریض ہو تو عام معافی بھی مل سکتی ہے ، حتٰی  کہ عادی یا پیدائشی مجرموں سے بھی معاشرے کو پاک نہیں کیا جاتا لیکن ویسے کسی قوم قبیلے کی نسل کشی کرنی ہو  تو ہیرو شیما ناگا ساکی سے لے کر خطہ ارض پر پھیلی رونگٹے کھڑی کر دینے والی ان گنت انسانیت سوز داستانیں موجود ہیں ۔انصاف مقید ہے ، جرم دندناتا پھرتا ہے، پھر بھی کہتے ہیں اہل چمن کہ انتہائی ظالم قاتل سے بھی نرمی اور ہمدردی سے پیش آنا چاہیے کیونکہ یہی انسانیت ہے، بے چارے کا دل دکھی ہو گا نا تو جس کے ساتھ اس نے  درندگی کا مظاہرہ کیا اس کا کیا؟، کیا وہ اپنی اس درندگی کے باوجود محبت اور ہمدردی کا مستحق ہے ؟ اور اگر ہے تو کیوں؟ یہ کیسی اور کہاں کی انسانیت ہے کہ مظلوم کو چھوڑ کر ظالم کے ہمدرد بن جاؤ، پورے خطہ زمین سے چن چن کر تمام معصوم انسانوں کو قتل کر دیا جائے۔ اس سے انسانیت کا سر بلند ہوتا ہے اور انسان عظمت کا ستارہ لے کر اوج ثریا پر مقیم ہو جاتا ہے،

آخر سوال یہ ہے کہ آنکھ کے  بدلے آنکھ کیوں نہ نکالی جائے؟ کان کے بدلے کان کیوں نہ کاٹا جائے ؟اور جان کے بدلے جان کیوں نہ لی جائے؟۔۔ کہ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے، یہ کار خیر تو آپ انسانیت کا گلا گھونٹنے کے لیے شب و روز عام کرتے ہیں اگر آپ کی آشیرباد سے معصوم انسانوں کی نسل کشی ممکن ہے  تو مجرموں کی نسل کشی کیوں ممکن نہیں؟۔۔ کیوں ممکن نہیں کہ خس کم ہوں اور جہاں پاک ہو جائے، ایسا کیوں ہے  کہ کسی کے قتل ہونے پر مقتول کے ورثاء کو انصاف خرید کر لینا پڑتا ہے  اور اکثر تو خریدنے سے بھی نہیں ملتا اگر مل بھی جائے تو اس میں عدل نہیں ہوتا جبکہ مجرم کے پکڑے جانے اور عدالت کی کارروائی سے لے کر سزاء کی دہلیز تک اس کے بچ نکلنے کے ہزاروں راستے موجود ہیں، ہزاروں مواقع  ہیں ،اگر مفر نہیں تو مظلوم کو نہیں اس کے بچ جانے کا کوئی راستہ نہیں، اسے ہر دو صورت میں کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنی ہو گی، خود عدل کی کرسی پر بیٹھا جج بھی مجرم سے ہمدردی اور رحم  کا درس دیتا ہوا ملے گا، مگر مظلوم کو ہر جگہ گھیر کر مارا جاتا ہے ،جس قدر ظلم اور بربریت ممکن ہے  انسانیت کے مکروہ  چہرے پر سجا کر انسانیت دوست ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے، ٹاک شوز اور علمی درسگاہوں  میں بیٹھے سوڈو سائنس کے ماہر عظیم دانشور بھی ہمیں جرم کے نام پر انسانیت کا درس دیتے ہوئے ملتے ہیں، مجرم سے محبت اور ہمدردی کا پاٹ پڑھایا جاتا ہے، اگر کوئی پرسان حال نہیں تو وہ فقط مظلوم کا نہیں ہے، ظالم تو کھلا سانڈ ہے، مشرق سے مغرب تک جہاں مرضی چاہے دندناتا پھرے اسے مکمل آزادی ہے  اور اسی کا نام انسانیت ہے۔

جب کبھی کوئی کیمیائی عمل ہوتا ہے  تو اس کے نتیجے میں ایک کارآمد چیز بنتی ہے  مگر اس کیمیائی عمل میں اکثر اس کے ساتھ بائی پروڈکٹ بھی بنتا چلا جاتا ہے  جو بعض اوقات تو دوبارہ کام میں لایا جاسکتا ہے  مگر زیادہ تر اس کے نتیجے میں تباہ کن مادہ پیدا ہوتا ہے  جس کے باعث انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ،اس لیے ایسے مادے کو جلد سے جلد تلف کر دیا جانا ضروری ہوتا ہے، ورنہ تباہی آپ کا مقدر بن جاتی ہے ، اسی طرح کسی کیمیائی عمل کے نتیجے میں جو ناکارہ مادہ آخر میں بچ جاتا ہے  وہ انسانی صحت کے لیے مہلک ترین شے ہے ، لہذا اسے بھی کہیں نا کہیں ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے ، تاکہ انسانی صحت محفوظ رہے،
ایسے ہی انسانی پیداوار اور معاشرتی عمل کے نتیجے سے معاشرے میں برے لوگ پیدا ہوتے ہیں ،یہ برے لوگ سماج کا وہ کچرہ ہیں جنہیں  تلف کیا جانا ایک صحت مند معاشرے کے لیے  ضروری ہوتا ہے، مگر ان کو بچانے کے لیے  ہم اپنے قیمتی اور کار آمد لوگوں کی  قربانی    دینا گوارہ کر لیتے ہیں، ان مجرموں کے لیے بڑا ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں، جنہوں نے معاشرے کے بہترین لوگوں کو ضائع کر دیا یا ان کو شدید نقصان پہنچایا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے  کہ ان قیمتی جانوں اور کارآمد افراد کو بچانے کے لیے  معاشرے میں موجود کچرے کو تلف کیوں نہ کیا جائے تاکہ معاشرہ ترقی کرسکے ،سماج میں امن قائم ہو اور انسان سکھ کا سانس لے۔ آج کے انسان سے بہتر تو سترہ سو قبل مسیح حموربی نامی وہ بادشاہ تھا جس کا دستور رہتی دنیا تک ایک مثال ہے ، ایسا دستور جس میں معاشرتی غلاظت صاف کرنے کے بے لاگ قوانین تھے جن پر بنا کسی کم و کاست کے سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اس دور کا انسان یہ جانتا تھا کہ معاشرے میں موجود برے لوگ انسانیت کے لیے  ناسور بن جاتے ہیں، لہذا ان کا تلف کر دینا ہی عقلمندی کی دلیل اور انسانیت کی معراج ہے  ورنہ معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نظام عدل ہے چیستاں بہت۔۔زاہد سرفراز

  1. یہاں کچھ انسانوں سے اپنے مفادات کیلئے جرم اور ظلم کروائے جاتے ہیں۔ کچھ پسماندہ سوچ اور دقیانوسی خیالات و نظریات کے مقدس ہونے اور حرف آخر سمجھتے ہوے مخالف سوچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ جرم اور ظلم کوئی بھی ہو وہ انسان کے اندر قدرتی طور پر موجود نہیں ہوتا بلکہ سماج اور سماجی حالات اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سماجی حالات مروجہ نظام معیشیت تعین کرتی ہے۔ ایسا نظام جس کے رکھوالے بھی جنگوں کے ذریعے انسانوں کا قتل کریں اور اس کی رعایا کو ایسی انسانیت سوذ اخلاقیات دے تو جرم تس فرد کا نہیں نظام کا ہے۔ نظام ذر ہی اصل قاتل ہے اسکو قتل کیے بغیر انسانوں اور انسانیت کی بقاء ممکن نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ عوام کریگی کوئی عدالت نہیں۔

Leave a Reply to خلیق ارشاد Cancel reply