بنام چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار۔۔۔ انعام رانا

عزت ماب، چیف جسٹس آف پاکستان
جناب میاں ثاقب نثار،
اسلام و علیکم
سر میرا نام انعام رانا ہے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ میں پاکستان کی جیورسڈکشن کے علاوہ سپریم کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز کا وکیل ہوں اور لندن میں ایک لا فرم کا پرنسپل ہوں۔ اس کے علاوہ پاکستانی سماج میں شعور، آگہی، برداشت اور مُکالمہ کی روایات کو پروان چڑھانے کیلئیے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ویب سائیٹ چلاتا ہوں اور “مُکالمہ” کا چیف ایڈیٹر ہوں۔
جناب چیف جسٹس، اگرچہ بطور وکیل میں آگاہ ہوں کہ مجھے یہ خط/پٹیشن بذریعہ آفیشل چینل پیش کرنی چاہیے لیکن ایک تو میں بہت دور ہوں اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے پاکستان آنے سے قاصر ہوں، دوسرا مجھے اندازہ ہوا ہے کہ جناب سوشل میڈیا میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس پہ نظر بھی۔ اس لئیے شاید سوشل میڈیا پہ چھپا یہ خط آفیشل پٹیشن سے زیادہ آپکی توجہ کا باعث بنے۔ کل جیسے جناب عالی نے میرے دوست وحید مراد کو عدالت میں یاد کیا اور معاصر سائیٹ “pakistan24” سے اپنی شناسائی کا اظہار کیا، میں بھائی وحید مراد سے گزارش کروں گا کہ یہ خط آپ تک پہنچانے کا وسیلہ بنیں۔
جناب چیف جسٹس میں ذاتی طور پر سوموٹو نوٹسز کے زیادہ استعمال کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ امور، بالخصوص انتظامی امور میں بے جا مداخلت کا باعث بن کر انتظامیہ کو کاہل اور کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسرا یہ ججز کو “میڈیا سینسٹو” بنانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ (جسٹس افتخار چوہدری کے اندھادھند سوموٹو نوٹسز اور انکے نتائج اسکی دلیل ہیں)۔ اسکے باوجود آج میں مجبور ہوں کہ آپکی توجہ ایک اہم مسلئے کی جانب دلا کر آپ سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کروں۔
جناب چیف جسٹس، اپریل دو ہزار سترہ میں مشعال خان کو بلاسفیمی کا الزام لگا کر انتہائی بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ ہر صاحب دل کی مانند آپ بھی اس پہ تڑپ اٹھے ہوں گے۔ خوش آئند ہے کہ ایک سال کے اندر اندر ڈسٹرک جج نے اس مقدمے کا فیصلہ کیا اور کم از کم ایک مجرم کو سزائے موت دی۔ افسوس کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت دو مرکزی ملزمان کو پکڑنے میں ناکام رہی اور کمزور پروسیکیوشن کی وجہ سے چھبیس ملزمان رہا کر دئیے گئے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پراسیکیوشن مضبوط ہوتی تو عدالت ضرور انکی اکثریت کو بھی سزا دیتی۔
جناب چیف جسٹس یہ مقدمہ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم مقدمات میں سے تھا۔ کیونکہ ایک تعلیم گاہ میں تعلیم یافتہ نوجوان یکدم درندوں میں بدل گئے اور ایک جیتے جاگتے انسان کو یوں مارا جیسے جانور کو مارنے کی بھی ہمارا مذہب اور انسانیت اجازت نہیں دیتے۔ اس مقدمے میں ملزم فقط گولی مارنے والا ہی نا تھا، اسکو ننگا کرنے، اسکی لاش پر کودنے اور بنچ توڑنے والے ہی نا تھے، بلکہ ہر وہ انسان جو نعرے مارتا رہا، حتی کہ وہاں خاموش تماشائی بنا رہا، وڈیو بناتا رہا، اس جرم میں شریک تھا۔ یقینا سب کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی لیکن سب ہی سخت سزا کے مستحق تھے۔ اس لئیے کہ یہ مقدمہ اس سوچ کو شکست دینے کیلئیے تھا جو مدارس اور یونیورسٹی میں یکساں طور پر حیوانیت اور تشدد پیدا کر رہی ہے۔ اس مقدمے میں سخت سزائیں ہر ممکنہ مجرم کے سامنے اک مثال بن کر آئندہ مشعال خانوں کی حفاظت کرتیں، اور انصاف کا کٹہرہ فقط جناب کی عدالت میں ہی رہتا، چوک چوراہوں پہ نصب نا ہوتا۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسا نا ہوا اور فقط پانچ چھ ملزمان ہی سخت سزا پا سکے۔
جناب چیف جسٹس، سب سے زیادہ تشویشناک اور قابل مذمت پرسوں رات رہا ہونے والے ملزمان کا وہ استقبال ہے جس نے بطور پاکستانی، وکیل اور انسان میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ جماعت اسلامی مردان کے امیر عطا الرحمان نے، باقاعدہ اعلان کر کے “رہا ہونے والے غازیان” کے استقبال کی کال دی، جماعت اسلامی مردان کے آفیشل پیج سے مشعال کو دوبارہ توہین رسالت کا مجرم قرار دیا گیا، گو یہ سب سوشل میڈیا پر سخت احتجاج کے بعد ہٹا لیا گیا مگر اب بھی اسکے سکرین شاٹ موجود ہیں جو عزت ماب عدالت کے سامنے آسانی سے میسر ہو سکتے ہیں۔
جناب چیف جسٹس، امیر جماعت اسلامی مردان کی کال پر ہوے اس “استقبال” میں دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ سٹیج پر “غازیان” نے تقاریر کیں۔ میں آپکی توجہ بطور خاص ایک ملزم/رہا شدہ غازی، عباس اعوان کی تقریر کی جانب دلاتا ہوں جسکی وڈیو موجود ہے۔ امیر جماعت اسلامی مردان کے ساتھ کھڑے ہو کر ہار پہنے اس ملزم، جو عدالت میں مسلسل اپنی بے گناہی ثابت کرتا رہا، نے کہا
“میرا نام عباس اعوان ہے اور آج جیل سے چھوٹا ہُوں. انشاءاللہ اگر ⁧‫مشال‬⁩ مُردار لوگوں کو یاد ہوگا تو کوئی گستاخی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا. عمران علی بھی خوش تھا اور اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا، دُوسرا شہزاد باچا ہے ، اس کے بھی یہی الفاظ ہیں ۔”
جناب چیف جسٹس، عدالت سے “بے گناہ” ہو کر رہا کئیے گئے اس ملزم کا یہ عوامی اقبالیہ بیان ہمارے نظام انصاف، ہمارے سماج، میرے اور آپکے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔ ایک شخص نے ثابت کیا کہ یہ نظام، میں اور آپ (بطور آفیسر آف کورٹ اینڈ آنرایبل جج) اس قدر بے بس ہیں کہ مجرم بے گناہ رہا ہو کر سرعام اقرار کرتا ہے کہ جرم اس نے کیا اور عدالت اسکا کچھ بھی نا بگاڑ سکی۔
جناب چیف جسٹس، آپ نے خود کو بابا رحمت قرار دے کر بہت بڑی ذمہ داری مول لے لی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تاریخ آپکو سیاستدان نا اہل کرنے، توہین عدالت کی سزا دینے یا کسی اور چیز کیلئیے یاد رکھے گی یا نہیں۔ ہاں مجھے یہ یقین البتہ ضرور ہے کہ جس “سوچ” نے مشعال کیس میں آپکو اور اس پورے سماج کو چیلنج کیا ہے، اگر آپ اسے شکست دے پائے، سزا دے پائے تو پاکستان کی عدالتی ہی نہیں، سماجی تاریخ میں بھی ہمیشہ ایک روشن مینار بن کر ایستادہ رہیں گے۔ شاید ایک مکروہ سوچ کو سزا دینے کی کوشش میں آپ متنازعہ ہوں، اس سوچ کے بدکردار پیروکاروں کی نفرت کا نشانہ بنیں، مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی ہر ماں کی کوکھ اور باپ کا اونچا سر آپکا ممنون رہے گا۔ میری درخواست ہے کہ فوری نوٹس لے کر ایسے آڈرز پاس کیجئیے جو اس کیس اور پرسوں رات کی شرمناک حرکت میں ملوث لوگوں کو عبرت کا باعث بنا دیں۔
آپکی عدالت اور انصاف کیلئیے دعاگو وکیل
انعام رانا

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply