• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برصغیر کی مذہبی اقلیتوں کے انتخابی نظام کا 1909 سے 2024 تک کا ارتقائی سفر/ اعظم معراج

برصغیر کی مذہبی اقلیتوں کے انتخابی نظام کا 1909 سے 2024 تک کا ارتقائی سفر/ اعظم معراج

جداگانہ انتخاب سے دوبارہ قومی شمولیت کی جستجو سے دوہرے ووٹ تک کا سفر

1. تمہید

برصغیر کی سیاسی تاریخ میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کا سفر ایک صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔
یہ کہانی محض انتخابی قوانین کی تبدیلی نہیں بلکہ شناخت، شمولیت اور انصاف کی تلاش کی داستان ہے۔
یہ سفر 1909 میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کے آغاز سے شروع ہوا اور آج 2024 میں دوہری شراکت کے مطالبے تک جا پہنچا ہے۔
یہ دراصل اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہے کہ اقلیتیں قومی دھارے میں کیسے شریک رہیں اور اپنی شناخت بھی کیسے برقرار رکھ سکیں؟

2. 1909 — مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا آغاز

1909 کے Indian Councils Act جسے Morley–Minto Reforms کہا جاتا ہے، نے پہلی بار مسلمانوں کو جداگانہ انتخابی حق (Separate Electorate) دیا۔
یہ اس وقت کے مسلم رہنماؤں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ چونکہ وہ آبادی میں اقلیت ہیں، اس لیے اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔
یوں ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں مذہبی بنیاد پر علیحدہ انتخاب کا تصور جنم لیا۔

3. 1919 — دیگر اقلیتوں کی شمولیت کا راستہ

Montagu–Chelmsford Reforms (1919) نے جداگانہ انتخابی تصور کو مزید وسعت دی۔
اب نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذہبی گروہوں جیسے سکھ، عیسائی، اینگلو انڈین، پارسی وغیرہ کو بھی نمائندگی کے خصوصی مواقع ملنے لگے۔
البتہ شیڈول کاسٹ (Depressed Classes) ابھی تک ہندو معاشرے کا حصہ تصور کی جاتی تھی،
اس لیے انہیں علیحدہ اقلیت تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔

4. 1932 — کمیونیل ایوارڈ اور “دوہرا ووٹ” کا ظہور

1932 میں برطانوی وزیرِاعظم رامزے میکڈونلڈ نے Communal Award جاری کیا۔
یہ قانون برصغیر کے انتخابی ارتقاء میں سنگِ میل ثابت ہوا۔
اس کے تحت پہلی بار تمام مذہبی و سماجی اقلیتوں کو نمائندگی کے واضح اصولوں کے ساتھ مخصوص نشستیں دی گئیں۔

اس ایوارڈ کے مطابق:

مسلمانوں کے لیے پہلے سے موجود جداگانہ انتخابی نظام (Separate Electorate) برقرار رکھا گیا۔

دیگر اقلیتوں — جن میں عیسائی، اینگلو انڈین، پارسی، سکھ، یورپین، بدھسٹ اور بہائی شامل تھے — کو دوہرا ووٹ (Dual Franchise) دیا گیا۔
یعنی وہ ایک ووٹ اپنی برادری کے نمائندے کو اور دوسرا ووٹ عام (General) امیدوار کو دے سکتے تھے۔

Depressed Classes کو بھی یہی حق دیا گیا، مگر گاندھی جی کے “مرن بھرت” کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر نے پونا پیکٹ (Poona Pact) کے تحت
یہ حق واپس لے کر صرف reserved seats پر سمجھوتہ کیا۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے بعد ازاں کئی مواقع پر افسوس کا اظہار کیا:

“اگر ہمیں دوہرا ووٹ برقرار رکھنے دیا جاتا، تو ایک ووٹ ہماری شناخت بنتا اور دوسرا ہماری طاقت۔”

5. 1937 اور 1946 — دوہرا ووٹ اور جداگانہ انتخاب کا ملا جلا منظر

Government of India Act 1935 کے تحت دو انتخابات (1937 اور 1946) ہوئے۔
ان انتخابات میں اقلیتوں کی نمائندگی کے دو مختلف ماڈل ایک ساتھ موجود تھے:

مسلمانوں نے علیحدہ انتخابی فہرستوں میں حصہ لیا، یعنی انہیں صرف اپنی برادری کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی اجازت تھی۔

دیگر مذہبی اقلیتوں (عیسائی، اینگلو انڈین، پارسی، سکھ، یورپین، بدھسٹ وغیرہ) کو دوہرا ووٹ حاصل رہا
ایک اپنی برادری کے امیدوار کے لیے اور دوسرا عام نشست کے امیدوار کے لیے۔

1946 کے انتخابات انہی قوانین کے تحت ہوئے،
اور انہی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی صوبائی اسمبلیوں نے پاکستان کی قیام کی قرارداد منظور کی۔
یوں بلاواسطہ دوہری نمائندگی کے اس ڈھانچے کے ذریعے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی۔

6. 1947 تا 1977 — جداگانہ انتخاب، احتجاج اور بلاواسطہ نمائندگی

قیامِ پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی اسی جداگانہ انتخابی نظام کے تحت بنی،
جس پر اقلیتی اراکین نے بارہا احتجاج کیا کہ یہ نظام انہیں قومی سیاست سے دور کر دیتا ہے۔

بعد کی تین اسمبلیاں مخلوط انتخابی نظام (Joint Electorate) کے تحت بنیں،
مگر ان میں صرف ایک ہی اقلیتی رکن منتخب ہو سکا۔
نتیجتاً اقلیتوں نے بھرپور احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں 21 نومبر 1975 کو
چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے اقلیتوں کو بلاواسطہ نمائندگی (inDirect Representation) کا حق دیا گیا۔
1977 کے انتخابات اسی نظام کے تحت ہوئے۔

7. 1985 تا 1997 — ضیاء الحق کا “پسماندہ” قدم

مارشل لا کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 1909 والا جداگانہ انتخابی نظام دوبارہ نافذ کر دیا۔
یہ اقدام اقلیتوں کے لیے سیاسی تنہائی کا باعث بنا۔
اس نظام کے تحت ہونے والے پانچ عام انتخابات (1985، 1988، 1990، 1993، 1997) میں
اقلیتی نمائندے صرف اپنی برادریوں کے اندر محدود رہے۔
یوں وہ قومی دھارے سے کٹ کر ایک بار پھر “سیاسی اچھوت” بن گئے۔

8. 2002 تا 2024 — بحالیِ شمولیت اور موجودہ نظام

جنرل پرویز مشرف کے دور میں اقلیتی رہنماؤں،
خصوصاً مسیحی قیادت کے اصرار پر
1975 والا بلاواسطہ نمائندگی کا نظام دوبارہ بحال کیا گیا۔
2002 سے لے کر 2024 تک ہونے والے تمام انتخابات اسی Joint Electorate کے تحت منعقد ہوئے۔
اگرچہ اس سے اقلیتوں کی قومی سیاست میں شرکت ممکن ہوئی،
مگر نمائندگی کا انتخاب اب بھی سیاسی اشرافیہ کی صوابدید پر منحصر ہے۔

9. ایک صدی کا انتخابی سفر

1909 سے 1946 تک برطانوی ہندوستان میں 4بڑے انتخابات ہوئے،
جبکہ 1947 سے 2024 تک پاکستان میں 16 عام انتخابات منعقد ہوئے۔
یوں کل 22 انتخابی ادوار میں اقلیتوں کے لیے نمائندگی کے پانچ مختلف ماڈل آزمائے گئے
مگر کوئی بھی ایسا نظام نہ بن سکا جو شناخت، شمولیت اور مساوات تینوں کو بیک وقت یقینی بناتا۔

10. دوہرا ووٹ — شناخت اور شمولیت کا متوازن ماڈل

تحریکِ شناخت نے اس پورے ارتقائی سفر کے تجربات اور معاشرتی رویوں کا تجزیہ کرتے ہوئے
اقلیتوں کے لیے دوہرا ووٹ (Dual Vote) کا نظام تجویز کیا ہے۔
اس نظام میں ہر اقلیتی ووٹر کو:

ایک ووٹ اپنی برادری کے نمائندے کے لیے (تاکہ اس کی شناخت برقرار رہے)،

اور دوسرا ووٹ عام امیدوار کے لیے (تاکہ وہ قومی سیاست میں شریک رہے)
دیا جائے۔

یوں ایک ووٹ اس کی شناخت ہوگا اور دوسرا اس کی قومی طاقت۔

11. بلاواسطہ نمائندگی — خوبی اور خامی

بلاواسطہ نمائندگی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ
یہ اقلیتوں کو قومی سیاست کا حصہ بنائے رکھتی ہے۔
لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ
اقلیتی نشستوں پر آنے والے نمائندے عموماً سیاسی جماعتوں کے چنے ہوئے امیدوار ہوتے ہیں،
نہ کہ اپنی برادری کی آزاد مرضی کے نمائندے۔

12. نتیجہ

ایک صدی پر محیط یہ انتخابی سفر اس حقیقت کا مظہر ہے
کہ نہ مکمل علیحدگی (Separate Electorate) اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کر سکی،
اور نہ مکمل اختلاط (Joint Electorate) انہیں بااختیار بنا سکا۔ نہ ہی بلاواسطہ مذہبی شناخت والی نمائندگی سے انکی تسلی ہوئی۔
برصغیر کی انتخابی تاریخ بتاتی ہے ۔کہ
دوہرا ووٹ — وہی نظام جو 1932 کے کمیونیل ایوارڈ میں غیر مسلم اقلیتوں کو حاصل تھا
ہی ایسا متوازن راستہ ہے جو اقلیتوں کو
ایک طرف قومی سیاست میں شریک رکھ سکتا ہے
اور دوسری طرف ان کی مذہبی شناخت کا تحفظ بھی کر سکتا ہے۔

   تاریخی و علمی حوالہ جات

1. The Indian Councils Act 1909 (Morley–Minto Reforms)

2. Montagu–Chelmsford Reforms 1919

3. Communal Award 1932 — Cmd. 4147, British Parliamentary Papers

4. Government of India Act 1935, Sections 19–25 & 296

5. Poona Pact 1932 — Gandhi–Ambedkar Agreement

6. Judith Brown, Modern India: The Origins of the Nation 1870–1947, Oxford University Press

7. Granville Austin, The Indian Constitution: Cornerstone of a Nation, 1966

8. B. R. Ambedkar, What Congress and Gandhi Have Done to the Untouchables, 1945

9. اعظم معراج، یوں آئے گی جمہوریت، تحریک شناخت پبلیکیشن، 2021

julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply