عزت مآب بِکتے ہیں۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

گزشتہ برس جب میرے شہر کی میونسپلٹی کے الیکشن میں دو سرمایہ دار آمنے سامنے آئے تو بڑے بڑے “معززین” بکاؤ نکلے. عوام کو خوشنما نعروں کے ذریعے رنگین خواب دکھا  کر ووٹ حاصل کرنے والے ممبران میونسپل کمیٹی کی اکثریت لاکھوں روپے کی رشوت لے کر ایک نااہل شخص کو چیئرمین “منتخب” کر چکے تھے. نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرا شہر گندگی، غلاظت اور بدبودار پانی کا جوہڑ بن چکا ہے. جنہوں نے رشوت دی اور جنہوں نے رشوت لی ،سفید رنگ کے لباس زیب تن کیے خود کو آج بھی معزز کہتے ہیں جبکہ عوام اُن پہ لعنتیں بھیج رہی ہے. کیا یہ انفرادی سطح کی بےایمانی ہے یا سماجی ڈھانچہ ہی ایسا ہے؟

مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن کے لیے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی خرید و فروخت منظرِ عام پہ آ چکی ہے. یہ کام کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے لیکن اتنا کھلم کھلا پہلی بار ہو رہا ہے کیونکہ بالائی پرت کے بدمعاش بگڑتی ہوئی صورتحال میں اپنے اپنے حصے کو محفوظ کرنے کے لیے ایسے گتھم گتھا ہوئے ہیں کہ سگانِ کوچہ بھی شرمندہ ہیں. یہ شرفاء بازار میں بیٹھی ایک جسم فروش مزدور کی پاؤں کی خاک کے مقابل بھی نہیں ہیں. یہ غلیظ کردار دراصل اِس غلیظ نظامِ معیشت کا عکس ہیں. گذشتہ برس اکتوبر کے بعد گراوٹ زدہ پاکستانی معیشت میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے ریاستی غنڈے انفرادی اور ادارتی بنیادوں پر ایک دوسرے کے منہ میں ہاتھ ڈال رہے ہیں، گندے ہوتے ہوئے دامنوں کیلئے کوئی بھی فکرمند نہیں، فکر ہے تو اپنے اپنے حصے کو محفوظ بنانے کی ہے.

آصف علی زرداری کسی بھی صورت میں اقتدار تحریکِ انصاف کے ہاتھ دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُسے معلوم ہے اگر ایسا ہوا تو موجودہ پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ تاریخ کی مضبوط ترین اسٹیبلشمنٹ ہو گی جو سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے بخرے کرے گی جبکہ دوسری طرف عمران خان اینڈ کمپنی اسٹیبلشمنٹ کا سہولت کار ہونے کی وجہ سے پانچ سالوں میں اتنا مال بنا لے گی کہ نواز شریف اور زرداری کی آنکھیں باہر نکل آئیں گی. لہذا زرداری کسی بھی صورت میں سینٹ کی باگ ڈور فریال تالپور کے ہاتھوں میں دینے کے لیے نوٹوں کی بوریاں کھول چکا ہے. میرے اندازے کے مطابق زرداری صرف سینٹ کے الیکشن میں تین سو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے.

ممبران کے ووٹ کی بولی پانچ کروڑ سے شروع ہوئی تھی جو اب تیس کروڑ پہ جا پہنچی ہے. ایک ممبر نے زرداری سے پانچ کروڑ پکڑے تو دوسرے دن “دوسری پارٹی” سے دس کروڑ پکڑ کر زرداری کو پانچ کروڑ شکریے کے ساتھ واپس کر دیے. تیسرے دن زرداری نے بیس کروڑ دے کر عَلم عباس (ع) کی قسم لی مگر چوتھے روز اُس ممبر نے زرداری سے کہا مجھے دوسری پارٹی تیس کروڑ دیتی ہے. یہ ہیں ہمارے راہنماؤں کے اصل چہرے!!!

لیکن یہ اصل چہرہ ہے اِس نظامِ معیشت کا!
آزاد منڈی کی معیشت میں ایمانداری ایک عضوِ معطل و بیکار و بوجھ کے سوا کچھ نہیں، ایمانداری کو محض لیڈر اپنی تقاریر میں بطور خوشنائی استعمال کرتے ہیں جبکہ کتابوں میں یہ اصطلاح پڑھ کر ایک اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے. آج ایمانداری کیا ہے؟ ایک بیوقوفی، ایک نالائقی، ایک ہنسی۔۔!
آج یہ ایک اٹل حقیقت بن چکی ہے، صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں کہ ایمانداری سے گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا، اگر کسی ڈھنگ کی زندگی گزارنی ہے تو بےایمانی کرنی پڑے گی. جب ایسی نفسیات سماج کی ہر پرت میں پنپ چکی ہوں تو یہ فرد کا جرم نہیں رہتا بلکہ یہ اجتماعی جرم بن جاتا ہے. جو جتنا امیر ہے اُس کے پاس بےایمانی، چوری، بدعنوانی اور کرپشن کے بھی اتنے ہی مواقع ہوتے ہیں. غریب مسلسل غریب اور امیر مسلسل امیر کیوں ہو رہے ہیں؟ اِس کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں.

آزاد منڈی کی معیشت کے لبرل بہی خواہان  کے پاس سرمایہ دار راہنماؤں کی کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا سوائے یہ کہنے  کے  “بھائی کرپشن کا خاتمہ ہو گیا تو دنیا جنت بن جائے گی”. کوئی اِن سے پوچھے کہ یہ کرپشن کا خاتمہ کس نے کرنا ہے؟ یہ اداروں کا کنٹرول کن کے ہاتھوں میں ہے؟ یہ حاکم کون ہیں؟ یہ راہنما کون ہیں؟ یہ سب وہی لوگ ہیں جن کا سرمایہ داری اور کرپشن سے اٹوٹ رشتہ ہے. پانامہ، پیراڈائز اور دیگر لیکس میں کس کس کا نام ہے؟ دنیا کے کون سے براعظم کے راہنماؤں کا نام نہیں ہے؟ جو جتنا “بڑا آدمی” ہے وہ اتنا بڑا چور بھی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اِس گندگی سے نجات کا واحد حل ذرائع پیداوار کو سرمایہ داروں کی نجی ملکیت سے نکال کر محنت کشوں کے کنٹرول میں دینا ہو گا. پانچ سال کی قلیل مدت میں بےایمانی کی جگہ ایمانداری کو مل جائے گی. اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جو لوگ کرپشن کے خاتمے کی آواز بلند کرتے ہیں وہ حقیقت میں کرپشن میں اپنا مطلوبہ حصہ نہ ملنے کا رونا روتے ہیں.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عزت مآب بِکتے ہیں۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

Leave a Reply