ہردن میرا دن ہے

ہر دن میرا دن ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اس بات کو مانتی ہوں۔۔عورت کمزور نہیں ہے نہ ہی کمزوری ہے۔
عورت کورشتوں میں بانٹا گیا ہے۔ ماں،بہن،بیوی،بیٹی اورمحبوبہ۔۔عورت کو حسین ترین کہا گیا ہےاور یہاں آکراسے کمزوربنادیا گیا اور کمزوری بھی۔۔اب کسی مرد کی غیرت کا اندازہ اس کے گھر کی عورت کے لباس سے لگایا جانے لگا اور کسی ایک عورت کی معمولی سی لغزش کا بھگتان نسلوں کو بھگتنا پڑا۔عورت کی صرف ایک کمزوری ہے۔۔۔محبت !جو وہ خود سے جُڑے رشتوں کو دیتی ہے۔ہاں فرائض کی ادائیگی عورت پر یکساں نافذ کی گئی وہیں اس کےحقوق سےچشم پوشی کی جانے لگی اور یوم خواتین کے نام پر ایک دن مخصوص کر کے اس کی اہمیت اجاگر کی جانے کی ایک کوشش کرکے درپردہ یہ بتایا جانے لگا کہ یوم انسان تو نہیں منایا جاسکتا مگر یوم خواتین منایا جا رہا ہےبالکل اسی طرح جیسے مخصوص لوگوں(special people)مزدروں، کچھ بیماریوں کے یا دیگر تمام ایام منائے جاتے ہیں۔۔لیکن ہر دن ہمارا دن ہے۔
ایک خاتون کسی کے یہ دریافت کرنے پر کہ آپ کیا کرتی ہیں ۔۔دبے ہوئے لہجے میں جواب کیوں دیتی ہے کہ کچھ نہیں،خاتونِ خانہ ہوں ؟۔۔۔وہ ایسا کیوں کہتی ہے ؟ گھر اور خاندان کی مکمل ذمہ داری نبھا کر سب کچھ کرنے کے بعد ایک جملہ اس کے حصے میں آتا ہے تم کرتی کیا ہو سارا دن۔۔ وہ شخص جو گھر سے باہر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دے کر آئے۔۔گھر آتے ہی دستر خوان پر کھانا ، صاف ستھرا آرام دہ گھر اور اعلی تربیت یافتہ بچے اس کی ڈیمانڈ ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ ہفتے میں ایک یا دو چھٹیوں کا مکمل آرام، بیماری میں، کسی موقع پریا خاص حالات میں مہینہ بھر کی چھٹی بھی اس کا حق سمجھی جاتی ہےجب کہ ایک خاتون خانہ چوبیس گھنٹوں کی سروس مہیا کرتی ہےشیر خوار بچوں کے لیے راتوں کو جاگنا، گھر کے کسی فرد کے بیمار ہونے کی صورت میں اس کی تیمارداری کرنا،صبح اٹھنے سے رات گئے تک گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی جس میں چھٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااس پر یہ کہ تم کرتی کیا ہو سارا دن۔۔
اس کے علاوہ وہ خواتین ہیں جو گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی خود کو فعال ثابت کرنا چاہتی ہیں تعلیم ان کا حق ہے تو اس تعلیم کی تکمیل کے بعد اسے استعمال میں لانا بھی اس کا حق ہے وہ جھکے ہوئے کندھے اور تھکے ہوئے وجود جب یہ گلہ کرتے ہیں کہ گھرداری کا سارا بوجھ ان کے سروں پر ہے اگر خواتین کے لیے بھی ماحول ساز گار ہو تو یہ بوجھ بانٹا جا سکتا ہے اور اس گِلے کو دور کیا جاسکتا ہےلیکن اس صورت میں خواتین کو دوہری پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاورباہر کام کرنا ان کا مشغلہ سمجھ لیا جاتا ہے۔تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین کو جن دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ مردوں کے اس معاشرے میں سروائیو کرنا ہے۔گھر سے باہر نکلنے والی خاتون کوتر نوالہ تصور کر لیا جاتا ہےان کی طرف لپکتی ہوئی زبانوں کو جب اپنی مرضی کی ہڈی حاصل نہیں ہوتی تو نوچنے اور بھنبھوڑنے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں ایسا کرنے والےاکثر وہی لوگ ہیں جن کے اپنے گھروں میں خواتین کی حیثیت محض چولہے سے بستر تک محدود ہوتی ہے جبکہ باشعور افراد کی موجودگی میں خواتین سہولت سے اپنا کام سر انجام دے سکتی ہیں ۔
ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر دو اکائیوں پر قائم ہے مرد اور عورت!
صحت مند پرسکون افراد ہی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں اس لیے آپس کی جنگ کو ختم کرکے دونوں کو اپنا اپنا کردار اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ادا کرنے کے مواقع میسر آنے چاہئیں چونکہ خواتین کے دن کو عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہےاس لیے اس دن کے لیے ایک خاص پیغام خواتین کے نام
پیاری عورت !
تم ہر دن فعال ہے ، ہر دن کارآمد ہو،یہ معاشرہ تمھارے دم سے ہے۔
ہردن تمھارا دن ہے!
ہردن میرا دن ہے!

Facebook Comments

ہمافلک
رائیٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply