الوداع دلہن باجی۔۔انعام رانا

کئی برس ہوتے ہیں اک چار پانچ سال کا بچہ رو رہا تھا۔ بچے کا باپ کچہری سے گھر آیا تو پوچھا کیوں رو رہے ہو۔؟ بچے نے اٹھارہ برس بڑی اپنی تایا زاد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ باجی کی شادی ہو رہی ہے۔ والد کو معلوم تھا کہ بچہ تایا زاد سے کس قدر مانوس ہے، اور اپنے محبوب چچا کا پہلا بیٹا ہونے کی وجہ سے بھتیجی بھی اسے ماؤں  کی طرح پیار کرتی ہے، اس لیے  بہت پیار سے کہا کہ ہاں بیٹے ، شادی تو ہوتی ہے نا، یہ تو خوشی کی بات ہے۔

بچہ پھر بھی روتا رہا اور بولا۔۔ “مگر  باجی سے میں نے شادی کرنی ہے۔” بھتیجی سامنے کھڑی تھی اور سخت گیر چچا کا رنگ لال ہو گیا،پھر بھی  ضبط کرتے ہوئے   کہنے لگے ، نہیں بیٹے وہ تو آپ کی بہن ہے!

بچہ اس کے باوجود چلایا “نہیں باجی سے میں نے شادی کرنی ہے” اور اس بار بچے کو اپنی زندگی کا پہلا تھپڑ پڑا، ساتھ ایک دھاڑ سنائی دی “بکواس بند کرو”۔ بچہ اس دھاڑ اور تھپڑ کی گونج سے سکتے میں ایسا آیا کہ رونا بھول گیا، شاید اور مار پڑتی مگر بچے کی وہی “اولین محبوبہ” تڑپ کر آگے بڑھی اور اسے مزید عتاب سے بچا لیا۔

بچے کو کئی دہائیوں بعد بھی اک دھندلا سا تصور یاد ہے کہ ملتان میں اک گھر کی اک مسہری پر ایک   گڑیا  سی لڑکی  دلہن بنی بیٹھی ہے۔ اس کا شوہر پاس بیٹھا ہے جسے بچہ جب  بھی دیکھتا ہے غصے سے دیکھتا ہے۔ بعد میں دلہا نے دلہن سے کہا کہ یہ بچہ مجھے بہت غصے سے دیکھتا ہے تو دلہن ہنس پڑی اور اسے  تمام واقعہ کہہ سنایا۔ اگلی دہائیوں دلہا نے بچے کو ہمیشہ میرے رقیب کہہ کر چھیڑا اور بچہ جو اب بچہ نہیں رہا تھا، شرم سے لال ہو جاتا۔

باجی کو ادب سے، شاعری سے لگاؤ تھا، شعر پڑھتی تھی اور گفتگو میں ایسے جملے بناتی تھی کہ بچے نے کبھی کتابوں میں بھی نہ  پڑھے۔ شاید اگر ایک رسوم و قیود کے مارے خاندان کے بجائے آج کے دور میں جنم لیتی تو کوئی ادیبہ بنتی، شاعرہ نکلتی۔ بچے نے عرصے بعد جب بطور لکھاری ستائش پائی تو اپنے اس فن کے پیچھے ان ایک دو باجیوں کا اثر بھی پایا جو اس کے بچپن میں اس کے اردگرد شعر اور افسانے پڑھتی تھیں۔

وقت کا دھارا بہا اور بہت تیزی سے بہا۔ بچہ بڑا ہو گیا، اور گڑیا سی باجی، بچوں والی ہو کر ادھیڑ عمر۔۔ حساس طبیعت کو غموں نے بیمار بھی کر دیا اور بیماریوں نے لاچار بھی۔ سات سمندر پار کی اک سرد رات اس کو بتایا گیا کہ ضیابطیس سے ٹوٹی ہوئی باجی نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ “سنو اب جانے کا وقت ہے، میں نے زندگی شیرنی کی طرح جی، مجھے دلہن بنا کر وداع کرنا”۔ جب سنا کہ ملتان کے ایک گھر میں سفید کفن میں لپٹی ہوئی باجی پر سرخ دوپٹہ تھا اور بالکل گڑیا سی لگتی تھی تو سفید ہوتی داڑھی والا پھر بچہ بن گیا، اس پر پھر برسوں پرانا وہی سکتہ طاری ہو گیا اور وہ رونا تک بھول گیا۔
بچے نے فقط آنکھیں بند کر کے کہا “الوداع باجی، خدا کی جنت میں سدا دلہن بن کر رہو، سدا آباد رہو۔ آمین۔ ”

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”الوداع دلہن باجی۔۔انعام رانا

  1. یہ ایشیائی معیار کی کہانی نہیں ہے ، عالمی ادب کے کسی غیر معروف لیکن دلخراش کہانی سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے، کس قدر روح فرسا منظر ہے دلہن پر سرخ ڈوپٹہ ، آخری حصے میں لفظ ” باجی ” کی اتنی تکرار طبیعت پر گراں گزر رہی ہے

Leave a Reply to قمر نقیب خان Cancel reply