نیکی کر دریا میں ڈال

کہتے ہیں کہ ایک دیندار اور غیرت مند انسان بیمار پڑ گیا کسی نے مشورہ دیا کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ وہ تمہیں گل قند دے گا جس سے تم تندرست ہو جاؤ گے مگر شرط یہ ہے کہ تمہیں اس سے گل قند مانگنی ہو گی۔ بیمار نے کہا میں اس تلخ کلام انسان سے کیسے کوئی چیز مانگ سکتا ہوں وہ جس ترش لہجے میں بات کرتا ہے اس سے تو بہتر ہے کہ انسان موت کی تلخی برداشت کرے۔عقلمند اور دیندار انسان ایسے شخص سے تو شکر کھانا بھی پسند نہیں کرتا جس کے چہرے سے غرور اور زبان سے ترشی ٹپکتی ہو۔۔۔اس حکایت میں کم ظرف انسان کا احسان مند ہونے سے روکا گیا ہے۔ ایسے انسان اول تو کسی کے ساتھ زندگی میں مروت اور بھلائی کرتے ہی نہیں اور اگر کبھی بھولے سے کوئی نیکی کسی کے ساتھ کر بھی لیں تو عمر بھر گردن پر سوار رہتے ہیں۔
بنی نوع انسان خطاؤں کا پتلا ہے اور روز مرہ زندگی میں ان کے سر زد ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی کتنا ہی پارسا کیوں نہ ہو وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا میں گناہوں، خطاؤں اور حماقتوں کا مرتکب نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوں گا۔عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ خطا کا یہ پتلا اپنی انا کو مات دیتے ہوئے اورحقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے اپنی کوتاہیوں ، غلطیوں کو تسلیم کرے، معافی مانگے اور آئندہ نہ کرنے کا قصد کرے۔ تسلیم کرنے اور جھک جانے سے قد چھوٹے نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں۔ تربیت کی عدم دستیابی جہاں بہت سے معاشرتی و اخلاقی مسائل اور برائیوں کو جنم دے رہی ہے وہیں آجکل نیکی کر کے جتانے والی بیماری کا بھی عام مشاہدہ ہے۔ بہت سے نیک اور عالم کہلائے جانے والے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ ذرا سی بات ہوئی نہیں اور لگے اپنے احسانات جتانے اور دنیا کو بتانے۔۔اگر انسان یہ سمجھے کہ میرا مال، جائیداد، جان، صحت سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ اور اس کی نعمتیں و رحمتیں ہیں تو کبھی بھی ایسے افعال کا مرتکب نہ ہو۔یہ سب کچھ دیا ہوا اسی ذات کا ہے اور اس میں میری محنت کا کوئی کمال نہیں لہذا اگر میں اس کے دیئے ہوئے میں سے مخلوق خدا کو کچھ دے دوں تو اس میں فخر کی کوئی بات نہیں۔اللہ تبارک کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے حاجت مند کو بھیج کر مجھے نیکیوں میں اضافے کا موقع دیا۔ کمزور اور لاچار انسان جو اپنے کسی بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں،اس کے منہ سے احسان جتانے والے الفاظ انتہائی کم علمی، کم ظرفی، جہالت و بے عقلی کا ثبوت ہیں۔
حضرت موسیٰؑ نے قارون کو نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی اسی طرح احسان کیا کر، قارون نے سنی ان سنی کر دی پھر فرمایا جس نے روپے پیسے سے بھلائی جمع نہیں کی اس نے روپے پیسے کے لیے اور دنیا کے لیے زندگی گزاری۔ پھر فرمایا: یاد رکھ سخاوت کر اور احسان نہ جتلا، تجھے یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کرم کا درخت جہاں اُگ آتا ہے اس کی شاخیں آسمان کی طرف جاتی ہیں، تو نے اس کا اگر پھل کھانا ہے تو احسان جتا کر کرم کے درخت کی جڑ نہ کاٹ، تجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تجھے بھلائی کی توفیق بخشی۔
نیکی کر دریا میں ڈال والی ضرب المثل تو ہر ایک کو یاد ہے لیکن اس پر عمل کرنا بھولا ہوا ہے۔ اگر آپ کے فعل سے کسی کا کام ہو جاتا ہے تو اسے اپنی سعادت مندی سمجھیں نہ کہ احسان جتا کر اپنی نیکی کو ضائع کریں۔ کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرکے اس کو یاد مت دلاؤ، نہ اپنا احسان اس پر جتاؤ، نہ اس سے اس کے شکریہ کے طالب ہو، نہ نمائش مقصود ہو کہ اس سے خود نیکی برباد ہو جاتی ہے۔ آپﷺ کو دوسری ہی وحی میں یہ نکتہ بتایا گیا، فرمایا “اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر” (مدثر،6)
دوسرے مقام پر ارشاد ہو تا ہے ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو‘‘ (بقرہ،264)
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے‘‘ (بقرہ، 262)۔
انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہو گی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہء تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب ، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبیﷺ کا فرمان ہے” قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا ، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے”(مسلم، کتاب الایمان)۔
پھر فرمایا کہ “ایسی خیرات سے تو معمولی سی نیکی بہتر ہے”۔ “نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیا ز اور بردبار ہے” (بقرہ، 262)-

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply