پول آف انفینیٹی

نیلے رنگ کا اک ورق لکھنے بیٹھی ہوں
انگلیوں کی پوریں
چکنے شیشے پر یوں پھسلتی جاتی ہیں
گویا ہوا ریت پر لہریے بناتی
سبز زمینوں سے گزرتی
فلک بوس برفیلی وادیوں میں ٹھٹھر جائے۔۔
وہیں کہیں پہ ہمارا ساتھی پرانا
وہ قطبی تارا جو جھک کر دیکھے
اور کوئی ثریا میز پر سے
برتن پلیٹیں اٹھا کر
کاغذ قلم، ٹائپ رائٹر رکھ دے
فلک کے نیلے کناروں پر
رنگ برنگی مچھلیاں
بادلوں میں تیرتی
طویل آبشاروں میں اتر جائیں
نوکِ خار چٹخے گل پھوٹے
برف کا گالا دہکنے لگ جائے
سبز درختوں کے پار سرمئی بادلوں میں
ہر حفظ مراتب اختلاف
تلخی ایام رنج بھرے گلے سارے
اس آبشار میں بہا کر
ہم گفتگو کریں
روپہلی مچھلیوں جیسے
حرف لکھیں
وہ حرف کہ جن کے رنگ
سمندر میں ڈوبتے سورج جیسے دہکنے لگیں
اور شب کی نرم آغوش میں وہ
محبت کے فائٹو پلینکٹون کی روشنی
حصار میں لیے
تحیر کے پول آف انفینیٹی میں
بہا لے جائیں۔۔!!!

Facebook Comments

سبین علی
افسانہ نگار نقاد شاعرہ اور مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پول آف انفینیٹی

Leave a Reply