سوشل میڈیا میں رائج الوقت مفاسد

پیشِ نظر مضمون میں ہماری کوشش ہے کہ سوشل میڈیا میں رائج الوقت خامیوں اور کوتاہیوں کی شرعی نکتۂ نظر سے نشاندہی کی جائے۔ممکن ہے ہماری اس جسارت پر بعض قارئین کی پیشانیوں پر بل پڑ جائیں مگر ٹھنڈے دل سے ہماری گذارشات پر غور کیا جائے تو امید ہے کہ معاشرہ میں مثبت تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوجائے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ جس بندے نے کسی نیکی کے راستہ کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے اجروں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی بات مان کر نیکی کے اس راستہ پر چلیں گے اور عمل کریں گے اور اس کی وجہ سے ان عمل کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(اور اسی طرح )جس نے (لوگوں کو)کسی گمراہی(اور بد عملی) کی دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جو اس کی دعوت پر اس گمراہی اور بد عملی کے مرتکب ہوں گے اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کے گناہوں میں(اورا ن کے عذاب میں)کوئی کمی نہ ہوگی۔(مسلم شریف)اس ارشادِ نبوی کی روشنی میں آئیے دیکھتے ہیں کہ کن پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔

کسی قوم کے کردار کی تعمیر و تخریب میں فی زمانہ میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔تعلیم یافتہ لوگ تو ایک طرف ان پڑھ لوگ بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔اگریہ بات کہی جائے تو قطعی مبالغہ نہیں ہوگا کہ نوعِ انسانی اس وقت میڈیا کے شکنجہ میں پوری طرح پھنس چکی ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں اس طرح ناگزیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ہر عمر، رنگ، نسل، مذہب اور معاشرہ کا فرد اس کا اسیر ہوچکا ہے۔واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر اور انسٹا گرام جیسے ذرائع ابلاغ ہماری زندگیوں میں مکمل طور پر رچ بس چکے ہیں۔جھوٹی سچی خبر ہو یا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ میڈیا کی نظروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ اور پھر اس خبر یا واقعہ کو نمک مرچ لگا کر ریٹنگ کی دوڑ میں آگے نکلنے کا جنون اس طرح ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے کہ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل جاتا ہے۔مادر پدر آزاد مغربی معاشرہ کی بات تو جانے دیں کہ وہ اخلاقی پستیوں کی گہرائیوں میں دفن ہوچکا ہے۔رونا تو ہمیں اپناہے کہ ہم آخری اور سچے دین اسلام کے پیروکار و علمبردار ہونے کے باوجودمذہبی ، اخلاقی ، معاشرتی اور سماجی خوبیوں سے تہی دامن ہوچکے ہیں اور ہم کو اپنی اس محرومی کا احساس تک نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا میں وہ کون سے مفاسد ہیں جن سے معاشرہ کو بچانا ہمارا دینی و قومی فریضہ ہے۔اس سلسلے میں ہماری گذارشات ترتیب وارپیشِ خدمت ہیں۔
1۔ اکثر اوقات بغیر تحقیق اور تصدیق کے ہر خبر یا پوسٹ کو سوشل میڈیا پر اپنے حلقۂ احباب میں شیئر کردیاجاتا ہے۔بعد میں اگر یہ خبر جھوٹی ثابت ہو تو اس سے رجوع بھی نہیں کیاجاتا۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے کہ جس بات کا یقینی علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ ہولیا کرو۔ کان ، آنکھ اور دل ان سب سے ( قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔(سورۃ بنی اسرائیل)۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کی ایک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے۔(مسلم شریف)
2۔ اسی طرح کسی شخص یا جماعت کا اگر کوئی عیب یا خامی علم میں آجائے تو پھر اس کی تشہیر ببانگِ دہل کی جاتی ہے ۔ حالانکہ اگر وہ عیب واقعی اس شخص یا جماعت میں موجود ہے تو غیبت کا گناہ لازم آتا ہے اور اگر مذکورہ شخص یا جماعت کا دامن اس عیب سے پاک ہے تو پھر بہتان کے زمرہ میں آتا ہے جس کی مما نعت اس سے بھی شدید ہے۔قرآنِ مجید میں غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ بلاشبہ سب سے بڑے سود میں سے یہ بھی ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی آبرو (ریزی) کے بارے میں زبان دراز کی جائے۔(مشکوٰۃشریف)
3۔اکثر کسی خبر پر نقد و تبصرہ یا کسی بات پر اعتراض محض اپنی علمی قابلیت جتانے کی وجہ سے کیا جاتا ہے ۔ اس موضوع پہ مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بات کو طول دے کر اپنی لیاقت کی تشہیر مقصود ہوتی ہے۔اسی ضمن میں اکثر تحریر و تقریر میں تمسخر، طعن اور بیہودگی کا رنگ نمایاں ہوجاتا ہے جو ایک طرف خلافِ تہذیب بھی ہے اور حدیثِ پاک میں بھی اس کی ممانعت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ یہ چار باتیں مومن کی شان سے نہیں۔طعن کرنا، لعنت کرنا، فحش بکنا اور بد خو ہونا۔(ترمذی شریف) نیز ایک جگہ ارشادِ نبوی ہے کہ مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔(مسلم شریف)
4۔کبھی کسی شخص کے ماضی کے کسی واقعہ کا تذکرہ کرکے اس کو عار دلائی جاتی ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کسی گناہ کی عار دلائے تو یہ بھی مرنے سے پہلے پہلے اس گناہ میں مبتلاہوگا۔(ترمذی شریف)
5۔ اسی طرح کبھی کسی شخص کی سزا یا اور کسی جسمانی یا مالی نقصان کا تذکرہ کرکے اس پر مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت کے وقت خوشی ظاہر نہ کر (ایسا نہ ہو) کہ اﷲ پاک اس پر رحم فرمائیں اور تجھے اس میں گرفتار فرمادیں۔ ( ترمذی شریف)
6۔کبھی کسی سیاسی یا سماجی مشہور شخصیت کی جھوٹی سچی تعریف یا خوشامد کسی منفعت کی لالچ میں کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ جب تم ثنا خوانوں کو تعریف کرتے دیکھوتو ان کے مونہوں میں مٹی بھرا کرو۔ (مسلم شریف)
7۔کبھی کسی کافر یافاجر فاسق کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے جاتے ہیں ۔ حالانکہ
ایک حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ جب بدکار کی کوئی تعریف کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ غضبناک ہوتا ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ جب فاسق آدمی کی تعریف ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور عرش(الہٰی) ہلنے لگتا ہے۔(مشکوٰۃشریف)
8۔ بعض اوقات بلاضرورت ہنسی مذاق یا لطیفہ بازی ہوتی ہے جس میں شرعی حدود کی رعایت کئے بغیر جملہ بازی کی جاتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسوانے کی غرض سے جھوٹی بات کہتا ہے ، ہلاکت ہے اس کے لئے،ہلاکت ہے اس کے لئے۔ ( ترمذی شریف)
9۔ سوشل میڈیا پر ایک برائی تو ایسی عام ہے کہ اس کی حرمت سے سب واقف ہیں لیکن اس کے باوجوداس سے لطف اندوزہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ہماری مراد موسیقی ہے جسے بعض ناعاقبت اندیش روح کی غذا قرار دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ گانا بجانا سننا گناہ ہے اور اس کے لئے بیٹھنا نافرمانی ہے اور اس سے لطف لینا کفرہے۔(نیل الاوطار)نیز ایک اورروایت میں آتا ہے کہ گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی اُگاتا ہے۔ (بیہقی شریف)
10۔اسی طرح دینی عقائد و مسائل پر گفتگو میں احتیاط نہیں کی جاتی اور مسلمہ امور پر بھی بلا دلیل رائے زنی کی جاتی ہے۔اس میں بسا اوقات اتنی جرأت بڑھ جاتی ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں تحریف یا تکذیب کی نوبت آجاتی ہے۔یوں اپنے اور دوسروں کے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا عقل و شریعت دونوں کے خلاف ہے۔
اگر کوئی بات مذکورہ بالا تمام مفاسد سے خالی بھی ہوتو بھی ا کثرفضول اور بے فائدہ ہوتی ہے۔ ایران توران کے قصوں سے بھلا کسی کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ پھر اس میں حد سے زیادہ انہماک دینی و نیوی امور کے لیے سمِّ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مفاسد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دیاجائے کیونکہ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ قوم کی ذہنی قیادت و رہنمائی کی نازک اور اہم ذمہ اری میں اربابِ اختیار اگرسوشل میڈیا کو صحیح سمت میں استعمال کریں تو اس کے مفید نتائج برآمد ہونے کی قوی امید ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply