مقدمہ لبرلزم

لبرل اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے۔۔ وہ فقط آزادی اور برابری چاہتے ہیں اس کے علاوہ تیسرا کوئی مقصد ان کے پیشِ نظر نہیں، ان کا خواب ہر کام کی آزادی ہے پھر چاہے وہ آزادی اظہار رائے ہو یا آزادی تجارت، مذہبی آزادی ہو یا تفریحی آزادی، ان کا خواب ہے برابری، تمام ذات پات، رنگ، نسل، مذہب یا جنس، تمام انسانوں کی برابری۔ اصول اور منطق کے کینوس پر یہ خواہشات جائز اور ممکن نظر آتی ہیں تاوقتیکہ راستے میں مذہب کی دیوار نہ ہو جسے لبرلزم دیگر کئی دیواروں کی طرح گرانے کے خوگر دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب مذہب آسمانی قوانین و نظریات کا ایک مجموعہ ہے جو اپنے ماننے والوں کی خواہشات کے مطابق یا برعکس ان پہ ایک فریم ورک لاگو کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اس فریم ورک کی طوعاً و کرہاً ترویج ہی دراصل ایک مذہبی معاشرے میں عدم برداشت کا مادّہ پیدا کرتی ہے، میں خوب غور و فکر کے باوجود بھی نماز نہ پڑھنے پہ ایک عورت پہ ہاتھ اٹھانے کے حکم کو قانونی شکل دینے کو ایک معتدل برداشت سے بھرپور معاشرے کا جزو قرار نہیں دے پایا۔ ادیانِ ابراہیمی کا اس بات پہ اجماع ہے کہ رب العالمین نے تمام عورتوں اور مردوں کو پیدا فرمایا اور پھر ان پہ لاتعداد نعمتوں کا نزول کیا اور اس کے بدلے ان پر اپنی عبادت نماز، روزہ وغیرہ کو فرض فرمایا، اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کو ایک خاص مدت تک سانس لینے، زندہ رہنے اور اس کے بعد مرنے کا پابند کیا، آپ کو، مجھے اور ہم سب کو زندگی گزارنی ہے اور پھر مر جانا ہے، ان تمام امور سے بھاگ جانا ہمارے اختیار ہی میں نہیں رکھا گیا، پھانسی کے پھندے پہ رسی کا ٹوٹ جانا یا فضائی حادثے میں ایک نومولود کا بچ جانا یہ صرف اس رب کے اختیار میں ہے جس کے قبضے میں سب کی جان ہے لیکن اسی رب العزت نے آخر آپ کو اور مجھے اس بات کا اختیار کیوں دیا کہ ہم نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں، روزہ رکھیں یا نہ رکھیں، سود سے نفرت کریں یا سود کھائیں؟ یہ زندگی اللہ کا امتحان ہے تو بھائی مجھے اپنی مرضی سے امتحان تو دینے دو “ان اللہ على کل شیء قدیر” وہ اس امر پہ قادر تھا کہ نماز کو آپ کے ڈی این اے میں پروگرام کر دیتا اور اس سے بھاگنا آپ کے اختیار میں ہی نہ رہتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنے سے انسان اور فرشتوں میں کوئی فرق نہ رہتا، جب رب نے آپ کو زنا اور نکاح کے فائدے اور نقصان سمجھا کر اپنا راستہ خود اختیار کرنے پہ قادر کیا ہے تو کوئی کیسے کسی پہ زبردستی کر سکتا ہے کہ نکاح کرے یا زنا کرے؟ “ان اللہ علی کل شیء قدیر” وہ تو قادر تھا بغیر نکاح آپ کو گناہ سے روکنے پر لیکن اس نے نہ روکا۔۔
ریپبلک وہ طرزِ حکومت ہے جس میں قانون سازی عوامی نمائندوں کا حق ہو مگر یہ قانون سازی ایک خاص مجموعہ نظریات سے متصادم نہیں ہونا چاہیے پس۔۔ اسلامی ریپبلک میں کوئی بھی قانون سازی اسلامی نظریات کے خلاف نہیں ہو سکتی، دوسری جانب خالص جمہوریت میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق عوامی نمائندے اکثریتی بنیاد پر کوئی بھی قانون سازی کرسکتے ہیں، امریکی جمہوریت اس کی ایک مثال ہے جس نے ہم جنسوں کو قانونی شکل دے ڈالی، شدید ترین لبرل نظریہ ایک اسلامی ریپبلک کے لیے تو نقصان دہ ضرور ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے اندر رہنے والی عوام کے جان و مال پہ منفی اثر ڈالنے کی وجہ نہیں ہو سکتا، ریپبلک پہ اثر انداز بھی صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب تمام عوامی نمائندے یہ فیصلہ کر لیں کہ اب سے خالص جمہوری نظام نافذ العمل ہوگا اور یوں ریپبلکن نظام سے بغاوت کر دی جائے، بدترین حالات میں بھی ایسا کرنا آپ کے اسلامی تشخص کو ہی پامال کر پائے گا البتہ ملک میں امن و امان کی صورتحال پہ اصولاً کوئی اثر نہیں پڑے گا، ریاست کے اندر عوام کے بنیادی انسانی حقوق، آزادیء اظہارِ رائے کی صلبی بہرحال تب بھی ممکن نہ ہو گی، دوسری جانب ایک خالص اسلامی معاشرہ نصف درجن مسالک میں سے 90 فیصد کو بزورِ قوت خاموش کروائے بغیر اول تو نافذ ہی نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی جاتا ہے تو دیگر مسالک کی خاموشی کے نتیجے میں جو ردعمل سامنے آئے گا وہ ریاست کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوگا ویسے بھی ایسی ریاست بنانے کے لیے دورِ جدید میں آپ کو داعش یا القاعدہ ہونا پڑے گا جبکہ ماضی میں تانک جھانک کی جائے تو آل سعود اور خمینی بھی زیادہ دور دکھائی نہ دینگے، ایسی صورت میں اگر آپ تیل کے مالک نہیں تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دیگر اقوام آپ سے کنارہ کشی بھی اختیار کر سکتی ہیں.
قارئین کرام۔۔ اس تحریر کا مقصد مذہب یا اسلام کے خلاف عناد ہر گز نہیں بلکہ اس کا مقصد ملّا کے ٹرانس سے باہر نکل کر ایک کامل مذہبی معاشرے کی خصوصیات پہ بحث کرنا ہے۔ ایک کٹّر مذہبی معاشرے کے برعکس جہاں قادری کو ایک ہیرو بنانے کے لیے ملک کے عین دل میں گالیوں اور دیگر بدتہذیبیوں کی بھرمار کر دی جاتی ہے، میں ایک ایسے معاشرے کے بارے میں ضرور لب کشائی کرنا چاہوں گا جہاں کا آئین مبہم اسلامی شقوں کی بجائے اخلاقی اقدار، علاقائی ثقافت اور دور جدید کے بنیادی انسانی حقوق کے گرد گھومتا ہو۔ آج ایک عام مسلمان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کوئی لبرل آپ کو عبادت سے نہیں روکے گا لیکن ایک انتہا پسند شخص آپ کو شعیہ سنی کے جھگڑے میں ضرور الجھا دے گا۔ قارئین کرام۔۔”لکم دینکم ولی دین”(تمھارے لیئے تمھارا دین،میرے لیئے میرا دین) کے نزول کا کوئی تو مقصد تھا۔سوچنا شرط ہے!

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply