عاصمہ جہانگیر کون تھی؟۔۔حیدر سید

گیارہ سال جیلوں میں گزارنے اور اٹھارہ سال عدالت میں مقدمے بھگتنے کے بعد باعزت بری ہونے والے آصف زرداری کو یہ قوم کرپٹ سمجھتی ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں جن جرنیلوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی سفارش ہوئی تھی ان کے نام بھی کوئی نہیں جانتا مگر بھٹو نے ملک توڑا یہ بات بچے بچے کی زبان پر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف نیب کا کوئی ریفرنس پینڈنگ نہیں مگر وہ مولوی ڈیزل اور بد عنوان سیاستدان ہے اس سب پر قوم کو یقین ہے۔ محمود اچکزئی نے ریاست کے خلاف کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے نہ کبھی باچا خان نے اٹھائے تھے مگر یہ غدار وطن ہیں۔

آپ نے کبھی سوچا کہ کیوں؟۔۔۔ اگر آپ نے یہ جان لیا تو آپ یہ بھی جان جائیں گے عاصمہ جہانگیر کو مرنے کے بعد بھی غداری کے سرٹیفکیٹ کیوں دئیے جا رہے ہیں۔عاصمہ جہانگیر پچھلی تین دہائیوں میں اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کی چیرہ دستیوں کے خلاف اٹھنے والی سب سے مضبوط آواز تھی جسے کسی جبر کسی دھمکی کسی لالچ سے اپنے راستے سے ہٹایا نہیں جا سکا۔ اس کے بعد ریاستی اداروں کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو گولی کے ذریعے اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردو یا پھر غداری، اسلام دشمنی، یہودی ایجنٹ اور انڈین ایجنٹ ہونے کا اتنا شور مچاؤ کہ اس آواز پر کان دھرنا مشکل ہو جائے۔

بے نظیر پر کیا الزام تھے جو نہیں لگے مگر اس کا عوامی کرزما اس قدر مضبوط تھا کہ آخر اسے ایک اندھی گولی کا شکار ہی ہونا پڑا۔ عاصمہ کے ساتھ یہ دوسرا حربہ برتا گیا۔ فوجی آقاؤں اور مذہبی بیوپاریوں کے بنائے کنٹوپ دماغ پر چڑھا کر جوان ہونے والے دولے شاہ کے چوہوں کو یہ سمجھانا ممکن نہیں کہ عاصمہ جہانگیر کون تھی۔ وہ جرات کی ایسی آواز تھی جو جنرل ضیاءالحق کے کالے قوانین سے لے کر ملک اسحاق جیسے مسلمہ دہشت گرد اور خفیہ اداروں کے غائب کر دئیے گئے مذہبی جماعتوں کے کارکنوں، ملٹری کورٹس سے کاغذی ٹرائل پر سزا پانے والے ملزمان تک سب کے آئینی حقوق کی پامالی پر یہی ایک آواز احتجاج کے لئے بلند ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس ایم کیو ایم نے اس پر 2007 میں ایک شاؤنسٹ اور ذہنی طور پر غیر متوازن عورت ہونے کے الزامات تواتر سے لگائے تھے اس ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی 2015  میں غداری کے الزامات پر میڈیا بلیک آؤٹ کر دینے کے غیر دستوری حکم پر لاہور ہائی کورٹ میں نمائندگی کرنے کے لئے صرف عاصمہ جہانگیر ہی آگے آئی۔
بہادری کا ایک باب تھا جو آج ختم ہوگیا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply