عصبیت قران وسنت کی روشنی میں

اتحاد واتفاق ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود ومطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ کسی زمانے، مذہب ومشرب سےتعلق رکھتے ہوں سب کا اس بات پر اتفاق ہے، اس میں دو رائے ہونے کا امکان نہیں۔ اس سے معاشرے میں الفت ومحبت ارتقاء پذیر ہوتی ہے، معاشرے مثالی بنتے ہیں، قومیں ترقی کرتی ہیں اور باہمی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے، انتشار، نفرت انگیزی، تکبر وغرور، انانیت، قومیت، تفرقہ بازی ایسی چیزیں ہیں جن سے معاشرہ اس طرح بکھر جاتا ہے جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں، رشتہ دار، عزیز واقارب، گھر وخاندان اور قوم وقبیلوں کے درمیان نفرت ودشمنی جنم لینے لگتی ہے، اگر آج ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، معاشرے پر نظر دوڑائیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے وہ “عصبیت” ہے۔
تعصب اور عصبیت پسندی سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، عصبیت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اسی عصبیت نے اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو تہس نہس کر ڈالا ہے، عصبیت پسندی کی وجہ سے ہم اسلامی اخوت کے اس عظیم نعرے کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں، اس یکتا درس کو بھلا بیٹھے جس میں آقائے نامدارﷺ نے ارشاد فرمایا “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے”(مشکوٰتہ#039،المصابیح صفحہ422)۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عصبیت کیا ہے؟ اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہیں؟
صاحب فیروز اللغات کے نزدیک عصبیت کے معنی طرفداری کے ہیں، صاحب المنجد کے نزدیک پٹی باندھنا، تعصب سے کام لینا، دھڑے بندی اور دلیل ظاہر ہونے کے بعد حق بات کو نہ ماننے کا نام عصبیت ہے۔ اسلام ایک ایسا جامع و مکمل، یکتا ومنفرد دین ہے جس نے اپنے تابع ہونے والوں کی مکمل راہنمائی کی ہے، پیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے ہیں ، اسی نسبت سے اسلام نے عصبیت کے متعلق ایسے واضح اور قیمتی اصول بیان فرمائے جس سے تعصب اور عصبیت پسندی کی دیواریں ہل گئیں ہیں، ان کا وجود لزرنے لگاہے، اسلام نے انسانیت کو حیوانیت، درندگی، ظلم واستبداد، جبر ومشقت، تعصب وعصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ، جینے کا منظم نظام عطا کیا جس کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں، لیکن ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی، احکامات کی نافرمانی اوراسوہء رسول اکرمﷺ سے بغاوت کی، اس لیے دنیا میں ذلت وعبرت کا نشانہ ٹھہرے۔۔ قران وسنت کی اس حوالے سے کیا راہنمائی ہے؟ قران مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ” اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے بنایا اور تمہیں مختلف قومیں اور خاندان بنایا، تاکہ تم محض ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سب سے بڑا پرہیزگار وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے، بلاشبہ اللہ تعالی خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے”(الحجرات:13)
اس آیت کریمہ کے ذریعے قرآن نے رسومِ جاہلیت اور تمام طرح کی عصبیت کی بیخ کنی کی ہے چاہے وہ قومیت پرستی، قبیلہ پرستی، ذات وبرادری کی عصبیت، لسانیت وطنیت پرستی ہو، اسلام نے یکسر اس کی مخالفت کی ہے اور صالح معاشرے کے لیے بہترین اصول ارشاد فرمائے ہیں، اس آیت کے شانِ نزول کو دیکھیں تو اس کی بنیاد بھی یہی تھی، شان نزول کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔
1:امام زہری فرماتے ہیں حضور اکرمﷺ نے بنو بیاض قبیلے والوں سے کہا کہ تم اپنے قبیلے کی کسی لڑکی کا نکاح ابو ھند صحابی سے کرواؤ، قبیلہ والوں نے جواب دیا کہ کیا ہم اپنی لڑکیوں کا نکاح غلاموں سے کر دیں؟؟ یعنی غلاموں سے نکاح کو انہوں نے عار سمجھا اس وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی،(قرطبی:8/341)
2:دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت ثابت بن شماس رض کے بارے میں نازل ہوئی، یہ قول ابن عباس رض کا ہے، ابن عباس رض فرماتے شماس ذرا اونچا سنتے تھے اس لیے حضور اکرمﷺ کے پہلو میں قریب بیٹھا کرتے تھے تاکہ فرموداتِ نبویﷺ کو صحیح طرح سن پائیں، صحابہ کرام رض مجلس میں باوجود سبقت کے ان کو آگے جگہ دے دیا کرتے تھے، ایک دن ثابت رض آئے کہ فجر کی ایک رکعت ان سے فوت ہوچکی تھی، نماز کے فوراً بعد تمام صحابہ رض نے حضور اکرمﷺ کے ارد گرد اپنی نشت پکڑ لی، ثابت رض نماز مکمل کر کے مجلس میں گردنیں پھلانگتے آگے حضور کے قریب ہونے لگے، حسب معمول صحابہ نے انہیں جگہ دے دی، حضور اکرمﷺ کے قریب ایک صحابی تشریف فرما تھے ان سے ثابت رض نے کہا مجھے جگہ دو، اس صحابی نے فرمایا میرے پیچھے بیٹھ جاؤ، اس پر ان کو غصہ آیا، قریب کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ فلاں ہے، ثابت رض سے غصے سے زور سے یا ابن فلاں کہ کر پکارا، جس سے زمانہ جاہلیت کا کوئی عار دلانا مقصود تھا، آگے والے صحابی بہت شرمندہ ہوئے،حضور اکرمﷺ نے دریافت فرمایا، یا ابن فلاں کہنے والا کون تھا؟ ثابت رض نے عرض کیا یارسول اللہﷺ میں تھا، حضور اکرمﷺ نے فرمایا حاضرین مجلس کے چہروں کو دیکھو، ثابت رض نے تمام چہروں کو دیکھا، آپﷺ نے سوال کیا کہ ثابت کیا دیکھا؟ ثابت رض نے جواب دیا کہ کوئی سفید ہے کوئی کالا ، آپﷺ نے فرمایا دیکھو تم ان سے بڑھ نہیں سکتے مگر تقویٰ کی وجہ سے، یعنی تمہارا تقوی اور پرہیز گاری ان سے بڑھ کر ہوگی تو تم ان سے اونچے ہو گے، ورنہ دینا کی اونچ نیچ کی عنداللہ کوئی وقعت نہیں(حوالہ بالا)
3:تیسرا واقعہ حضرت بلال رض کی اذان کا ہے، فتح مکے کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا، حضرت بلال رض نے کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دی، کفار میں سے عتاب بن اسید نے کہا کہ شکر ہے اللہ نے میرے والد کو یہ دن نہ دکھائے، اس سے قبل ہی ان کو اٹھا لیا، حارث بن ہشام نےکہا کیا محمدﷺ کو اس کالے کے علاوہ کوئی دوسرا مؤذن نہیں ملا؟ سہیل بن عمر نے کہا اللہ اگر چاہیں کسی چیز کو تبدیل کر سکتے ہیں، ابو سفیان نے کہا میں کچھ نہیں کہتا، میں ڈرتا ہوں آسمانوں کا رب انہیں خبر دیدے گا، جبرائیل نازل ہوئے اور پوری گفتگو کا احوال سنایا، حضورﷺ نے انہیں بلایا اور گفتگو کے متعلق سوال کیا، سب نے گفتگو کا اقرار کیا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(حوالہ بالا)۔
ترمذی میں ابنِ عمر سے مروی ہے حضور اکرمﷺ نے فتح مکہ کے موقعے پر خطاب فرمایا اور کہا “اے لوگو اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کے عیبوں کو دور کیا ہے اور اپنے آباو اجداد سے فخر کو، لوگ دو قسم پر ہیں، نیک، تقوی دار، کریم ہے اللہ پر، دوسرا گنہگار، بدبخت ہلکا ہے اللہ پر اور آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹی سے ہے” پھر یہ آیت تلاوت فرمائی(قرطبی 8/341)
مسند امام احمد میں ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ایامِ تشریق کے خطبے میں ارشاد فرمایا “اے لوگو، سنو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا والد ایک ہے، سنو کسی عربی کو عجمی پر، نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر فضیلت ہے سوائے تقوی کے”(مسند احمد 6/570)
حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کی حضور اکرمﷺ نے فرمایا “جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت پر قتل کیا اور جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے” ان آیات واحادیث کے بعد ہم اپنے گردوپیش کو دیکھیں ہماری کیا صورتحال ہے؟ چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک کے لوگ اس عصبیت کے موذی مرض میں مبتلا ہیں،اگر ہم ملک وملکیت کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان مکروہ نعروں کو فراموش کرنا ہوگا، اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ دینا ہوگا، سندھی پنجابی، بلوچ اور پختون کو بُھلا کر ایک امتی اور مسلمان کی حیثیت سے وطن عزیز میں امن وامان کو قائم کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply