میرا صحافتی کیریئر۔۔رعایت اللہ فاروقی/ قسط2

جون 2007ء کی ایک شام میں ٹیکسی میں گھر جاتے ہوئے اسلام آباد کے آئی 8 سیکٹر سے گزر رہا تھا کہ میرے “ہمزاد” سیف اللہ خالد کی کال آئی. بہت سنجیدہ اور محتاط انداز میں بولے”میں ایک فیکس نمبر ایس ایم ایس کر رہا ہوں، کل اس نمبر پر ایک کالم لکھ کر فیکس کردیں”

میں نے پوچھا

“اتنے سنجیدہ کیوں ہو اور فیکس نمبر کس کا ہے ؟”

فرمایا۔۔

“جو کہہ رہا ہوں وہ کیجیے، تفصیل بعد میں بتاؤں گا”

ہمزاد کا حکم تھا سو ٹالنے یا انکار کی تو گنجائش ہی نہ تھی مگر جب تک ادارے کا پتہ نہ ہو کالم کے لئے ذہن ہی نہیں بن سکتا سو گھر پہنچ کر ان کی اگلی کال کا انتظار شروع کردیا. رات کو ان کی کال آ گئی، کہنے لگے

“میں اس وقت رفیق افغان صاحب کے سامنے بیٹھا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کوئی ایسا کالم نگار چاہیے جو پوری فورس کے ساتھ لکھتا ہو، لاگ لپٹ نہ رکھتا ہو. میں نے تمہارا نام دیا تو کہنے لگے، میں نے انہیں پڑھا نہیں، آپ ان سے کہیں کہ ایک کالم لکھ بھیجیں، وہ پڑھ کر فیصلہ کریں گے”

میں زمانہ طالب علمی میں ہفت روزہ تکبیر کے شیدایوں میں سے رہا تھا اور ان لوگوں میں شامل ہوں جو ہر جمعرات کی شام بک سٹال پر کھڑے ہو کر اس کے تازہ شمارے کا انتظار کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں ایسے لوگ ہزاروں میں تھے. اس ادارے سے متاثر ہونے کا ہی نتیجہ تھا کہ صحافتی کیرئیر کے آغاز میں اپنے لئے یہ سنگ میل مقرر کر لیا تھا کہ خود کو اس لائق بنانا ہے کہ ایک دن اس ٹیم کا حصہ بن سکوں. 1994ء میں اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ سنگ میل لسٹ سے خارج ہو گیا تھا. اب اچانک روزنامہ امت سے وابستگی کا امکان بنا تو  خواہش اور دھندلا سنگ میل یک دم تازہ ہوگئے. عنوان اس وقت یاد نہیں آ رہا مگر پہلی بار کالم نگاری کا سب سے ممتاز معیار “ون پیس کالم” لکھا اور پاکستان کی تاریخ کے تمام فرعون صفت حکمرانوں کو لپیٹ ڈالا، کالم کا آغاز کچھ یوں تھا

“یہاں ایک غلام محمد ہوا کرتا تھا جو اپنی رال تو نہ سنبھال پاتا تھا مگر کہلاتا “مرد آہن” تھا………”

اور اسی لے میں کالم کو اختتام تک لے گیا، یہ تب تک کے کیرئیر کا سب سے توجہ سے لکھا گیا کالم تھا کیونکہ میں نے رفیق افغان کے ادبی شہ پارے پڑھ رکھے تھے سو جانتا تھا کہ اعلی درجے کے نثر نگار چیف ایڈیٹر کو متاثر کرنے کا چیلنج درپیش ہے جو آسان نہ ہوگا. اللہ نے فضل فرمایا اور رفیق افغان متاثر ہو گئے. یوں میں امت کا حصہ بن گیا اور تمام کالم ون پیس میں ہی لکھنے شروع کر دئیے. چھ ماہ بعد کراچی جانا ہوا تو رفیق افغان سے پہلی ملاقات ہوئی. وہ بہت ہی تپاک اور گرمجوشی سے ملے اور جذبات سے بھرپور لہجے میں بولے

“ون پیس کالم کا آرٹ تو اپنی مشکل کے سبب ناپید ہو گیا، ایک دو ہی لوگ اب یہ لکھ پاتے ہیں، آپ کا اس پر کنٹرول حیران کن ہے، بہت غضب کا لکھتے ہیں آپ”

میرے لئے یہ الفاظ اور ان کا والہانہ پن حیران کن تھا کیونکہ اخبارات میں باس باور یہی کراتے رہتے ہیں کہ آپ بس گزارے لائق ہیں. اس کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ بندہ کہیں سر پر نہ سوار ہو جائے۔ اگلے چار سالوں کے دوران جب بھی رفیق افغان سے ملاقات ہوئی یا فون پر بات ہوئی انہوں نے خاص طور پر میری تحریر کے معیار کو سراہا، ایک بار کہنے لگے یہاں کراچی کے ادبی حلقے کے کچھ لوگ آپ سے ملاقات کا شوق رکھتے ہیں، چنانچہ ایک موقع پر انہوں نے اپنے دفتر میں اس ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ ایک بار وہ مجھے کلفٹن کے ریسٹورنٹ پر ڈنر کرانے بھی لے گئے جہاں رات دیر تک گپیں لگیں۔ بتانا یہ نہیں چاہ رہا کہ میں بہت اچھا لکھتا تھا بلکہ یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ رفیق افغان خود ایک اعلی درجے کے رائٹر ہیں لیکن اپنی ٹیم کے فرد کو سراہنے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لئے وہ آخری حد تک چلے جاتے ہیں جو بہت ہی حیران کن بات ہے کیونکہ اخبارات میں اس کا رواج ہی نہیں۔

امت میں گزارے چار سال میرے کیریئر کا سب سے بہترین دورانیہ ہے۔ یہاں شروع میں ہی ہر دوسرے شخص نے مجھ سے کہا

“آپ نے اعجاز منگی کو تو پڑھا ہی ہوگا، ان کے بعد آپ ہی سب سے اچھے کالم نگار آئے ہیں”

میں نے اعجاز کا نام تک نہیں سنا تھا سو پڑھ کیا رکھا ہوتا، ان کا نام بار بار سننے کے نتیجے میں ہی میں نے امت کی پرانی فائلوں سے ان کے چند کالم پڑھ ڈالے۔ ظالم نے لوٹ ہی لیا، کیا تخیل تھا اور کیا ہی شاندار کرافٹنگ تھی اس کے پاس۔ میں نے دل ہی دل میں خود سے کہا

“شکر ہے یہ یہاں ہے نہیں ورنہ اس کا مقابلہ کیسے کرتا ؟”

میرا یہ تشکر کسی کام نہ آیا، ایک سال بعد اعجاز امت میں لوٹ آیا، یوں مجھے مزید محنت کا چیلنج درپیش ہوا جس کا مجھے زبردست فائدہ ہوا۔ اب یہاں ہم تین لوگ تھے جو زیادہ پڑھے جاتے تھے۔ رفیق افغان اور اعجاز تو بلا شبہ ادبی معیار پر ہی تھے جبکہ میرے پاس ادب کا معمولی سا ٹچ تھا سو قارئین ان دونوں کے ساتھ میرا نام بھی لے دیا کرتے تھے۔ رفیق افغان کی تحریر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ لکھتے ون پیس کالم ہیں اور پورا کالم “محاوروں” پر استوار ہوتا ہے۔ ان کے ایک ہی کالم میں بسا اوقات دو ڈھائی درجن محاورے بھی مل جاتے ہیں۔ اعجاز ون پیس تو نہیں لکھتے مگر ان کا تخیل بہت اعلی درجے کا ہے، وہ اپنے کالم میں ایک ماحول پیدا کرکے اس ماحول میں تخیل کے رنگ بھرنے شروع کردیتے ہیں اور اسلوب کہانی والا ہوتا ہے۔ شاعری اور لاطینی و رشین ادب کے حوالے ان کے کالم کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ میرا امت والا کالم “استعارے” پر استوار ہوتا تھا۔ جو کام رفیق افغان محاورے سے لیتے تھے وہی میں استعارے سے لیتا اور الفاظ کا انتخاب بہت ہی سوچ سمجھ کر کرتا کیونکہ شہر اردو کا اخبار تھا، یوں سمجھ لیجیے  کہ ہر لفظ کو دیکھ، سونگھ اور چکھ کر استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا۔ اس معاملے میں اپنے کالم “ممبئی” میں اپنی بساط کے مطابق آخری حد تک چلا گیا تھا۔ عام طور پر امت کا کالم تین گھنٹے لے لیتا تھا مگر ممبئی کو لکھنے پر ایک ہی مجلس میں بارہ گھنٹے اور تین تھرمس سبز چائے صرف ہوئی۔ اسے لکھتے ہوئے اعصاب چٹخ گئے تھے نتیجتاً  ایک ہفتے تک بخار میں مبتلا رہا۔

اعجاز سے پہلی ملاقات میں ہی دوستی ہوگئی مگر یہ دوستی زیادہ عرصہ چلی نہیں کیونکہ چند ہی ماہ میں یہ “یاری” کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ ایک شاندار یار ہے مگر رات ٹھیک آٹھ بجے کے بعد۔ اس سے قبل اس کرہ ارض پر اس سے زیادہ بور انسان شاید ہی کوئی ہو۔ وہ واحد شخص ہے جو ہر ملاقات میں میرے گال پر پپی کر ڈالتا سو اندازہ لگا لیجیے  کہ ہماری یاری کس درجے کی ہے۔

رفیق افغان کے متعلق بھی حامد میر کی طرح کئی چیزیں مشہور ہیں۔ اس ضمن میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ وہ اتنے ہی پارسا ہیں جتنے باقی صحافی ہیں اور اتنے ہی خطاکار ہیں جتنے باقی صحافی۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں دونوں کا ہی مجموعہ ہے۔ میرے خیال میں رفیق افغان کی خوبیاں ان کی خامیوں پر حاوی ہیں۔

ان میں اور حامد میر میں ایک دلچسپ فرق ہے۔ حامد میر جب ایڈیٹر تھے اپنے کسی ماتحت کو اپنے کمرے میں طلب نہ کرتے تھے بلکہ اس کے ڈیسک پر پہنچ جاتے۔ کمرے میں تب ہی بلاتے جب راز داری مطلوب ہوتی۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ ہر شخص جانتا تھا کہ ایڈیٹر کسی بھی وقت اس کے سر پر پہنچ سکتا ہے سو سب چوکس رہتے۔ اس کے برخلاف رفیق افغان اپنے اخبار کے شعبوں میں آخری بار شاید پانچ سو سال قبل مسیح میں گئے ہوں گے۔ وہ روز پوری پابندی کے ساتھ روزنامہ امت آتے ضرور ہیں مگر یہ آمد بس ان کے اپنے کمرے تک ہوتی ہے۔ ان کی کال بیل کو کسی مصروف مندر کی گھنٹی سے بھی زیادہ بجنا پڑتا ہے کیونکہ ہر شخص کو طلب کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ صحافت سیکھنے کے معاملے میں “امت” سے بہتر کوئی اخبار نہیں۔ رفیق افغان کسی کو اس کے حال پر نہیں چھوڑتے، ہر شخص کو خود ٹاسک دیتے ہیں اور نو آموزوں کو تو چار گنا دیتے ہیں اور کام میں کیڑے نکال نکال کر اسے ٹھیک کرکے لانے کا کہتے ہیں۔ جس نے امت کے کسی بھی شعبے میں تین سال گزار لئے وہ پاکستان کے کسی بھی بڑے اخبار میں اپنی مانگ پیدا کر سکتا ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply