متبادل مذہبی بیانیہ۔۔رواداری!

شاگرد : وزیر اعظم نے علمائے کرام سے متبادل مذہبی بیانیہ کی اپیل کر کے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
استاد : کیا کہا جا رہا ہے انہیں ؟انہوں نے کچھ ایسا غلط تو نہیں کہا ۔
شاگرد : کہا جا رہا ہے سیاستدان خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے مذہب کو تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔
استاد : اس میں مذہب میں تبدیلی کی بات تو نہیں صرف رائج بیانیہ کو بدلنےکے لیئے کی گئی ہے ۔
شاگرد : متبادل بیانیہ سے انکی کیا مراد ہے؟
استاد : کچھ ایسا نہیں کہ جس پر کسی کو تشویش میں مبتلا ہونا پڑے وہ شاید یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مذہب کی جو من چاہی تعبیر و تشریح کی جا رہی ہے فروعی مسائل پر جس انداز میں فرقہ بندی کی گئی ہے، جس طرح ہر مسلک دوسرے مسلک پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے، اس سلسلے کو ختم کیا جائے اور متبادل بیانیہ سے اسکے سوا کیا مراد لی جا سکتی ہے کہ دین کی اصل روح کی جانب حقیقی تعبیر و تشریح کی جانب لوٹا جائے!
شاگرد : مسلکوں کے درمیان فروعی اختلافات تو ہمیشہ سے ہیں اور شاید رہیں گے ۔
استاد : فروعی مسائل پر اختلافات کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک پُرامن اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم کیا جا سکتا ہے جہاں اختلافات پر مکالمے ہو سکتے ہیں مباحثے ہو سکتے ہیں علمی فکر جستجو اور تحقیق کی ہزار راہیں کھولی جا سکتی ہیں ضروری تو نہیں کہ ہر اختلاف پر ایک فریق دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا دے اور دہشت گردوں کیلئے ایک کے بعد ایک جواز مہیا کرتا چلا جائے ۔
شاگرد : مگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت تو ہر مسلک ہی کرتا ہے ۔
استاد : شاید اسی کو سمجھنے اور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے اور ممکن ہے کہ وزیر اعظم کا نقطہ نظر بھی یہی رہا ہو ۔ سیموئیل ہینگٹن نے جب تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا اور مذاہب کے تصادم سے پیدا ہونے والے خطرات سے ایک نئے عالمی سماج کی تشکیل کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تھی تو خود امریکہ میں اس نظریہ کو شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور امریکی تھنک ٹینک نے بھی اس نظریہ کو مسترد کر دیا تھا اس وقت کے صدرامریکہ باراک اوبامہ نے بڑے واضع الفاظ میں کہا تھا کہ یہ تہذیبوں یا مذہبوں کا تصادم نہیں، انہوں نے طالبان القاعدہ یا داعش کو مذہب اسلام کی ترجمانی کرنے والی تنظیم ماننے سے انکار کردیا تھا، جس شدت کے ساتھ اقوام عالم دہشتگردی میں ملوث تنظیموں اور جتھوں کو اسلام سے الگ کر رہی ہیں کیا اس کے مقابلے میں ہماری مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں نے کبھی اس ضرورت کو محسوس کیا ہے ؟ کیا فی الواقع وہ مذمت ہمارے مذہبی رہنماؤں کی جانب سے علمائے اکرام کی جانب سے کبھی سامنے آئی ہے جو دہشت گردوں انتہا پسندوں اور اسلام کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دے ؟
شاگرد : ہاں ایسا تو بہرحال نہیں ہوا اور دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ عوامی اجتماعات ، اسپیکرز اور میڈیا پر تو دہشت گردوں کی مذمت کی گئی مگر بند کمروں میں انہیں مجاہدین قرار دے کر ان کے لیئے دعائیں کی گئیں ۔
استاد : یہی وہ صورتحال ہے جس سے انتہا پسند عناصر کو ایک نہایت زہریلی سوچ کا فیڈ بیک ملتا ہے، یہی وہ بیانیہ ہے جسے بدلے بنا ایک قدم آگے بڑھانا بھی دشوار ہے ۔
شاگرد : کیا محض علمائے کرام یا مذہبی رہنماؤں کی کوششوں سے یہ ممکن ہو سکے گا ؟
استاد : نہیں وزیراعظم کو کچھ اور ہمت دکھانا ہوگی، آج انہوں نے علمائے کرام سے جرات اظہار کرتے ہوئے متبادل مذہبی بیانیہ کی بات کی ہے تو کل انہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہنا ہوگا کہ وہ قومی سلامتی کا کوئی متبادل بیانیہ پیش کریں ۔ ایک مستقل اور ہمیشہ رہنے والے نادیدہ دشمن کے خطرات پر مبنی قومی سلامتی کی پالیسی نے جس فسطائیت کو جنم دیا ہے اسکے اثرات نے پورے سماجی ڈھانچے کو عدم توازن کا شکار کردیا ہے دشمن حقیقی ہے یا غیر حقیقی اسکی جانب سے لاحق خطرات کے اندیشوں پر اگر قومی پالیسیاں بنائی جائیں گی تو سفر کبھی آگے کی سمت نہیں ہوگا ۔
شاگرد : ایک متبادل مذہبی بیانیہ کیا ہوگا؟
استاد : وہی جو مذہب کی اصل روح ہے ، اصل روشن اور اجلا چہرہ ہے ۔ بین المسالک ہم آہنگی ، فروعی مسائل پر اہل علم کے درمیان گفتگو، مذہبی رواداری اس بیانیہ کی ترویج کے بنا معاشی ، سیاسی اور سماجی نا ہمواریوں کا خاتمہ بھی ممکن نہیں، مذہبی رواداری پر مبنی سماج ہی نسل پرستی اور لسانی تعصب پر مبنی سوچ کا خاتمہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔
شاگرد : اختلافی مسائل پر کفر کے فتویٰ آنے کیونکر بند ہونگے؟
استاد : جب بین المسالک رواداری اور بین المذاہب رواداری کا فروغ ہوگا تو اختلافی مسائل کو اہل علم کے درمیان مکالمہ کی صورت مقید کیا جائے گا، اختلاف علما کے درمیان کبھی فساد پیدا نہیں کرے گا، فساد اس وقت جنم لیتا ہے جب اختلاف عوام کے درمیان رسہ کشی کی نیت سے رکھ دیا جاتا ہے، صرف یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ تہذیبوں اور مذہبوں کے درمیان اختلاف کو تصادم سے نہیں مکالمہ سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply