شعر میں شاعر کی منشا
عمران شاہد بھنڈر
بعض اشیا اور افکار لوگوں کی نظروں کے سامنے طویل عرصہ تک موجود رہتے ہیں، لیکن لوگ کبھی ان کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ان کا اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ پہلی ہی سطح پر جو مفہوم ان کے شعور میں رچ بس چکا ہے وہ درست ہے۔ تاہم جونہی ان اشیا اور افکار کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا تھا، یا ہمارے شعور میں افکار کی تفہیم کا جو معیار قائم تھا وہ درست نہیں تھا۔ یہ مظہر اور اس کی حقیقت یعنی اس کی ماہیت کا فرق ہے کہ جس کے تحت مظہر اپنی ہی ماہیت میں خود سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ یعنی جوہر بیک وقت مظہر سے مختلف اور متماثل ہوتا ہے۔ شعری متن کے جوہر تک پہنچنے کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے ظاہری معنی سے اس کی ان سطحوں تک پہنچا جائے جو اس کی ماہیت کا انکشاف کرتی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی بہت ضروری ہے کہ شعری متن کا پس منظر اس سے باہر نہیں، بلکہ اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ متن کی تشکیل کے دوران داخل اور خارج کی مابعد الطبیعاتی، جامد، یکطرفہ تفریق ختم ہوجاتی ہے۔خارج کو متن سے باہر اس سے الگ دریافت کرنے کی کوشش بری قرأت کا نتیجہ ہوتی ہے۔متن خود اپنا حوالہ ہے، جو موضوعیت اور معروضیت کی جدلیات پر تشکیل پاتا ہے۔ معانی کی سطحوں کو شعری متن کے اندر سے ہی بآسانی شاعر کی منشا کے برعکس دکھایا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک شعر میں یہاں پیش کرنے جارہا ہوں۔بچپن سے آج تک یہ شعر ہمیشہ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں لیکن کبھی اس کی ماہیت پر غور نہیں کیا تھا۔جب اس پر غور کرنا شروع کیا تو شاعر کی منشا کے برعکس اس کے متن کے اندر شگاف اور تضاد منکشف ہونا شروع ہو گیا۔ شعر کچھ یوں ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اس شعر کو پڑھنے کے بعد پہلا خیال یہ ذہن میں آتا ہے کہ انسان اپنی خودی کی اس سطح تک تشکیل کر لے اور اس کا کردار و اخلاق اس درجہ تک بلند ہوجائے کہ خدا کو بندے کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے، لیکن یہ عمل انسان کے اس اخلاق و کردار کی بلندی سے مشروط ہے، مذہب جس کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم جونہی اس شعر کے استعاراتی مفاہیم سے ہٹ کر اس شعر کا منطقی تجزیہ شروع کیا جاتا ہے کہ جس سے اس کی مختلف سطحوں میں مضمر معانی کو منکشف کیا جاسکے تو جوہری سطح پر ایک ایسی صورتحال سامنے آتی ہے جوشعر کے ظاہری مفاہیم سے بالکل مختلف ہے۔
پہلے مصرعے سے ایک مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خودی کی بلندی تقدیر کی تشکیل کی شرط ہے۔سوال بہرحال یہاں پر یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا خودی کی تشکیل تک تقدیر کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا یا کردار و اخلاق کی بلندی پہلے سے طے شدہ تقدیر میں ترمیم کا باعث بن سکتی ہے؟ شعر کی روشنی میں اس کا جواب یہی ہے کہ تقدیر کا مسئلہ اس کردار و اخلاق کی بلندی سے جڑا ہوتا ہے جس کی کسی بھی وقت تشکیل پہلے موجود تقدیر کے قضیے کو التوا میں لے جاسکتی ہے۔ لہذا یہاں پہلے سے طے شدہ معاملات کی لازمی ڈی کنسٹرکشن عمل میں آتی ہے اور جو چیز سب سے اہم قرار پاتی ہے وہ انسان کا کردار اور اخلاق ہے جن کا محرک ،بہرحال، خودی کا تصور ہے۔خودی کی بلندی کا عمل ہی تقدیر کی تشکیل کا عمل بھی ہے۔پہلے مصرعے میں تقدیر سے مراد اعلیٰ تقدیر سے ہے، یعنی خودی کی بلندی انسان کو اس سطح تک لے جائے کہ جہاں کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود اپنا مقدر لکھ سکے، وہ اس مثالی زندگی کا از خود تعین کرنے کی حیثیت رکھتا ہو کہ جو اس کے تخیل میں موجود ہے۔ایک ایسی زندگی کہ جس میں وہ کسی کا محتاج نہ ہو، بلکہ ہر طرح کی احتیاج اس کے اپنے اختیار کے تابع ہوجائے۔اگرچہ دوسرا مصرعہ پہلے مصرعے کی تکمیل توکرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ شعر میں موجود اس تضاد کو بھی نمایاں کرتا ہے جو شعر لکھتے وقت شاعر کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی موجود نہیں تھا۔ پہلے مصرعے میں انسان کو خود اپنے مقدر کا خالق بتایا گیا ہے۔ اس میں ماورائیت کی نفی کا تصور واضح طور پر موجود ہے۔ دوسرے مصرعے میں خدا نے ایک بار پھر خود کو ابھارا ہے۔ یعنی ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘۔ مقدر کی تشکیل کا مسئلہ خدا کی مرضی کے برعکس بندے کی ’رضا‘ کے تابع ہے، کیونکہ خودی کی تشکیل کے بعد انسان اپنے مقدر پر اس لیے غالب آجاتا ہے کہ خدا کی مرضی انسان کی رضا کے تابع ہوتی ہے۔ اس شعر کی تفہیم سے طلحہ عبدالسلام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ’’خودی کو بلند کرنے کا تصور دے کر علامہ اقبال نے تقدیر کی بحث بھی سمیٹ دی، خودی بلند کر لیں تو اپنی تقدیر خود لکھی جا سکتی ہے۔‘‘ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ پہلے مصرعے میں اپنی ہی خواہش کو ڈی کنسٹرکٹ کرنے کے بعد دوسرے ہی مصرعے میں ایک بار پھر اختیار خدا کی طرف سونپ دیا گیا ہے۔اس میں خدا اور بندے کی پیکار نہیں ہے، بلکہ شاعر کے ذہن میں متضاد خیالات کی کشمکش ہے کہ واضح معنی سے ایک بار پھر انحراف کیا گیا ہے۔ یعنی انسان خودی کو بلند تو کر لے لیکن اس کی تقدیر اس سے پوچھ کر خدا نے ہی لکھنی ہے۔ اب بیک وقت یہ دونوں باتیں درست نہیں ہوسکتیں۔ اگر انسان کی خودی بلند ہوگئی اور وہ اس سطح پر چلا گیا کہ جہاں پہلے سے طے شدہ تقدیر کے تصور سے ماورا ہوگیا تو کیا وہ اس بلند شدہ خودی کے ساتھ پھر کسی بھی طرح کی محتاجی کو قبول کر سکے گا؟ اس کا جواب نفی میں ہی دینا ہوگا۔ حبہ چوہدری نے اس شعر کے اندر سے ایک او ر اہم نکتے اور بنیادی تضاد کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر بندہ خودی ہی کو بلند کر گیا تو کیا اس کے بعد بھی گنجائش بچتی ہے کہ رضا پوچھی جائے یا بندے کی خودی اجازت دے گی کہ وہ رضا بتائے؟‘‘بندے کی خودی کبھی اس چیز کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ خود جھک جائے، کیونکہ بندے کی خودی اس لامتناہی خودی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔ایسے میں متناہی کو جھکانا بیک وقت لامتناہی کو جھکانے کے مترادف ہوگا۔جونہی تقدیر کی تشکیل خودی کے تابع ہوگئی تو ماورائیت کی نفی تو اسی وقت ہوجاتی ہے۔ یہ انسان کا اپنا عمل ہے جو اسے اس سطح تک پہنچاتا ہے کہ اس کے اور ’’مطلق خودی‘‘ کے مابین تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ جب انسان ’’مطلق خودی‘‘ میں انضمام کی سطح تک پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی تقدیر کی تشکیل کا عمل کہیں ’الگ‘ سے تشکیل پانا ہے۔ خودی کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہی اس کے بااختیار ہونے کا آغاز بھی ہے۔خودی کی تشکیل کے مختلف درجات اس کے بااختیار بننے کے مختلف درجات بھی ہیں۔ شعر سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پہلے خودی بلند ہوجائے گی پھر خدا بلند ہوئی خودی کے حامل بندے سے پوچھے گا کہ بتا تجھے کیا چاہیے! بلند ہوئی خودی میں خدا خود شامل ہوچکا ہوتا ہے، کیونکہ خودی کی بلندی کا عمل متناہی کی لامتناہی تک رسائی کا عمل ہے، جس کے مختلف درجات ہیں، ہر درجہ متناہی کو باختیار بنانے کا درجہ بھی ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جس کی اس شعر میں تفہیم نہیں ملتی۔ یہاں دونوں کو الگ کر کے دکھایا گیا ہے۔
ذہن نشین یہ رہے کہ کہ اس شعر میں خدا کا اختیار بندے کی رضا کا تابع ہے، یہاں مرکزیت انسان کی قائم ہوتے دکھائی گئی ہے۔ محض اختیار ہی انسان کی رضا کا تابع نہیں ہے، فلسفیانہ مفہوم میں لامتناہی اپنے اختیار کو متناہی کا تابع کر کے خود کو متناہی میں ظاہر کر نا چاہتا ہے۔ بندے کا اپنی مرضی کی تقدیر کی تشکیل کاتقاضا بھی اس کو خدا کا تابع نہیں کرتا۔ شاعر کی منشا اسی ایک نکتے پر خود سے انحراف کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بلاوجہ ایک بار پھر خدا کو اختیار دینے کی خواہش شاعر کی اپنی ہے، یہ شعر کی داخلی منطق کا تقاضا نہیں تھا، بلکہ شاعر کی موضوعیت اور خود سے پیکار کا نتیجہ ہے۔جبکہ خودی کی بلندی کا تقاضا یہ ہے کہ متناہی خودی کسی بھی صورت لامتناہی میں انضمام کے بعد خود کو اس سے الگ تصور کرکے اس کے سامنے اپنی کوئی بھی التجا نہ رکھے۔ متناہی کا لامتناہی میں انضمام متناہی کو بااختیار تسلیم کرنا ہے۔ جب متناہی میں لامتناہی شامل ہوجائے تو پھر اس کو متناہی کی سطح پر دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ دکھانا مابعد الطبیعاتی تضاد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں