واجد ضیاء کی طلبی ، چند اہم سوالات۔۔ آصف محمود

نواز شریف صاحب کے داماد محترم کیپٹن صفدر کی شکایت پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق نے جے آئی ٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء کو اپنے حضور پیش ہونے کا حکم جاری فرما دیا ہے ۔ ان پر الزام یہ ہے کہ پانا مہ کیس کی تحقیق میں انہوں نے کیپٹن صاحب کے بارے میں جو کچھ لکھا اس سے معزز رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔ 26 جنوری 2018 کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے ’’ خصوصی پیغام رساں‘‘ کے ذریعے بھیجے گئے ” Most Immediate” نوٹس میں انہیں کہا گیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں خود پیش ہوں ۔

یہ معمولی اقدام نہیں ہے ۔ اس میں حوادثِ آئندہ کے کئی باب پنہاں ہیں اس لیے ضروری ہے اس کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔ واجد ضیاء نے جو تحقیق کی وہ کسی ذاتی نفرت یا ذاتی انتقام کے تحت نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کی ۔ انہوں نے جو نتائج فکر اخذ کیے وہ مفروضوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک تحقیق کی بنیاد پر کیے ، ان نتائج کو انہوں نے خفیہ نہیں رکھا بلکہ عدالت عظمی کے سامنے پیش کر دیے ، تحقیق اور تفتیش میں یہی ہوتا ہے ۔ یہی مروجہ طریق کار ہے اور دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ واجد ضیاء نے کیا غلط کیا کہ اسے قائمہ کمیٹی کے حضور طلب کر لیا گیا ہے ؟ اگر کیپٹن صفدر یہ سمجھتے ہیں کہ واجد ضیاء نے ان پر غلط الزامات عائد کیے اور ان کے بارے میں جو لکھا وہ درست نہیں ہے تو اس کے اظہار کا بہترین موقع وہ تھا جب واجد ضیاء نے اپنی تفتیش کے نتائج سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے ۔ کیپٹن صفدر ان الزامات کو وہاں غلط ثابت کر دیتے اور آج انہیں نیب میں پیشیاں بھی نہ بھگتنا پڑتیں ۔ لیکن اس وقت ہم سب نے دیکھا کہ حکمران خاندان کا بنیادی اعتراض صرف اس بات پر رہا کہ جے آئی ٹی نے صرف ساٹھ دنوں میں اتنا مواد کیسے اکٹھاکر لیا ، ضرور یہ کسی اور کا کام ہے ۔ اس الزام کے رد میں وہ کچھ نہ کہہ سکے جو عدالت کا متاثر کر سکتا ۔ چنانچہ جو فیصلہ آیا وہ ہمارے سامنے ہے ۔

واجد ضیاء کی تفتیش کو اگر عدالت رد کر دیتی اور اسے جھوٹ قرار دے دیتی تب تو کیپٹن صفدر ایسے کسی اقدام میں حق بجانب ہوتے لیکن واجد ضیاء کی تفتیش کو سپریم کورٹ نے رد نہیں کیا بلکہ اسے اتنی اہمیت دی کہ اس کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا اور نیب کو حکم دیا کہ ان سب پر مقدمہ چلا کر فیصلہ کیا جائے ۔ جس تفتیشی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ اتنا برا فیصلہ کرے کیا اس تفتیشی کے خلاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ایسی کوئی کارروائی  مناسب قدم ہو گا ؟

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ معاملہ ابھی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ واجد ضیاء کی تفتیش بھی عدالت کے سامنے رکھی ہے اور ملزمان کو بھی اپنی بات کہنے  کا موقع میسر ہے ۔ قانون کی اصطلاح میں اسے “Sub Judice” کہتے ہیں ۔ ایسے معاملے میں جہاں تفتیشی کے الزامات اور ملزم کی اپنی صفائی میں دیے گئے دلائل میں سے کسی ایک کے بھی سچے یا جھوٹے ہونے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا کیا یہ اس بات کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے کہ تفتیشی کو طلب کر لیا جائے اور طلب بھی ایسے فورم پر کر لیا جائے جہاں اسے نوکری سے بھی نکالا جا سکتا ہے ؟ کیا یہ عدالتی کارروائی میں ایک طرح کی مداخلت نہیں ہو گی؟

یہ قدم ریاست میں قانون کی حکمرانی کے حوالے سے بھی قابل غور ہے ۔ اگر یہ اصول طے ہو گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والی تفتیش میں ایک رکن قومی اسمبلی کے خلاف کچھ لکھنے پر اس رکن قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح ہو جائے اور تفتیشی کو طلب کر لیا جائے تو کیا آئندہ دیگر مقدمات میں کوئی تفتیشی یہ جرات کر سکے گا کہ وہ کسی ایم این اے کے خلاف تفتیش میں کوئی ایسی بات لکھ سکے جو ایم این اے کے خلاف جاتی ہو؟ کیا استحقاق کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ نیب ، پولیس اور دیگر ادارے اور ان کی تفتیش کرنے والے افسران اپنی تفتیش میں کسی رکن اسمبلی کے خلاف کچھ نہ لکھیں اور اگر لکھیں تو واجد ضیاء کا انجام بھی یاد رکھیں؟

نیب میں شریف خاندان کیخلاف مقدمات چل رہے ہیں کیا یہ ان مقدمات میں نیب کے افسران اور گواہوں کو دیا جانے والا ایک پیغام تو نہیں کہ اپنا چال چلن بہتر کر لو اور ہمارے خلاف گواہی سے اجتناب کرو ورنہ جان رکھو کہ قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھی ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا اس رویے کے ساتھ ملک میں قانون میں حکمرانی کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟ جس قائمہ کمیٹی کے حضور واجد ضیاء کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اب ذرا اس کی ساخت بھی دیکھ لیجیے ۔

اس کمیٹی کے کل 21 اراکین ہیں ۔ جن میں سے 14 کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، پیپلزپارٹی کے تین ، ایم کیو ایم پاکستان کے دو، جبکہ جے یو آئی اور تحریک انصاف کا ایک ایک رکن اس کا حصہ ہے۔ جس کمیٹی میں مسلم لیگ ن کی اتنی واضح اکثریت ہو کیا وہ کمیٹی نواز شریف کے داماد کے معاملے میں انصاف کر پائے گی؟ معاملہ بھی کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ اتنا غیر معمولی ہے کہ مسلم لیگ ن تو خود عدلیہ کے خلاف صف آراء ہوتی دکھاتی دے رہی ہے۔پھر اس کمیٹی کے چیئر میں جناب رانا قاسم نون کا تعلق بھی مسلم لیگ ن سے ہے۔ بد گمانی تو کسی کے بارے میں بھی نہیں رکھنی چاہیے لیکن افتاد طبع سے آگہی کے لیے بس اتنا جان لیجیے کہ 2002 کے الیکشن میں وہ ق لیگ کے ٹکٹ پر این اے 153 کے لیے میدان میں اترے تھے لیکن ہار گئے ، 2008 کے الیکشن میں وہ آزاد امیدوار تھے اس بار بھی انہیں شکست ہوئی۔ 2013 کا الیکشن انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے لڑا لیکن اس مرتبہ بھی نہ جیت سکے۔ شکستوں کی ہیٹ ٹرک کے بعد انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ۔ پھر تحریک انصاف کو بھی چھوڑ دیا اور مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے اور یوں بالآخر وہ 2016 میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے ۔ تو کیا ہم ان سے توقع رکھیں وہ واجد ضیاء کے معاملے میں انصاف کریں گے ؟

ایک اہم بلکہ اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ واضح طور پر حکم دے چکی ہے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کے خلاف کوئی کارروائی عدالت کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کیا قائمہ کمیٹی کی یہ کارروائی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتی ؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ توہین عدالت کے مظاہر جو اب تک جلسوں تک محدود تھے اب ایک نئی صورت میں ظہور کر رہے ہیں اور کرپشن کے معاملے کو جان بوجھ کر پارلیمان کی بالادستی کی جنگ بنا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا اگلا مرحلہ بہت خوفناک بھی ہو سکتا ہے۔ مت بھولیے کہ گوہر ایوب اپنی کتاب Glimpses into the corridors of power میں یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ کس طرح نواز شریف نے اس وقت کے چیف جسٹس کو استحقاق کمیٹی کے حضور طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا اورجب گوہر ایوب کو بلوا کر اس پر بریفنگ دلوائی گئی تو گوہر ایوب نے اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دے دیا ۔ چنانچہ نواز شریف نے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ گوہر ایوب صاحب کوئی ایسا راستہ بتائیے میں چیف جسٹس کو ایک رات کے لیے جیل میں ڈال سکوں۔ اس وقت انا بھی زیادہ مجروح ہے اور مزاج بھی زیادہ برہم۔کیا عجب کہ کرپشن کے مقدمات کو پارلیمان کی بالادستی کے عنوان کے تحت لڑنے کا فیصلہ کر لیا جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ۹۲ نیوز

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply