• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آئندہ انتخابات میں دھاندلی ’ منظم‘ ہو گی یا ’ غیر منظم‘؟۔۔ آصف محمود

آئندہ انتخابات میں دھاندلی ’ منظم‘ ہو گی یا ’ غیر منظم‘؟۔۔ آصف محمود

انتخابات ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے محض الیکشن کمیشن پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

اسمبلیوں کی مدت تمام ہونے والی ہے اور عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا یہ شفاف ہوں گے ،کیا ایک بار پھر ’ غیر منظم دھاندلی ‘ سے کام لیا جائے گا یا اب کی بار جو واردات ڈالی جائے گی وہ اتنی مرتب ہو گی کہ اسے کوئی ’ غیر منظم ‘ ہونے کا طعنہ بھی نہیں دے سکے گا ؟

اس وقت شفاف انتخابات کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے ۔ لیکن الیکشن کمیشن کی کارکردگی زبان حال اور زبان قال سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے اس سے ایسی کوئی توقع نہ رکھی جائے ۔ الیکشن کمیشن نے ضیاء اللہ آفریدی کے معاملے میں عمران خان کی پیٹیشن رد کرنے کاجو فیصلہ کیا ہے وہ ہم خاک نشینوں کی تو سمجھ سے باہر ہے ۔ ایسے تین چار فیصلے اور آ گئے تو الیکشن کے عمل کا تو سمجھیے آملیٹ بن گیا ۔ یہ فیصلہ عمومی سیاسی فہم و دانش کے لیے تو اجنبی ہے ہی آئین اور قانون کی روشنی میں یہ ایک ناقابل فہم فیصلہ ہے۔

ضیاء اللہ آفریدی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے۔ بعد میں انہوں نے عمران خان اور سراج الحق پر الزام عائد کیے اور عملا تحریک انصاف سے اپنے راستے الگ کر لیے۔یہی نہیں وہ بعد میں سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے ساتھ آصف زرداری سے جا کر ملے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز پر یہ خبرآئی کہ ضیاء اللہ آفریدی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔اس خبر کی ضیاء اللہ آفریدی نے کبھی تردید نہیں کی۔چنانچہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کو لکھا کہ انہیں ’ ڈی سیٹ‘ کر دیا جائے۔الیکشن کمیشن نے عمران کی یہ درخواست ٹھکرا دی ۔یعنی اب پیپلز پارٹی کے ضیاء اللہ آفریدی تحریک انصاف کی سیٹ پر ایم پی اے رہیں گے۔تالیاں۔.

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں آئین بالکل واضح ہے۔آرٹیکل 63 A کی ذیلی دفعہ 1A کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی جماعت سے مستعفی ہو جائے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر لے تو وہ ’ ڈی فیکشن‘ کلاز کی زد میں آ کر نا اہل ہو جائے گا۔یہی نہیں بلکہ اسی آرٹیکل میں اس کا طریقہ کار بھی وضع کر دیا گیا ہے کہ ایسا کچھ ہو تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو لکھے گا اور الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ کر دے گا۔اب ضیاء اللہ آفریدی توپیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ۔عمران خان نے یہ بات الیکشن کمیشن کو لکھ بھیجی۔لیکن فیصلہ ضیاء اللہ آفریدی کے حق میں آ گیا۔الیکشن کمیشن کا احترام لازم ہے کیونکہ اداروں کو بے توقیر کر دینا ایک بیمار سوچ ہے لیکن یہ سوال اٹھانا بھی لازم ہے کہ آئین کے واضح حکم کے باوجود پارٹی چھوڑ جانے والا آدمی ’ ڈی سیٹ‘ ہونے سے کیسے بچ گیا۔اس فیصلے سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک اہم فیصلہ یہ ہے اگر ایک ایسے معاملے میں جہاں آئین دو اور دو چار کی طرح واضح ہے اس طرح کا فیصلہ دیا جا سکتا ہے تو انتخابات کے دوران تو کہیں الجھے ہوئے اور پیچیدہ معاملات بھی الیکشن کمیشن کے سامنے لائے جائیں گے، تب کیا ہو گا؟

ہم اس ملک میں با مقصد اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں تو ہمیں الیکشن کمیشن کے ڈھانچے اور اس کی  ہیئت ترکیبی پر غور کرنا ہو گا۔موجودہ بندوبست ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر ایک فیصلہ کر لیں تو عمران خان اس فیصلے پر صبر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔آرٹیکل 213 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے کرنا ہوتی ہے اور اگر وہاں مک مکا ، معاف کیجیے فیصلہ نہ ہو سکے تب وہ تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے اور وہ کسی ایک نام کو چن لے گی۔اور اگر وہ دونوں مل کر مک مکا ، ایک بار پھر معاف کیجیے ، فیصلہ کر لیں تو بات وہیں ختم۔یعنی ایک بڑی سیاسی جماعت جس کا اس سارے دورانیے میں بنیادی مسئلہ ہی انتخابی دھاندلی کا رہا اس سارے عمل میں محض ایک تماشائی ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نیب کا چیئر مین بھی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے بنانا ہوتا ہے۔اس بندوبست کو بدلنا ہو گا ۔اداروں کے سربراہ اداروں کے اندر سے بننے چاہییں اور ایک فطری طریقے سے بننے چاہییں۔جیسے عدلیہ میں سے چیف جسٹس بنانے کے عمل میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کا کوئی کردار نہیں ایسے ہی نیب اور الیکشن کمیشن کا سربراہ ادارے کے اندر سے معمول کے مطابق بن جانا چاہیے۔اس میں اہل سیاست کی کوئی صوابدید نہیں ہونی چاہیے۔

انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی اہلیت کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔آرٹیکل 62کے تحت جب چھانٹی ہو گی تو پھر سوالات اٹھیں گے۔ان سوالات کا جواب ابھی سے کیوں نہیں ڈھونڈ لیا جاتا ۔آرٹیکل 62 میں امیدوار کی اہلیت کے لیے چند خوبیوں کو لازم قرار دیا گیا ہے مثلا،اس کا sagacious, righteous, non profligate honest اور امین ہونا۔اب ہر ریٹرننگ افسر ان لفظوں کا اپنے انداز سے لے گا۔سوال یہ ہے کہ ان اصطلاحات کی واضح تشریح کیوں نہیں کر دی جاتی۔قانون میں کوئی چیز مبہم نہیں ہوتی۔آپ تعزیرات پاکستان دیکھیے اس کی دفعہ 10، دفعہ 45 اور دفعہ 46میں مرد ، عورت حتی کہ موت اور زندگی تک کی واضح تعریف کر دی گئی ہے کہ ان کا مطلب کیا ہو گا۔حالانکہ یہ عام فہم لفظ ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ مرد کون ہوتا ہے اور عورت کسے کہتے ہیں یا موت کیا ہوتی ہے اور زندگی کس چیز کا نام ہے۔سب کو معلوم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی وضاحت کر دی گئی ہے۔تو یہاں انتخابی اہلیت کا ایک معیار آپ مقرر کر رہے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ان اصطلاحات کی الیکشن کمیشن ایک معین تشریح اور تعریف کر دے تا کہ ریٹرننگ افسران کسی کو اس معیار پر پرکھنا چاہیں تو خود انہیں معلوم تو ہو کہ کسی امیدوار کو جس معیار پر پرکھنا ہے وہ معیار ہے کیا اور امیدوار بھی جانتا ہو کہ اس میں کیا خوبیاں ہونا ضروری ہیں۔کیا کسی کے پاس اس سوال کو کوئی جواب ہے کہ امیدوار کی اہلیت کے بنیادی قانون میں اتنا ابہام کیوں ہے؟

انتخابات دستک دے رہے ہیں اور ان کے ہمراہ گزشتہ انتخابات سے جنم لینے والا آزار بھی ہے۔اس سارے دورانیے میں غازیانِ گفتار نے کشتوں کے پشتے لگا دیے لیکن انتخابی نظام میں ڈھنگ کی کوئی ایک اصلاح کی گئی ہو تو بتائیے۔کمیٹیاں بن گئیں اور اجلاس پر اجلاس ہوتے رہے لیکن یہ ساری تگ و دو دائروں کا سفر ثابت ہوئی اورپارلیمان کوئی ایسا ٹھوس کام نہ کر سکے جو انتخابی عمل سے وابستہ شکوک کو دور کر کے اسے عوام الناس کی نظر میں معتبر بناتی۔موجودہ بندوبست کی قباحتیں، سچ یہ ہے ، حکمران طبقے کی قوت ہیں۔وہ کیوں چاہے گا کہ کچھ ڈھنگ کی اصلاحات ہو جائیں اور وہ اس قوت سے محروم ہو جائے۔المیہ یہ ہے کہ عمران خان بھی اس معاملے پر کوئی خاص توجہ نہ دے سکے۔سڑکوں پراحتجاج کر کے انہوں نے حساسیت تو پیدا کر دی لیکن پارلیمان کے اندر جہاں قوانین بننے اور بدلنے تھے ان کی دلچسپی واجبی سے بھی کم درجے کی رہی۔انتخابی نظام آج بھی اتنا ہی فرسودہ ہے جتنا گزشتہ انتخابات میں تھا اور آج بھی اس کی شفافیت پر اتنے ہی سوالات ہیں جتنے گزشتہ انتخابات میں تھے۔انتخابی نظام میں کسی معنوی اصلاح کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں تو وہ تمام قباحتیں ایک بار پھر جنم لیں گی جنہوں نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کیے رکھا۔ابھی بھی وقت ہے اس عمل میں معنویت پیدا کرنا ہے تو کچھ اقدامات ناگزیر ہیں ۔بصورت دیگر دھاندلی ’’ غیر منظم ‘‘ ہو یا ’’ منظم‘‘ ہو اس کا حاصل ایک شدید بحران کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکرر عرض ہے کہ انتخابات ایک سنجیدہ عمل ہے اور اسے محض الیکشن کمیشن پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply