دو عدالتی کیسز اور تصویر کے دو رُخ

سابق برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل سے ایک قول منسوب ہے کہ زمانہ جنگ میں جب انہیں ملک کی تباہ حالی سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ اگر ملک کی عدالتیں ٹھیک کام کر رہی ہیں اور منصفانہ فیصلے ہو رہے ہیں تو ہمیں شکست نہیں ہو سکتی۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف اور عدل کا نظام کسی بھی ملک کی بقاء کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں عدلیہ کو ریاست کے چار ستونوں میں سے ایک ستون قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات میں تو ریاست کی بنیاد ہی عدل و انصاف کو مقرر کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ روزمحشر نظام عدل قائم کرنے کا وعدہ اللہ تعالی خود اپنے بندوں سے کرتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ اس اسلامی و جمہوری ریاست کا بنیادی ستون۔۔۔ نظامِ عدل انتہائی متنازعہ اور دگرگوں صورتحال سے دوچار ہے۔ جس ملک میں کسی سیاسی لیڈر کو پھانسی لگانے یا اسے نااہل قرار دینے جیسے سیاسی فیصلے میں لمحاتی دیر بھی نا لگائی جائے جبکہ غیر ملکی جاسوس غدار اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے دہشت گرد سالوں تک پُرسہولت اسیری کے مزے لوٹ کر رہا ہوتے رہیں۔۔ جہاں رنگے ہاتھوں میڈیا کے سامنے ملکی دولت کو لوٹ کر فرار ہونے والوں کو شک کا فائدہ دے کر ضمانت پر بیرون ملک فرار کروا دیا جائے اور کسی کو قتل کے الزام میں ناحق پھانسی پر چڑھا کر دفن کرنے کے بعد باعزت بری کرنے کا فیصلہ دے دیا جائے۔جس ملک میں عدلیہ کے معزز جسٹس صاحبان لوٹ مار پر سرکاری افسران کی بیخ کنی کی بجائے سیاسی اشرافیہ کے خلاف ریمارکس دے کر خبروں میں رہنا پسند کرتے ہوں۔ جہاں زمین کی جائز وراثت کا دعویٰ کرنے والے کو اس وقت زمین دینے کا حکم صادر فرمایا جائے جب وہ خود چند گز زمین میں ہمیشہ کے لیے تہہ خاک ہو چکا ہو۔ جہاں غلطی سے کسی کا خون کرنے والے کو تو رعایت دیے بغیر تختہء دار پر لٹکانے کا حکم سنا دیا جائے جبکہ سرِعام دو انسانوں کو گولی مار کر قتل کرنے والے کو دیت وغیرہ کے نام پر رہا کر کے بیرون ملک بھجوا دیا جائے۔ جہاں بکری اور مرغی چور سالوں تک جیلوں میں سڑتے اور تاریخیں بھگتتے رہیں جبکہ اربوں روپے چوری کرنے والے پلی بارگین کرکے بقیہ زندگی کسی مغربی ملک میں آرام سے بیٹھ کر عیاشی کریں۔جہاں ملک سے غداری کے ملزم کو بیرون ملک علاج پر جانے کی اجازت مل جائے مگر ایک سیاسی قیدی کو ایک تہوار بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ منانے کی اجازت نا ہو۔ جہاں عدالتی نظام میں اس حد تک سیاست ملوث ہو چکی ہو کہ پیشیوں پر آنے والے لیڈر اسے اپنے لیے اعزاز سمجھیں اور کٹہروں میں کھڑے ہو کر وکٹریوں کے نشان بنائیں۔۔۔۔ آپ خود سوچیے اس ملک کے عدالتی نظام کا کیا حال ہو گا۔ عدل وانصاف کا کتنا بول بالا ہو گا۔۔
مشرف دور میں جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کی سربراہی میں عدلیہ بحالی تحریک چلی تب میں بہت جذباتی تھا اٹھتے بیٹھتے نعرے لگایا کرتا کہ عدل بِنا جمہور نا ہو گا۔۔۔عدل بِنا جمہور نا ہو گا۔۔۔ گھنٹوں ٹی۔وی کے سامنے بیٹھنا دعائیں کرنا اور پل پل کی خبر رکھنا اور عملی شرکت کرنا میرا شیوہء زندگی بن چکا تھا۔ پھر جب افتخار چوہدری صاحب بحال ہوئے تو میری خوشی کی انتہا نا تھی۔ میرا ماننا تھا کہ اب ملک میں صحیح معنوں میں عدل قائم ہو گا اور عدل قائم ہو گیا تو ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا۔۔۔ مگر بعد میں ہونے والے مختلف واقعات نے میری یہ خوش فہمی بھی جلد ہی دور کر دی۔۔ گو کہ چوہدری صاحب نے چند دلیرانہ فیصلے کیے مگر مجموعی طور پر عدالتی نظام میں کوئی خاص بہتری نا آ سکی۔ میں ہمیشہ یہ سوچتا رہا ہوں کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جس نے ہمارے ملک کے عدالتی نظام کو بے اثر کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاسی بھرتیوں اثرورسوخ اور اس جیسے دیگر عوامل تو ہیں ہی لیکن وہ کون سا بنیادی ہتھکنڈا ہے جس کو استعمال کر کے ہر قسم کے قوانین ہونے کے باوجود ملکی عدالتی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا گیا ہے اور اپنی مرضی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
شومئی قسمت کہ مجھے عدلیہ کے حوالے سے دو مختلف کیسز کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا تب ساری بات سمجھ میں آئی کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور نظام کی فرسودگی کی اصل وجہ کیا ہے۔
ان دو کیسز میں سے ایک تو معروف ماڈل گرل کی بیرونِ ملک ڈالر لے جاتے وقت گرفتاری کا کیس ہے جس سے تقریباً آپ سب ہی واقف ہیں اور دوسرا کیس لاہور ہائی کورٹ میں واٹر مینجمنٹ ملازمین کی بحالی کا کیس تھا۔ یہ کیس نسبتاً کم معروف تھا اور اس کی خبریں صرف لوکل میڈیا پر چلیں مگر اس میں مسائل کے حل کے حوالے سے ایک بہت بڑا سبق تھا۔ مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر میں دونوں کیسز کی تفصیل میں جائے بغیر صرف مختصر تجزیہ کروں گا۔ باقی آپ خود سمجھ جائیں گے کہ مسئلہ کی اصل جَڑ کیا ہے۔
جہاں تک پہلے کیس کا تعلق ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ معروف ماڈل کو جب کراچی ائیرپورٹ پر بیرون ملک ڈالر لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا تو میڈیا سمیت پورے ملک میں طوفان آ گیا تھا چونکہ ماڈل کا تعلق ملک کی اہم ترین شخصیات سے بتایا جا رہا تھا اور اس میں کچھ اہم پردہ نشینوں کے نام آتے تھے اس لیے ملکی عدالتی نظام کے لیے یہ ایک بہت بڑا ٹیسٹ کیس تھا۔ میں دیکھتا چاہتا تھا آخر کس طرح اس کیس میں ماڈل کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ ایک جانب ملک بھر کی عوام اور میڈیا کی نظریں اس کیس پر گڑی ہیں جو انصاف اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب وہ اعلیٰ اشرافیہ ہے جو کسی صورت اپنے کرتوتوں کو بے نقاب نہیں ہونے دے گی۔۔ جلد ہی اس کا جواب مل گیا۔ شروع شروع میں متعلقہ ججز کے بڑے سخت ریمارکس آئے۔ یوں لگا جیسے دنوں میں ہی ملک کو لوٹنے والوں کا تِیا پانچہ کر دیا جائے گا مگر پھر تاریخیں پڑنے لگیں۔۔تاریخ پہ تاریخ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ۔۔۔ہر تاریخ میں محترمہ کیٹ واک کرتے ہوئے آتی اور میڈیا کے کیمروں کی چکاچوند میں عدالت میں داخل ہوتیں۔ پھر ان کے وکیل کی جانب سے کبھی کیس کی تیاری نا ہونے کا بہانہ بنا دیا جاتا تو کبھی وکیل صاحب طبیعت خرابی کے باعث پیش نا ہو پاتے۔ کبھی جج کا تبادلہ ہونے کی وجہ سے کیس کو مؤخر کر دیا جاتا تو کبھی وکیلِ استغاثہ کو کوئی کام پَڑ جاتا۔ یوں تاریخیں پڑتی رہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب عوام کی دلچسپی اس کیس میں نا ہونے کے برابر رہ گئی اور گواہان بھی نا جانے غائب ہوگئے یا کر دیے گئے۔ بہرحال کسی کو اس بات کی فکر نا تھی۔ میڈیا کی خبریں بھی موصوفہ کے پرس سینڈل اور میک اپ تک محدود ہو گئیں اور پھر یہ خبر سننے کو ملی کہ عدالت نے مذکورہ ماڈل کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے اور اگلے ہی دن موصوفہ وکٹری بناتی ملک سے اڑن چھو ہو چکی تھیں۔
جبکہ عوام کا یہ حال تھا۔۔۔ کون سی ماڈل؟
اچھا وہ۔۔۔۔۔ بُرا ہوا، اور بتاؤ وزیراعظم والے کیس کا کیا چل رہا ہے۔۔۔۔۔اب آئیے دوسرے کیس کی طرف جس کا میں ذاتی گواہ بھی ہوں۔۔۔ پنجاب کے محکمہ واٹر مینجمنٹ کے سینکڑوں ملازمین گزشتہ بارہ سال سے کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مسلسل وعدے وعید کے باوجود مستقل نا کیے جانے پر ایک دن انہوں نے سیکرٹری زراعت کے سامنے نعرے لگا دیے کہ ہمیں ہمارا حق دو۔۔۔بس پھر کیا تھا۔ اسے ڈسپلن کی بہت بڑی خلاف ورزی سمجھا گیا اور راتوں رات پنجاب بھر کے سینکڑوں غریب ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ غریب لوگ تھے۔ ان میں سے دو لوگ تو نوکری جانے کے غم سے ہی وفات پا گئے، جس کی خبریں اخباروں میں بھی چھپیں۔ ان ملازمین نے بحال ہونے کے لیے بہت احتجاج کیا مگر ان کی ایک نا سنی گئی۔ بالآخر ہر طرف سے مایوس ہو کر انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اب ان کی قسمت اچھی تھی اور اوپر والے نے ان کے حال پر رحم کیا۔ ان کا کیس جسٹس قاسم علی خان صاحب کے پاس چلا گیا۔ جسٹس صاحب بہت زِیرک اور دانا شخصیت ہیں۔ تمام کیسسز کو دیکھتے ہی معاملے کی تہ تک پہنچ گئے۔ انہوں محکمہ کے حکام کو وقت دیا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے۔جواباً محکمہ زراعت کی جانب سے وہی تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے وقت طلب کیا جانے لگا لیکن جسٹس صاحب نے دو تین تواریخ سے زیادہ وقت دینے سے انکار کر دیا ہفتوں اور مہینوں کا وقت مانگنے پر انہوں نے دنوں اور گھنٹوں کا وقت دیا اور حکم دیا کہ اپنا جواب داخل کرواؤ۔ تاخیری حربے استعمال نہیں ہونے دیے جائیں گے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب حکام کی جانب سے خود تسلیم کیا گیا کہ انہوں نے غلطی کی تھی اور ذاتی عناد پر ملازمین کو نوکریوں سے نکالا تھا۔ آج الحمدللہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور جسٹس قاسم علی خاں صاحب کے بروقت اور تیز ترین انصاف پر دعائیں دے رہے ہیں۔ یہ دونوں کیسز تصویر کے دو مختلف رُخ ہیں اور عدلیہ میں موجود مسائل کے اصلی حل کی جانب توجہ دلا رہے ہیں۔۔ باقی میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ خود فیصلہ کیجیے کہ وہ کیا طریقہ کار ہے جس کو اپنا کر ہمارے ملک کا عدالتی نظام درست ہو سکتا ہے!!!

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”دو عدالتی کیسز اور تصویر کے دو رُخ

  1. بہت اعلٰی ندیم بھائی.
    اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے.
    انصاف کے بغیر کوئی قوم ترقی کی منزلیں نہیں چڑ سکتی.

Leave a Reply to سجاد حسین خان Cancel reply