غدارِ وطن؟؟۔۔محمد ثاقب عباسی

یه عجیب غدارِ وطن ہے  جسے ریاستِ پاکستان نے اس کی خدمات پر دوسرا اعلٰی ترین سول ایوارڈ “نشانِ امتیاز” دیا ۔ جو پاکستان کی اعلی ترین عدالتوں کی بار  صدر رہی ، جہاں تک رہی بات سپریم کورٹ کی صدر کی حیثیت سے گاندهی جی کی سمادھی پر حاضری دینے کی تو یه ایسے ہی هے جیسے کراچی میں کسی قونصلیٹ میں کونسلر کی تعیناتی ہو اور وه مزارِ قائد پر حاضری دے،اس کو گاندھی جی پوجا سے تعبیر کرنے کا حوصله  ہم میں تو نہیں ۔ باقی عاصمہ  جہانگیر کو  مودی جی کی بلائیں  لینے  والی اور عالمی اسٹیبلشمینٹ کی آله کار کہنا۔۔ یه وه الزامات ہیں جو هماری مقامی اسٹیبلشمینٹ لیاقت علی خان اور فاطمه جناح سے لے کر اب تک کے حکمرانوں پر لگاتی آ رہی هے تو اب اس کا کیا جواب دینا!!

بجا فرمایا آپ نے که سوشل میڈیا پر پر بالکل جذباتی “صالحین” دشنام طرازیاں کر رہے ہیں لیکن ابھی تک میں نے کسی عالمِ دین، حکومتی یا ریاستی عہدیدار یا کسی بھی طبقہ  فکر سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیت کو مرحومه کے متعلق تعزیت کرتے هوئے تو دیکھا اور سُنا ہے پر خوشی مناتے نہیں،حق لکھا ہے کتابِ الہی میں که ” اِهل علم اور عام انسان برابر نہیں ہو سکتے”

یہ بھی پڑھیں :  احوال ذلالت بطرز جدید چال چلن۔۔مریم مجید/قسط1

کہاں ملعون نبوت کا دعویدار مسلیمه بِن کذاب اور عبد المجید ابن عبد العزیزبن داؤد اور کہاں عاصمه جہانگیر۔۔ہمت ہے ان لوگوں کی جو ایسا سوچ رہے ہیں ۔

صالحین جگہ جگہ قرآن و سنت سے باقاعدہ دلائل دے کر ثابت کر رہے ہیں کہ کسی مخالف کی موت پہ خوشیاں منانا سنت رسول ﷺ اور سنت صحابہ ہے ۔ لہذا عاصمہ کی موت پہ جشن عین شرعی ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کچھ عرصہ قبل مناظرہ سے ثابت کرتے رہے کہ سب و شتم اور گالم گلوچ سنت رسول اور سنت الہی ہے ۔۔( نعوذ بااللہ )

سوشل میڈیا سے کچھ  بھی  سیکھنے کی بجائے   پہلے یه دیکھ  لینا چاہیے  که وه اسلام ہے یا تاریخ اسلام(وہ بھی مسخ شد ہ)۔۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلام پہ اس سے کڑا وقت کبھی نہیں آیا ہوگا کہ دین کو ایسے “صالحین” بطور وکیل میسر آئے ۔

انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعه ہے، سرسید کی دینی تعبیر سے اختلاف کے باوجود ان کی علمی خدمات کو نہ ماننا بدیانتی هو گی، تارِیخ انسانی میں ایک ہی شخصیت گُزریں ہیں جن پر انسانیت کی “تکمیل” ہوئی هے۔۔ سرکارﷺ ہی ہیں جو عیب سے پاک ہیں باقی هم سب تو خام ہیں، رحمت العالمین جنهوں نے رئیس والمنافقین ” عبدالله بن اَبی” کا نا صرف جنازه پڑھایا بلکه کفنانے کے لیے  اپنا کرتا مبارک عطا کیا، جو اِک یہودی کے جنازے کی تکریم کے لیے نه صرف کھڑے ہوئے بلکه استفسار کرنے پر بحیثیت انسان جنازے کی تکریم کا حکم دیا۔۔ایسی ہستی  کی اُمت پته نہیں کیوں خدائی فوجدار   بنی  هر مخالف نظریه رکھنے والے کو جہنم واصل کرنے کے دَر پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں :   لٹ الجھی سلجھا جارے ’کالم‘۔۔گلِ نوخیز اختر

Advertisements
julia rana solicitors london

عجیب  ہلچل  مچی ہوئی ہے سوشل میڈیا پر۔۔تقطیب “polarization” کا یه عالم ہے که جہاں ایک طرف دیسی لبرلز (کالے انگریز) مرحومه کو نیلسن منڈیلا اور چی گویرا سے بڑا انسانی حقوق کا چیمپیئن اور انقلابی ثابت کر رہے ہیں وہیں همارے صالحین اسے مسلیمه بن کذاب اور ملعونه قرار دے رہے ہیں۔عاصمه جہانگیر هر انسان کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مجموعه تھیں،ان کی بہت ساری آراء اور خیالات سے میں بھی  متفق نہیں تھا، ا ن کی دینی تعبیرات اور معاشرتی نظریات سے لاکھ  اختلاف  سہی پر انهیں بحیثیت وکیل اور سوشل ایکٹیوسٹ پسند کرنا  کسی گناه کے زمرے میں نہیں آتا،سول سوسائٹی کے لیے کھڑ ے ہونا،سچائی کا ساتھ دینا ،مظلوم کی حمایت میں اپنے موقف پر ڈٹ جانا ان کی ایسی خؤبیا ں تھیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے۔

Facebook Comments

محمد ثاقب عباسی
کسی بچے کے کھلونے جیسا, میرا ہونا بھی نہ ہونے جیسا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply