ویلنٹائن ڈے سپیشل۔۔روبینہ فیصل

70’sکاایک گانا یاد آرہا ہے راجیش کھنہ اور ممتاز پر شاید فلمایا ہوا ہے۔۔۔ الفاظ ہیں۔۔
تم کو مجھ سے پیار ہے؟ نا نا۔۔۔ ہاں ہاں ٹائپ کا۔۔۔ اور یہ دسیو مرتبہ لڑکا پو چھتا ہے۔۔ لڑکی ہر دفعہ ایک ہم پلہ مصرعہ تو ضرور پھینکتی ہے مگر اقرار نہیں کر تی۔ گانے کے آخر میں بالآخر لڑکا محبت کا اقرار کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پاک و ہند کے فلمی گانوں کی تاریخ میں یہ کوئی واحد گانا نہیں، جو اس قسم کا ہے،یہ تو ایسے ہی میرے دماغ میں گو نج رہا تھا، اس طرح کے بے شمار گانوں سے ہماری موسیقی کی تاریخ بھری پڑی ہے۔جیسے کہ ایک اور یاد آرہا ہے۔۔۔ تجھے پیار کرتے کرتے میری عمر بیت جائے۔۔۔وغیرہ وغیرہ

آج کل سوشل میڈیا پر امجد اسلام امجد کی ایک نظم بہت چل رہی ہے۔
“محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائید ِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے!

کچھ ایسی ہے یہ نظم۔۔ شاعری کی حد تک بہت خوبصورت لگتی ہے مگر۔۔۔مگر کیا ہم سوچتے ہیں کہ یہ بار بار اقرار ِ محبت، تائید عہد، یہ سب کیا ہیں؟ اس کی ضرورت کبھی کبھی ایک انسان کو دوسرے انسان سے زیادہ کیوں محسوس ہو تی ہے؟ پیار ہے پیار ہے۔۔تمھیں مجھ سے ہے کہ نہیں۔۔۔ میں خوبصورت لگ رہی ہوں؟ ہیں کہ نہیں؟ اگلا اپنی کسی اور ہی  مصیبت میں پھنسا ہو، مگر ہمیں ابھی کے  ابھی I Love you سننا ہے، ورنہ دنیا تباہ۔

اسے ہم محبت میں شدت کا نام دیتے ہیں۔ اسی لئے محبت کی شاعری ہو یا کہانی،اس تکرار ِ محبت کے مطالبے کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا۔۔مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ emotional dysregulationکی ایک علامت ہے؟
پھر محبت کا ایک اور رنگ دیکھتے ہیں۔۔ محبوب ہے تو آسمان سے تارے ہی توڑ کر لائے گا۔۔ یہ کام سہاگ رات سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بیوی سوچتی ہے گھونگٹ اٹھائے گا تو اس کے بدلے میری ہر فرمائش پو ری کر ے گا۔ شوہر سوچتا ہے،بیاہ کر لایا ہوں، میری بن کے رہے گی، بڑے بڑے عہد و پیمان لیتا ہے۔۔
“میرا دھیان رکھنا، میری بن بیاہی یا بیاہی بہنوں کابھی، یہی میکہ ہے، چھوٹے بھائی کو پڑھانا، بڑے کا احترام کرنا، ابا کو وقت پر دوائی دینا، اماں کی لعنت ملامت صبر سے سننا، بڑی بھابی کے طنز برداشت کر نا۔ بس مجھے خوش رکھنا۔ زندگی میں یہ یہ غم دیکھے ہیں، ایساایسا میرے ساتھ ہوا ہے، اب بس “تم ہی تم” ہو۔۔ دوسری طرف بیوی اس” تم ہی تم “کو سن کے، غرور سے پھول جاتی ہے، دل میں سوچتی ہے اچھا اگر “میں ہی میں ” ہو ں تو پھر باقی سب کی ایسی کی تیسی، نبڑ لوں گی سب کو اور چیک کر نے کو پہلا حکم مسکرا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے دیتی ہے:
“جاؤ اٹھو، آسمان سے میرے لئے تارے توڑ کے لاؤ”۔

دلہا میاں، مسکراہٹ کے سحر میں گم، زندگی، دلہن کے حوالے کر نے کا مصمم ارادہ دل میں لئے، بیوی کو خوش کر نے کے چکر میں لگ جاتا ہے۔۔ کسی دوسرے سے غیر انسانی اور غیر حقیقی امیدیں باندھ لینا، تجزیہ کیا جائے تو دونوں نے جذبات کی رو میں بہک کر ایک دوسرے کو انجانے میں یہ یقین دلا دیا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے سب کچھ کر گذریں گے۔۔۔جذبات کا دریا جب بہہ جاتا ہے، تو دونوں میں سے ایک بھی اپنی کہی بات کو پورا نہیں کر پاتا، مرد کسی اور طرح reactکرتا ہے، یعنی دل کہیں اور لگالیتا ہے اور عورت آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے” بدل گیا کمینہ، بدل گیا “۔۔ یا کبھی کبھی الٹ بھی ہو جاتا ہے ،مگر انجام یہی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ایسی امیدیں دلانا، لگانا یا ان کے ٹوٹنے پر دیواروں سے باتیں کر نا (ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے)۔۔ ہو نہیں جائیں گے، آپ پاگل ہی ہیں۔ emotional dysregualtion کی ایک اور علامت ہے،یہ جو آپ پہلی رات بلی مارنے میں لگے رہتے ہیں؟

پھر ایک اور غلط فہمی جسے محبت کے ساتھ جوڑ دیا جا تا ہے،وہ ہے شک کر نا۔۔ کسی کے ساتھ برداشت نہ کر نا، میں تمھیں کسی کے ساتھ بات کرتے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتی، یا کر سکتا۔۔ شروع شروع میں سننے میں اچھا لگتا ہے، لگتا ہے شکر ہے ہم بھی کسی کی زندگی میں اتنے اہم ہو ئے، مگر بات جب پرانی ہو جاتی ہے اور حد سے نکل جا تی ہے تو، کسی ایک کا سانس گھٹنے لگتا ہے اور وہ کھلی ہوا کے لئے بھاگنا چاہتا ہے، اور دوسرا پھر بدل جانے کا شور مچانا شروع کر دیتا ہے۔۔۔یہ بھی محبت نہیں آپ کے جذبات کا بگاڑ ہے۔

ایک اور غلط فہمی: محبت کا مطلب کہ، کوئی باؤنڈری لائن نہیں، پرندہ بن کرایک دوسرے کی سرحدیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عبور کرو،اتنی مداخلت کرو  کہ دوسرے کی زندگی برباد کر کے رکھ دو۔ وہ احتجاج کرے تو غصے سے پو چھو؟ کیا تم پر میرا اتنا بھی حق نہیں؟
وہ ڈر کر کہہ دے سب حقوق تمھارے۔۔ رانجھا رانجھا کر دی میں آپی رانجھا  ہو ئی۔۔ آ پ خود رانجھا یا رانجھی ہو نا چاہتے ہیں، شوق سے ہوں مگر دوسرے پر یہ لاگو کر نے کی کوشش کریں گے تو آپ پاگل ہیں، محبوب نہیں۔۔آپ کے جذبات آپ کے جسم پر حکمرانی کرتے ہیں اور عقل نام کی کو ئی چیز کم از کم، تعلقات کو بنانے اور نبھانے کے لئے نہیں ہے۔

ایسی جذباتی بے قاعدگی نامساعد حالات سے جنم لیتی ہے۔ ہمارے خیالات،جذبات اور رویوں کا جو آپس میں تعلق ہے، ان کے درمیان ناہموار ی سے ایک غیر متوازن پرسنالٹی بنتی ہے۔ جسے ہم جذباتی اور موڈی کہتے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے جذبات پر اختیار نہیں اور جن کے ذہن میں آنے والی کوئی بھی سوچ، ان کے موڈ کو اچھا یا برا بناتی ہے اور عمل اور رویہ،ا س موڈ کے محتاج ہو تے ہیں۔
مثلاً، کسی نے ہنس کے بات کی تو موڈ ہواؤں سے باتیں کر نے لگ گیا، ہنس کے بات کر نے والے پر ٹوٹ کر پیار آگیا، اور موڈ خوشگوار ہو گیا، ساری حرکتیں خوشیوں سے لبریز ہو گئیں۔اصل مقصد سے ہٹ گئے اور یہی کسی نے غصے یا طنز سے بات کی تو ساری کایا پلٹ گئی۔ اور پھر اصل مقصد سے ہٹ گئے۔۔ rational/logical mind کی بجائے emotional mindہمیں ڈرائیو کر تا ہے۔ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا یہ ہمارے موڈز پر ہو تا ہے۔

یہ دماغ کی ایک ہلکی پھلکی بیماری ہے، جسے وقت پر سمجھ کر سدھار نہ لیا جائے تو یہ آگے چل کر ڈپریشن جیسی دماغی بیماری کو دعوت دیتی ہے۔ یہ سب وراثت میں بھی ہو سکتا ہے اور کئی دفعہ حالات ایسا بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین کے آپس کے ناہموار یا ٹوٹے ہو ئے تعلقات،گھر کا مقابلہ بازی کا ماحول، وہ یہ کر گیا تم یہ نہ کر سکے والا۔۔والدین کی بچے سے بڑی بڑی امیدیں یاسکول میں باقی بچوں کا نامناسب رویہ، جذباتی، جسمانی یا جنسی abuse،والدین کا نہ ہو نا یا ان کی عدم توجہ اور یا کوئی اور روح کو ہلا دینے والے زندگی کے تجربات۔۔ ان سب میں سے کو ئی بھی وجہ ہو سکتی ہے مگر نتیجہ ایک emotional dysregulation، جذباتی ناہمواری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔۔۔

اگر یہ سب آپ کے اندر موجود ہے توآپ کی شخصیت ایسی بنے گی:
حالات سے فرار ہو جانا،یا فوری رد ِ عمل ظاہر کر دینا یا دوسروں کو نقصان پہنچانے والا۔
اپنی شناخت کے بارے میں کنفیوز ہونا،خود اعتمادی کی کمی ہونا!
اپنے اور دوسروں کے بارے میں منفی سوچ رکھنا!
ارتکازconcentration کی کمی واقع ہو نا!
رشتے بنانے اور نبھانے میں نااہل ہو جا نا!

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ان سب باتوں میں بھی آپ کو اپنا عکس نظر نہیں آیا تو آپ ایک دماغی طور پر مضبوط انسان ہیں، اور اگر کسی ایک میں بھی نظر آیا تو آپ کو اپنی شخصیت کے اس پہلو پر کام کر نے کی ضرورت ہے،اسے محبت کے رنگ ڈھنگ سمجھ کے نظر انداز نہ کریں!

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ویلنٹائن ڈے سپیشل۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply