ایمانی غریب

اکثر دوست احباب جب غربت کا تذکرہ کرتے ہیں تو اپنے ارد گرد نظر دوڑانے کا کہتے ہیں، میرے خیال سے ہم میں سے اکثر جو انٹرنیٹ تک رسائی کے قابل ہیں اور لیپ ٹاپ یا موبائل بھی ہماری دسترس میں ہے تو ہم اس قابل ہوں گے کہ ہمارے گھر والے ایک چار دیواری میں رہ سکیں اور انہیں دو وقت کی روٹی اللہ کے خزانوں سے پہنچ رہی ہوگی، پر کچھ لوگ ہیں جو اس لکیر کے نیچے ہیں اور اُنہیں ڈھونڈنے کیلئے اگر ہم اِدھر اُدھر کی بجائے اپنی سطح سے تھوڑا نیچے نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے انسان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے نظر آجائیں، اُن میں سے اکثر کیلئے زندگی پیوند لگی اُس باریک چادر کا نام ہے جو کسی بھی طرف سے اُنکی حالت کو چھپانے کیلئے نا کافی ہو، وہ چادر جسے رکھنا اوڑھنا اذیت اور نہ پھینکنا مجبوری، لاچاری۔۔۔
میرا اس بات پر یقین ہے کہ سوشل میڈیا کے نقصانات سے زیادہ اس کے فوائد ہیں، نقصانات بھی ہمارے معاشرے میں علم و عمل کی کمی کا نتیجہ ہیں پر فوائد میں یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو جو اپنی زندگیوں میں مصروف اور پیسے کمانے کی مشین بنے ہیں، اُن کو معاشرے کے پسماندہ طبقات کی لرزہ خیز داستانیں میڈیا کی زینت بننے کی بجائے ایک عام شہری کی پوسٹس سے بھی مل جاتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو بے حِس نہیں ہیں اور اُن کے آس پاس ہونے والے واقعات کو اس نظر سے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ کچھ واقعات اور کہانیوں کو معاشرے کے سامنے ایک سوالنامے یا عبرت انگیز تحریر کی شکل میں پیش کر یں۔ ایسی ہی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں ہمارے ایک دوست نے چھوٹی عمر کی بچی کو اُس کے بوڑھے رکشہ ڈرائیور والد کی گود میں پایا اور لڑکی کو رکشے میں دیکھ کر اُس نے شفیق باپ کی جانب سے بچی کی ضد پوری کرنے کا عمل سمجھا پر اُس لڑکی کے والد نے یہ انکشاف کیا کہ اُسکا ایک ہاتھ نہیں اور یہ بچی اُسکا ایک ہاتھ بنی ہوئی ہے اور رکشے کو دونوں مل کر چلاتے ہیں، رکشہ ڈرائیور نے مزید بتایا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ اُسکی بیٹی کہیں بھیک مانگے یا کسی کے گھر میں کام کرے۔
لوگوں کے یہ مضبوط اعصاب دیکھ اپنی زندگی بہت چھوٹی لگنے لگتی ہے، یہ پڑھنے کے بعد تمام پہر سوچتا رہا کہ زندگی کے اصل ہیرو تو یہ لوگ ہیں اور میری نظر میں ایسے لوگ ہماری مدد کے حقدار ہیں پر ہم بحیثیت ایک معاشرے کے اس میں بری طرح ناکام ہیں کہ ہم کسی ڈوبتے شخص کا سہارا بن جائیں، ہمارے اس بیمار اسلامی معاشرے میں خیرات عطیات وغیرہ کچھ خاص مہینوں کے خاص دنوں پر محیط ہیں وہ بھی ہم اس طرح ادا کرتے ہیں کہ کہیں غلطی سے کچھ پیسے اوپر نہ چلے جائیں پر اگر کل اسی رکشہ ڈرائیور کی بیٹی مجبور ہوکر کسی کے گھر میں نوکری شروع کرلے اور وہاں اُن پر تشدد ہو یا جنسی استحصال تو یقین مانیے ربِ کریم کے حضور ہماری گردنوں میں سزاؤں کے طوق ہوں گے اور اُس دن قھار کے سامنے جب مظلوم فریاد کریں گے تو ہماری ایک نہ سنی جائے گی کیونکہ وہ رحیم بن کر اپنے حقوق معاف کرسکتا ہے پر بندوں کے نہیں۔
اس پوسٹ پر لائق مت کریں پرآج ایک کام کریں، آج ہی اپنے آس پاس کوئی غریب تلاش کریں جو بھیک نہ مانگ رہا ہو پر حقدار ہو، جن کی کفالت ، گزر بسر مشکل سے ہورہی ہو پر رزقِ حلال کمانے کے ارادے رکھتا ہو تو خود اور اپنے صاحبِ استطاعت دوست احباب کی مدد سے اُن کیلئے کوئی مستقل روزگار کا بندوبست کردیں، یقین مانیے غریب آپکے پیسوں سے زیادہ آپکی طرف سے اُن کے روزگار مہیا کرنے کی کوشش کیلئے دعائیں دے گا، اُنہیں معاشرے کا حصہ جان کر اُنہیں عزت سے جینے کا حوصلہ دیں، یہی جنت کا راستہ ہے، یہی سکون کا واحد ذریعہ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم ایمانی غریب ہونے کے ساتھ ساتھ مجرم بھی ہیں۔

Facebook Comments

عبدالبصیر خان
فاٹا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والا، اُردو، اُردو سے جڑے لوگوں کی محبت دل میں لئے، دوبئی میں حصولِ رزق کی خاطر صحراؤں کی خاک چاننے والا ایک ادنیٰ سا طالبعلم۔۔۔ غزل، سگریٹ اور کتابوں کو ہی زندگی کہنے والا، اندر سے درویش۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply