• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • طلاق ثلاثہ، بابری مسجداور جلا وطن مسلمان: یہ کس مقام پر ہم کو حیات لائی ہے۔۔مشرّف عالم ذوقی

طلاق ثلاثہ، بابری مسجداور جلا وطن مسلمان: یہ کس مقام پر ہم کو حیات لائی ہے۔۔مشرّف عالم ذوقی

٢٠١٩ انتخاب کی تیاریاں شروع ہو گیئں ، معاشی، سماجی، تہذیبی، اقتصادی تمام ناکامیوں کے باوجود مودی حکومت کے پاس جیت کے لئے صرف ایک ہی بہانہ ہے ۔۔مسلمان،ایک ہی تماشا ہے۔۔مسلمان۔۔ایک ہی کھیل ہے۔۔مسلمان،ایک مداری ،ایک ڈگڈگی،اور ڈگڈگی کی آواز پر رقص کرتے ہوئے مسلمان۔۔ہوش کھوتے ہوئے مسلمان ،چکر ویو  میں الجھتے، پھنستے ہوئے مسلمان۔تمام ہنگاموں کے باوجود طلاق ثلاثہ پر حکومت کی مہر لگ گئی، بابری مسجد کے جن کو باہرلایا گیا ،آزمودہ نسخہ ، مسلمان گھرنی کی طرح ناچ گئے ،کبھی وسیم رضوی کو آزمایا، کبھی سلیمان ندوی کو،–مسلم پرسنل لا ڈھائی انچ کی مسجد بنا کر چند مسلم لیڈران کے ساتھ بے بسی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے، مٹھی بھر مسلمانوں کے علاوہ اس وقت ماجرا یہ ہے کہ پچیس سے تیس کروڑ کی مسلم آبادی گہری نیند   سوئی ہوئی ہے۔ پھر یہ ہمارے مسلم لیڈران کن مسلمانوں کی لڑائی  لڑ رہے ہیں ؟اور مسلم تنظیموں میں وہی چہرے، جن کے پاس کوئی  بڑی آواز نہیں،ایسی آواز جو ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کر سکتی ہو  اور یہ بات حکومت بھی جانتی ہے کہ ان کی آوازوں کا کوئی  اثر نہیں ہونے والا ۔

عدلیہ نے بابری مسجد کیس کو عقیدت کی کمزور بنیاد سے نکال کر اراضی پر شفٹ کر دیا،ہزار برس  کی تاریخ میں مسلمانوں کو لٹیرا کہنے والےیہ آسانی سے فیصلہ لے آئیں گے کہ مسلمانوں کی زمین کیسی ؟ محمد بن قاسم سے غزنی، غوری، خلجی اور مغل بادشاہ تک سارے لٹیرے تھے ،لوٹ کی زمین کو مسلمانوں کا حق نہیں کہا جا سکتا۔

غور کریں تو اب ہندو راشٹر کے لئے بابری مسجد اور باقی تین ہزار مسجدوں کے لئے فیصلہ آنا زیادہ آسان ہو گیا ہے .اس وقت آر ایس ایس کا ہر نمائندہ، بی جے پی کے لوگ اورتمام میڈیا مسلسل مسلمانوں کو پاکستانی ٹھہرا رہا ہے ، ہمارے پاس جواب دینے کے لئے کیا ہے ؟

ہم تسلیم کر لیں کہ ہندو راشٹر میں مسلمانوں کو جلا وطن کیا جا چکا ہے، ہندوستانی سر زمین پر مستقبل کے جو مناظر میں دیکھ رہا ہوں ، وہ شاید ملی تنظیمیں ابھی بھی دیکھ نہیں رہی ہیں ،یا وہ اس خوش فہمی کا  شکار ہیں کہ حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتے۔۔اب تک نشانے پر مسلمان تھے ،اب مذہب بھی نشانے پر آ گیا ہے،اور مستقبل کے نام پر آئندہ جس تماشے کی شروعات ہو چکی ہے، اس کی دہشت کو نظر انداز کرنا اپنی بربادی کو دعوت دینے جیسا ہے۔ہم ایک ایسے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں ، جو ہمارا نام صفحۂ ہندوستان سے مٹا دینا چاہتا ہے.،وائرس ایک خوف کا نام ہے ،یہ زہر بھی ہے جو تیزی سے اپنا شکار کرتا ہے ،آپ کے کمپیوٹر میں آ جائے تو آپ کے ڈیٹا اور میموری کو بھی نقصان پہنچا دے،وائرس کی ہماری مہذب دنیا میں ہزاروں قسمیں ہیں،کچھ وائرس جانوروں سے ہمارے درمیان آتے ہیں۔ جانوراگر انسان کو کاٹ لےتو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ان دنوں تیزی سے یہ وائرس ہمارے ملک کی مسلم آبادی میں پھیل رہا ہے۔

تاریخ نے اکثر یہ سوال پوچھا ہے کہ ہٹلر جیسے حکمرانوں کو کیا خوف محسوس نہیں ہوتا ؟۔ ہٹلر جیسے لوگ ہماری ہنستی مسکراتی دنیا کو اندھیر نگری میں تبدیل کر دیتے ہیں۔۔ایسا ہر اس ملک میں ہوا جہاں بھی ہٹلر کی حکومت رہی ،لیکن علم نفسیات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہٹلر جیسے لوگ بچوں سے بھی کہیں زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں ،اور سب سے اہم بات ‘تمام   شاہ سوالوں سے ڈرتے ہیں،کیونکہ ظلم و جبر کی ہر انتہا تک پہنچنے کے باوجود ان کے پاس جواب نہیں ہوتا ،آج ہم دنیا کے سب سے خوفناک تماشے کی زد میں ہیں۔اس تماشے  سے الگ وائرس ہر جگہ ،ہر گلی،ہر سڑک ۔۔یہاں تک کہ آپ کے گھر میں بھی موجود ہیں۔

اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے اینٹی وائرس خود  آپ کو  ہی  بننا ہوگا ،ورنہ تاریخ آپ کو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی،جنگیں زخمی کرتی ہیں،جنگوں کا خیال زخمی کرتا ہے اور اس ماحول میں ، اس خوفناک فضا میں محبّت کی آہٹ بھی دور تک سنائی  نہیں دیتی ،جہاں موت ہر گام آپ کے پیچھے ہو، جہاں آپ کو دنیا کی نظر میں دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہو، وہاں کتنی عجیب بات  ہے کہ اسی دہشت گرد پر مصیبت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، اس دہشت گرد کو جلا وطنی کی سزا مل رہی ہے،ہم ہی نشانہ ہیں،ٹارگٹ صرف ہم ۔۔ہم ابھی بھی ظلم و جبر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنے خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں، میں مضحکہ خیز بیانوں کو سن رہا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے مسلم لیڈران کے ان بیانوں کو سن کرتکلیف ہو رہی ہے ،یہ بیان کہ جہاں ایک بار مسجد بن جائے، وہاں کسی دوسری عمارت کا تصور ممکن نہیں ۔کیا اس سچ کو آر ایس ایس کی حکومت کی منظوری ملے گی ؟کیا وہ آپ کی شریعت کو تسلیم کریں گے  ؟

طلاق ثلاثہ تو ابھی حال کا  واقعہ  ہے ،ایک بڑی طاقت میڈیا ہے جو آپ کے جذبات، آپ کے مذہب، آپ کی شریعت کے پرخچے اڑانے کے لئے تیار اس لئے بیٹھا ہے کہ اسے مسلمانوں کو رسوا کرنے کی منہ مانگی قیمت مل چکی ہے،بیان دینے والے بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کا جشن منانے والی کانگریس کے عہد میں مسجد شہید کی جا چکی ہے ،مورتی بٹھائی جا چکی ہے ،بھجن کیرتن مسلسل ہو رہے ہیں،پوجا بھی ہو رہی ہے ،انصاف کا یقین دلانے والی کانگریس نے کیا مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا ؟ یہ کس کا بینچ ہے ؟ منصف کون ہے ؟ فیصلہ کس کو لینا ہے ؟ حیدر آباد یا دلی میں چار مسلم لیڈران بیٹھ کر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔کوئی  مضبوط فیصلہ لینے کے لئے کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ چاہیے ،اور اپوزیشن اپنے ہندو ووٹ بینک کو کھونا نہیں چاہے گی ۔

صدمہ اس بات کا ہے کہ ایک بڑی مسلم آبادی کمزور اور اپاہج بنا دی گئی  ہے،ہم اپنے اپنے حجرے میں سمٹے ہوئے کہیں آسانی سے فروخت ہو جاتے ہیں ،کہیں آواز بلند کرتے بھی ہیں تو یہ آواز  صحرا  میں گم ہو جاتی ہے ،صدمہ اس بات کا بھی ہے کہ ہم حکومت کی نظروں میں آسان ٹارگٹ  ہیں ،یہ حکومت دو فی صد سکھوں اور ایک فی صد سے بھی کم جاٹوں سے گھبرا جاتی ہے ،ہم ابھی تک سکھوں اور دلتوں کو اپنے قریب نہیں کر پائے  ۔ بابری مسجد کمیٹی، پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیمیں کمزور ثابت ہو چکی ہیں،یہاں آپسی اتحاد کی بھی کمی صاف نظر آتی ہے ،ان حالات میں مسلمانوں کے مستقبل کے آگے جو خطرہ منڈلا  رہا ہے، اس سے باہر نکلنے کا ہر راستہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے،ہم یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں فسادات بھی ہم پر مسلط کیے  جائیں  گے ؟ بڑھتی بے روزگاری اور بھوکے مرنے کے باوجود اکثریتی جماعت کو ہندو راشٹر کا کھلونا تھما دیا گیا ہے ، ابھی ایک حل یہ ہے کہ ہم بند کمروں سے باہر نکل کر اپوزیشن کی حمایت حاصل کریں ،لیکن کیا اپوزیشن مسلمانوں کی آواز کو تحریک بنانے کا حوصلہ پیدا کر سکتی ہے ؟ اس میں شک لگتا ہے ۔ہم خوف کے وائرس کا شکار ہو چکے ہیں ،ابھی بھی ایک راستہ اتحاد کی طرف جاتا ہے ،سب سے ضروری مسلم تنظیموں کا اتحاد ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply