سیاہ حاشیہ ۔۔رفعت علوی

 میاں ! مجھے اپنی ممانی سے پیار ہوگیا تھا!!

جی؟۔۔۔ میں ہکا بکا تاج صاحب کی شکل دیکھنے لگا !۔۔۔جی ہاں! وہ نہایت سنجیدگی سے بولے ۔۔

تاج صاحب ایک بہت بڑے انٹرنیشل بینک میں بہت اعلی عہدے پر فائز رہ چکے تھے،ہم پہلی بار ہانگ کانگ میں ملے، وہ ہمارے ایک کزن نمو بھائی کے بہت چہیتے باس تھے، میں اپنی فیملی کے ساتھ سنگاپور، بینکاک اور ملائشیا کا تفریحی دورہ کرتے ہوئے ہانگ کانگ پہنچا تھا، نمو بھائی نے مجھے ان سے ملوایا اور میں نے ان کی جتنی تعریفیں سنیں تھیں ان کو اس سے بڑھ کر پایا، ایسی منکسر مزاجی کہ کسی کو یقین نہ آئے کہ ایک نئے آدمی کو بینک میں ان سے ملاقات کے لئے چھ سیکریٹریز کے انٹرویو سے گزرنا پڑتا ہے، اس عمر میں بھی تاج صاحب کی وجاہت اور باڈی موومنٹس سے لگتا تھا کہ وہ اپنی جوانی میں بہت اسمارٹ رہے ہوں گے، دراز قد، چوڑی پیشانی،ذرا دبتا ہوا گندمی رنگ، سفید بالوں کی ایک جھولتی لٹ ہر وقت ان کی پیشانی کو سجدہ کرتی رہتی، جس پر بچپن کی کسی چوٹ کا نشان تھا. ان کا وسیع و عریض شفاف شیشے کا آفس نہایت نفاست اور خوبصورتی سے سجا تھا، دیواروں پر نہایت دیدہ زیب پینٹنگ آویزاں تھیں ۔۔شاید صادقین یا گل جی کے بیش قیمت شاہکار تھے، مگر بعد میں یہ جان کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان نایاب پینٹنگ کے خالق خود تاج صاحب تھے، بہت عرصے بعد جب ان کے بینک پر عالمی عتاب آیا اور بینک بند ہوگیا تو نمو بھائی اور تاج صاحب کو بھی واپس پاکستان لوٹنا پڑا، میں جب بھی چھٹیوں میں پاکستان جاتا تاج صاحب سے ملاقات ضرور ہوتی ،اب ہم میں کچھ کچھ بےتکلفی اور دوستی بھی ہوگئی تھی، میں انھیں اشعار سناتا، اپنی ڈیبیٹس، افسانہ نگاری اور کوئز کمپیٹیشن کے حالات نمک مرچ لگا کرسناتا، وہ بہت انہماک سے سنتے اور اپنی رائے دیتے، نمو بھائی کے انتقال کے بعد تو ہماری دوستی کا رشتہ اور پکا ہوگیا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں عید تھی یا بقر عید، میں پاکستان میں تھا کہ ایک روز تاج صاحب کا فون آیا، ڈنر پر بلا رہے تھے، میں نے کہا کھانے کی زحمت نہ کریں میں تو خود ہی آرہا ہوں عید ملنے! اس وقت تک ان کی بیگم کے انتقال کو چار پانچ برس گذر چکے تھے، کھانے کے بعد وہ مجھے اپنے “نگار خانے” میں لے گئے۔ دوستی کے اتنے طویل عرصے میں  یہ پہلی بار ہوا تھا کہ انھوں نے مجھے اپنے نگار خانے کی زیارت کروائی۔۔۔

میں ان کا سٹوڈیو دیکھ کر دنگ رہ گیا،  سٹوڈیو کیا تھا ایک دنیائے عجائب تھی، بڑے بڑے کمرشل آرٹسٹ ان سہولیات کو ترستے ہوں گے جو وہاں کب سے پڑی دھول کھا رہی تھیں، کچھ ادھوری پینٹنگز کچھ مکمل شاہکار ادھر ادُھر بکھرے پڑے تھے، تین چار ایزل پر تصویریں ایک دوسرے کے روبرو کھڑی سرگوشیاں کر رہی تھیں۔۔

چلتے چلتے وہ ایک ایزل کے سامنے رکے، اس ایزل پر رکھی ایک مکمل تصویر، ایک کلاسک چہرہ، کالے بارڈر کے گھیرے میں قید ایک شوخ لڑکی، چہرے پہ شرارت بھری مسکان، کلی کی طرح کھلتے سرخ ہونٹوں سے جھانکتے سفید دانت، چڑھتی عمر میں بھولپن کا امتزاج اور زلفیں ایسی کہ جس کے بھی شانے پہ پریشان  ہوں وہ خوش نصیب ٹھہرے ۔۔

یہ خوش جمال خاتون کون ہیں تاج بھائی؟ ۔۔میں نے تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا میری ممانی “کومل” کی تصویر ہے، وہ بے خیالی میں بولے ،

میاں! مجھے اپنی ممانی سے پیار ہوگیا تھا!!

جی؟۔۔۔۔ میں ہکا بکا تاج صاحب کی شکل دیکھنے لگا!

ہاں، وہ زیرلب بولے ۔۔۔”مشتاق میرا سگا ماموں ہے” 

وہ میرے جملے پر مسکرائے ۔۔۔بالکل میرا ہم عمر، صرف تین ماہ بڑا ہے مجھ سے، بچپن میں میری امی نے بہت کہا کہ مشتاق کو مشتاق ماموں کہا کرو مگر مجھے تو ایسا سوچ کر ہی ہنسی آتی تھی، ہم دونوں ایک ساتھ کھیل کود کر لڑ بھڑ کر اور پڑھ لکھ کر جوان ہوئے، نہ میں نے اسے کبھی ماموں کہا اور نہ اس نے مجھے بھانجا سمجھا، ہم ایک دوسرے کے رازدار دوست تھے، پڑھنے لکھنے میں بھی ہم دونوں مناسب حد تک ٹھیک تھے، مجھے پینٹنگ کا خبط تھا اور اسے امریکہ جانے کی دھن، پھر ہم دونوں کے درمیان “کومل” آگئی امی کے کسی خالہ زاد بھائی یا بہن کی بیٹی۔ مشتاق اس کو بہت پسند کرتا تھا، اچھی تو وہ مجھے بھی بہت لگتی تھی خاص طور اس کی وہ ادا جب وہ گردن کو  ذرا ایک طرف جھکا کر بڑوں کو  سلام کرتی تو مجھے جوش کا وہ شعر یاد آجاتا “گردن کے لوچ میں خم چوگاں لیے ہوئے” مگر جانے کیا بات تھی وہ ہر وقت مجھے تنگ کرنے کے بہانے تلاش کیا کرتی، ناطقہ بند کر رکھا تھا اس نے میرا، میرے پینٹنگ کے سامان کی تو دشمن تھی ڈھونڈھ ڈھونڈ کر ایسی ترکیبیں نکالتی کہ مجھے گھر میں ڈانٹ پڑ جاتی، اسی وجہ سے میرے دل میں اس کی طرف سے ایک ہلکہ سا کینہ بھی تھا، سوچتا تھا کہ اب کی بار  آئی تو اس کو لفٹ نہیں دوں گا، مگر ادھر اس کی شکل دکھائی دی ادھر میرا سارا غصہ غائب، اور جس روز وہ نہیں آتی تھی مجھے اس کا انتظار رہتاتھا۔۔۔ عجیب بات تھی نا!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشبو کی ایک لپٹ آئی اور اس کے آنے کی مہک اس سے پہلے ہی گھر میں پھیل گئی۔۔۔ یہ کومل تھی، وہ سیدھی میرے کمرے میں آئی یہ تمھارا منہ کیوں سوجا ہوا ہے آج؟۔۔۔ اس نے حسب معمول چھیڑ خانی شروع کردی ،حالانکہ میرا منہ بالکل بھی سوجا ہوا نہیں تھا ، مگر میں چپ رہا کیا، ہوا کیا بھڑ نے کاٹ لیا ہے؟، بولتے کیوں نہیں؟ جنگلی بلی نے پنجے مارے ہیں، میں نے جل کر کہا چچ چچ،۔۔تو بلیوں سے چھیڑ چھاڑ کیوں کرتے ہو بلا وجہ اس گرمی میں۔۔۔

اس نے اپنے دوپٹے کے آنچل سے میرے چہرے پر جھوٹ موٹ ہوا جھلتے ہوئے کہا۔۔۔۔ بلیاں خود آتی ہیں میرے پاس اپنے تیز ناخن لےکر ،میں نے اس کے بڑھے ہوئے کیوٹکس سے سرخ ناخنوں کی طرف اشارا کیا۔۔

بس تو پھر مجھ سے بچ کر ہی رہنا۔۔۔۔ سرتاج من عزیز!! اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا !

میرا نام تاج ہے۔۔ میں نے بھنا کے کہا!

معلوم ہے، مگر بنو گے تو کسی کے سرتاج !

افوہ! یہ لڑکی ہے یا وکیل ، ہر وقت بک بک، کچھ اور کام نہیں ہے تمہیں، جاؤ یہاں سے مجھے پڑھنے دو، کل بینک کی جاب کے لئے ٹیسٹ ہے!

اوہو، جناب سمجھ رہے ہیں میں ان کے پاس آئی ہوں، مجھے تو آپ کے مشتاق ماموں کی تلاش ہے۔

کیوں مشتاق کیوں؟۔۔۔ میں چوکنا ہوگیا ،پکچر کی شرط ہارا ہے وہ مجھ سے، تم بھی چلو پکچر دیکھنے ہمارے ساتھ!!

مجھے کوئی شوق نہیں، میں نہیں جا رہا، میں نے اوپری دل سے کہا جبکہ اس کی رفاقت مجھے بہت پسند تھی ،نہیں جانا ہے تو مت جاؤ، مجھے بھی کارٹونوں کے ساتھ جانے میں مزا نہیں آتا!۔۔۔( اب یہ اس کی زیادتی تھی میں بالکل کارٹون جیسا نہ تھا بلکہ یونیورسٹی میں اکثر لڑکیاں مجھے گلفام کہتی تھیں) میں منہ بسور کر رہ گیا اور وہ اونچی ایڑیوں والی سینڈل سے فرش پر کھٹ کھٹ کرتی امی کے پاس چلی گئی ۔

خود سر اور سرکش لڑکی، اسکی شوخی ، اس کا الہڑر پن ، جواب در جواب، حاضر جوابی یہ سب پسند تھا مجھے”ایسی لڑکی کے قدموں پہ دل رکھنا بھی اچھا لگتا ہے” میں اپنے آپ سے کہتا، مگر وہ مشتاق جو اس کو پسند کرتا ہے اور مجھے بتا بھی چکا ہے  کہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے، اس کا کیا ہوگا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ شام ۔۔۔۔ بھئی ہلو مت، نہیں تو تمھاری ناک ہاتھی کے سونڈ جیسی بنا دوں گا، وہ کچھ دیر کے لئے ساکت بیٹھ گئی ۔ذرا ہی دیر میں اس نے پھر پہلو بدلا! میں تمھاری تصویر نہیں بنا سکتا، میں نے جھنجھلا کر کہا۔

 ارے کیا میں اس کمبخت مکھی کو بھی نہ اڑاؤں جو بار بار ناک پر بیٹھ رہی ہے نک چڑھے آدمی۔۔

مجھےہنسی آگئی ۔۔وہ آج میرا سبجیکٹ تھی، روز کہتی تھی میری بھی تصویر بناؤ مگر میں ٹال جاتا تھا کیونکہ مجھے پتا تھا اس میں صبر نہیں ہے، وہ نچلا تو بیٹھ ہی نہیں سکتی ،جب کہ ماڈلنگ کے لئے کئی کئی گھنٹے ایک ہی رخ اور ایک ہی پوز میں بیٹھنا پڑتا ہے !بہر حال جوں توں کرکے اس کی تصویر مکمل ہوئی۔ یہ ایک واٹر کلر پینٹنگ تھی جس میں مولسری کے پھولوں کے بیک ڈراپ میں زلفیں بکھرائے ایک شوخ حسینہ مسکرا رہی تھی، تصویر مکمل ہوئی تو اس نے ناقدانہ انداز میں اس کا جائزہ لیا اور حسب سابق  اعتراض جڑنے لگی، یہ میری ہنسی ہے یا پوری بیتیسی دکھائی گئی ہے۔

تم ایسے ہی ہنس رہیں تھیں ۔۔ میں چیں بہ  جبیں  ہو کر بولا۔۔۔۔

ہرگز نہیں، اور یہ میرے بالوں کا کیا کیا ہے تم نے؟، بال بنائے ہیں یا جھاڑو کی تیلیاں، جھاڑ جھنکاڑ بنا ڈالا !

میں نے غور سے ایزل کی طرف دیکھا اچھی بھلی تو زلفیں بنی تھیں ان پر ڈوبتے سورج کےعکس نےسونا بکھیردیا تھا۔۔

اور یہ دیکھو بیک ڈراپ میں مولسری کے پھول بالکل اجڑے پڑے ہیں سیاہ، مرجھائے ہوئے، انھیں تو سفید رکھنا تھا میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں شرارت پھوٹی پڑ رہی تھی، پھول تو سفید ہی تھے، میں نے آہستہ سے کہا مگر تمھارے حسن سے جل بھن کر سیاہ ہوگئے ہیں، اور اس کا چہرہ لال ہوگیا

۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذرا  سنیں تو باگڑ بلے صاحب۔۔ ایک روز وہ صبح صبح ہی نازل ہوگئی! ایک تو اس کو میرے نت نئے نام رکھنے کا بڑا شوق تھا، جتنا میں چڑتا اتنا ہی وہ نئے نئے نام تلاش کر کے لاتی۔۔۔ تاج ہے میرا نام، میں نے غرا کے کہا ،

معلوم ہے سرتاج، کسی بد نصیب کے سر کے تاج !۔۔۔

کیوں آئی ہو؟ جاؤ یہاں سے وہ مشتاق تمھارا انتظار کر رہا ہوگا !

ہائے کیا یاد دلادیا،” وہ ہیں مشتاق یہ ہیں بیزار، الہی یہ ماجرا کیا ہے” وہ اٹھلا کر بولی۔۔۔۔ اس وقت تک اس کی منگنی ہو چکی تھی مشتاق کے ساتھ اور اس کی میرے ساتھ یہ بےتکلفی خود اس کے لئے الجھن کا سبب بھی بن سکتی تھی، میری وہ تصویر کہاں ہے؟ کون سی تصویر؟۔۔۔ وہی جس میں میری بتتسی باہر نکلی ہوئی ہے، وہ ہاتھی کے سونڈ والی۔۔ مجھے ہنسی آگئی ۔۔

کوئی نہیں، اچھی خاصی تو بنائی ہے تم نے، مجھے دے دو ، وہ پوٹریٹ، وہ کچھ سنجیدہ ہو کر بولی!

وہ تو میں نمائش میں رکھ رہا ہوں!

ہائے اللہ!!! نہیں، خالہ امی تو مجھے مار ہی ڈالیں گی، کیوں امی کا نام کیوں لے رہی ہو مشتاق کی فکر نہیں نہ، مشتاق کون ہوتا ہے اعتراض کرنے والا ،مگر میں تمھاری امی کی ہونے والی بھابھی  ہوں، یہ مشتاق کا بچہ نہ جانے کہاں سے بیچ میں آگیا، بڑا آیا میرا ماموں ٹامو، میں نے غصے میں سوچا ،پتا نہیں نانا نانی کو بڑھاپے میں اولاد پیدا کرنے کا کیا شوق ہوا تھا، میں نے اپنے دل میں کہا، اور یہی بات میری زبان پر آگئی توبہ ہے!!!

اسے ہنسی آگئی اور وہ ہنستے ہنستے دوہری ہوگئی۔۔۔ تمھارے نانا اور نانی کا کیا قصور اس میں ، جس کو دنیا میں آنا ہوتا ہے، وہ آکر رہتا ہے، اولاد تو اللہ کی نعمت ہے۔

اچھا اچھا اب زیادہ بقراطیت مت جھاڑو اور جاؤ، میں نے چڑ کر کہا ۔

جا رہی ہوں، مجھے کون سا شوق ہے تمھارے پاس بیٹھنے کا، وہ تنتنا کر اٹھی اور دروازے پر  ذرا دیر کو ٹھہر گئی۔۔۔ اور بولی میری ایک بات سن لو بدھو میاں!

بولو! میں نے نرم لہجے میں کہا۔۔ میں چاہتا تھا وہ نہ جائے، کچھ دیر ٹھہرے میرے پاس ،اس لئے بدھو کے نئے خطاب کو بھی میں نے نظرانداز کردیا!

وہ چپ چاپ کھڑی رہی ۔۔۔

بولو نا! کیا کہہ رہی ہو۔۔۔

بول دوں؟ برا تو نہیں مانو گے ؟

میں سمجھا کہ شاید وہ میرا کوئی نیا نام سوچ کر آئی ہے، مگر وہ کچھ سنجیدہ سی تھی، وہ کچھ دیر میری شکل دیکھتی رہی پھر  ذرا کی  ذرا رکی اور بولی “تم میں ہمت ہے  تو دنیا سے بغاوت کردو، ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کرلو”

ہوا کا ایک جھونکا آیا اور وہ  تیزی سے باہر نکلتی  چلی گئی!

میسج  بالکل  واضح تھا!

دل نے کہا!  پگلے تو اب بھی نہیں سمجھا؟ اگر ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں، مگر میں گم سم کھڑا رہا، جب کچھ سمجھ نہ آیا تو بھاری دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے  سٹوڈیو میں آیا، ایزل پر دھری اس کی تصویر مسکرا رہی تھی اور مجھے اس کے برابر مشتاق کا ہنستا چہرہ نظر آیا، میں نے برش اٹھایا رنگوں کی بوتلوں کی طرف دیکھا اور اس تصویر کے چاروں طرف ایک حاشیہ کھینچ دیا! سیاہ حاشیہ۔۔۔۔۔۔۔

بس اس دن سے میں نے برش، رنگ، کینوس اور ایزل تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیئے اور بنک کی آفر پر دستخط کرکے بینکنگ کو اپنا کیریئر بنا لیا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ میری ممانی بن کر امریکہ چلی گئی، اور میں نے ماں باپ نے جہاں کہا وہیں شادی کرلی، بینکنک سروس کے دوران میری عمر کا بڑا حصہ ملک سے باہر گذر گیا، زندگی کے سفر میں اللہ نے مجھے بہت نوازا، دولت، عزت، محبت اور خیال رکھنے والی بیوی، سعادت مند بچے، ایک انسان اس کے علاوہ کیا مانگتا ہے، اللہ سے۔۔۔ کیوں میاں؟ ۔۔۔انھوں نے بےخیالی میں مجھ سے پوچھا !

اور کومل کا کیا ہوا تاج بھائی، میں نے بھی تکلف بالائے طاق رکھ کر پوچھ لیا! کبھی ملاقات ہوئی  ان سے؟

عجیب اتفاق ہے، ہماری ملاقات میں تیس سال کا طویل وقفہ آیا، مگر یہ ارادی نہ تھا، کبھی اپنی جگہ پہ ہم نہیں، کبھی اپنی جگہ پہ وہ نہیں، تین چار سال بعد وہ کراچی آتی تو میری پوسٹنگ کہیں باہر ہوتی، کبھی میں مختصر دورے پر کراچی آتا تو وہ واپس جا چکی ہوتی ،ہماری آخری ملاقات سات سال پہلے ہوئی۔ یہیں اسی گھر میں جب میں مستقل طور پاکستان واپس آگیا، وہ  ذرا بھی نہیں بدلی تھی، وہی شوخی، وہی شرارت وہی چلت پھرت،

مجھے دیکھتے ہی بولی “بہت بدتمیز ہو جی، پیاری ممانی جان کو سلام تک نہیں کیا ۔۔۔

میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے اور میں اس کی شکل دیکھتا رہ گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو پکڑ لائی جو شاہدچودہ پندرہ    برس کا ہوگا اور اس سے انگریزی میں بولی “سرتاج من کو سلام کرو” یہ تمھارے کزن ہیں۔ وہ بیچارہ اردو میں کورا تھا، سرتاج کا مطلب اسے کیا معلوم ہوتا، وہ اسے انگلش کا “سر” سمجھا اور ادب سے “سر” تاج کو سلام کرکے چلتا بنا، ادھر کومل نے میری شکل پر ہوائیاں اڑتی دیکھیں تو اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولی آج بھی لگڑ بگھے ہی ہو، اور میری ہاتھی کی سونڈ جیسی ناک والی پینٹنگ کہاں ہے بدھو؟

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے لگا اس تصویر کے گرد کھنچے سیاہ حاشیے  نے سٹوڈیو کے دروازے سے جھانک کر کومل کو آنکھ ماری ہو ، میرے جواب کا انتظار کیے  بغیر اس نے فرج کھولا اور فریزر سے برف نکال کر دانتوں سے کٹ کٹ کرنے لگی میں چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھتا رہا، کیا جواب دیتا اسے، ہمارے فیصلے ہی ہم کو اکثر مار جاتے ہیں، جہاں پر جیتنا ہو، ہم وہیں پر ہار جاتے ہیں!!!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”سیاہ حاشیہ ۔۔رفعت علوی

Leave a Reply