جنسی تخیلات کو نفسیات میں سمجھنے کے لیے سائیکوانالیسس (psychoanalysis ) سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ انسانی نفسیات کی دنیا کے وہ حصے جہاں عموماً نفسیات دان جانے سے گرہیز کرتے ہیں، جہاں ٹیبو اور گھناؤنا پن ہوتا ہے، وہاں گھپ اندھیروں اور گدلے پانی میں صرف سائیکوانالیسس کی روشنی اور دانش کام آتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مذاہب اور فلسفوں کے ذریعے سیکس کو سمجھنا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آج ہم جنسی تخیلات، خواہشات اور جنسیت پر بات کریں گے۔
سائیکوانالسٹ گیلیٹ اٹلس کہتی ہیں کہ سیکس ہر جگہ ہر چیز میں موجود ہے، سیکس سے منسلک کسی چیز کی جھلک یا معمولی بات بھی آپ کے دماغ میں موجود اس سب سے طاقتور جبلت کو فورا سے اجاگر کردیتی ہے (بہت ممکن ہے کہ یہ آرٹیکل بھی ٹریگر کرے جو کہ گیلیٹ کے بیان کی تصدیق کرے گا) ۔
آپ کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ اپنی جنسی تخیلات، خواہشات اور جنسیت کو سمجھ کر آپ خود پر کتنا بڑا احسان کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں سمجھنا کیوں ضروری ہے اور اس سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟
جنسی تخیلات (sexual fantasies) کو سمجھنے کے لیے ہم ڈاکٹر اسٹینلے سیگل کے پیش کردہ تصور کا استعمال کریں گے جسے وہ “انٹیلیجنٹ لسٹ“ (Intelligent Lust) کہتے ہیں، جس میں آپ اپنی لسٹ اور جنسی تخیلات کو سمجھ کر اس کی گہرائی میں موجود معنی، وجوہات اور مقصد تلاش کرتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر سیگل کے ”مائنڈ-لیس لسٹ“ (Mindless Lust) آپ کو نہ صرف نقصان دے سکتی ہے بلکہ سیکس کے ذریعے جو جذباتی درد اور ٹروما آپ شفایاب کرکے ذہنی و نفسیاتی نشونما حاصل کرسکتے تھے وہ نہیں کر پائیں گے۔
آپ کا کوئی بھی خیال یونہی وجود میں نہیں آتا اس لیے اپنی ہوس کی گہرائی میں ماضی کے چھپے درد کو ڈھونڈنا اور سمجھنا ضروری ہے۔
جان لیہر کا ایک مشہور قول ہے کہ “درد سے بھاگنے کی خواہش سب سے طاقتور جبلت ہے“، سائیکو انالیسس کے نظریات بھی ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ بچپن میں ملنے والا درد، ٹروما، جذباتی ضروریات کا پورا نہ ہونا، بالغ ہوکر جنسی تخیلات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ میں جب بھی کسی کلائنٹ کی جنسیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں تو آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بھی کلائنٹ کی جنسی تخیلات کا تعلق اس کے بچپن میں ہونے والے واقعات سے نہ ہو۔
مثال کے طور پر ایک لڑکی جس کو والدین سے توجہ نہیں ملی، اس کے جذبات سامنے ہوکر بھی پوشیدہ رہے، وہ اپنی جنسی تخیلات میں کئی لڑکوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے، وہ سب ہی اسکو چاہتے ہیں، اس کے دیوانے ہیں، بس اسے ہی دیکھتے ہیں۔
ایسے ہی ایک عورت جو اپنی جنسیت سے لاتعلق ہے شیم اور ٹروما کی وجہ سے، اسے جنسی زیادتی (rape fantasies) کے خیالات آتے ہیں جس سے اسے پلیژر ملتا ہے۔ اس کے جذبات لاشعوری طور پر دبے (repressed feelings) ہوئے ہیں۔ وہ شدت سے جنسی تعلقات بنانا چاہتی ہے لیکن چونکہ گھر میں سیکھا کہ یہ سرگرمی بہت گندا اور غلط عمل ہے اس لیے اسکی فینٹسی میں کوئی اجنبی آکر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے جس سے اسکی جنسی خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے اور وہ اس سرگرمی میں شامل بھی نہیں تھی اس لیے وہ ایک گنہگار عورت نہیں۔ لیکن اپنی ہی فینٹسی اسے گہرے شیم میں لے جاتی ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچتی ہے۔
بلکل اسی طرح ایک جناب جو کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایک شریف، امن پسند اور ذمہ دار انسان ہیں لیکن انکی جنسی تخیلات میں وہ جنسی تشدد کرتے ہیں، انکی جنسی تخیلات میں بی-ڈی-ایس-ایم (BDSM) شامل ہے، ان جناب کا بچپن تکالیف میں گزرا، والد چھوٹی عمر میں وفات پاگئے تھے، والدہ غصہ کی تیز اور حاکمانہ شخصیت کی تھیں، بچپن میں غصہ کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں تھی تبھی اس کمزوری اور بےبسی کے احساس نے بالغ ہوکر جنسی تشدد اور جنسی غلبہ کی شکل اختیار کرلی۔
ایک نوجوان لڑکا جسکی ماں بچپن میں گزر گئی جب وہ محض چار سال کا تھا والد سے محبت نہ ملی، وہ ایسی لڑکیوں سے جنسی تعلق بناتا ہے جنکا جسم ایک مخصوص بناوٹ کا ہو جیسے شادی شدہ اور بچوں کی ماں کا ہوتا ہے، جس میں ایک ممتا والا احساس ہوتا ہے۔ لاشعوری طور پر اس کے دماغ نے ماں نہ ہونے والے درد کو سیکشول فینٹسی میں تبدیل کردیا۔
ایک شدید مذہبی گھرانے کی لڑکی جسے بچپن میں گالی دینے اور لہجہ صحیح رکھنے پر سخت سزائیں ملتی تھیں، اپنی جنسی تخیلات میں انکا خیالی بوائے فرینڈ (یا جس کسی لڑکے کو بھی وہ فینٹسائز کریں) ان سے بہت توہین آمیز لہجہ میں فحش گفتگو (dirty talk) کرتا ہے اور اس سے انہیں شدید پلیژر ملتا ہے۔ اس پر انہیں انتہائی شرمندگی تھی کہ وہ کیوں ایسا سوچتی ہیں۔
ایک کٹر مذہبی گھرانے کا لڑکا جو انتہائی شریف اور فرمانبردار ہے، والد کی وفات کے بعد ماں کا واحد سہارا ہے، زندگی صرف ذمہ داریوں اور تکلیف میں گزری لیکن وہ اکیلے میں اس قسم کے سیکس کے متعلق سوچتا ہے جو اسکے مذہب میں ممنوع ہے (Anal Sex) جس سے اسے پلیژر ملتا ہے۔ اسکی جنسی تخیلات اس کو مزید شیم اور ذہنی اذیت میں لے جاتی ہیں کہ وہ اتنا گھٹیا کیسے سوچ سکتا ہے۔
ان تمام کیس میں دماغ نے بچپن میں ملنے والی تکالیف، پابندیاں، جذباتی ضروریات کا پورا نہ ہونا، محرومیاں، درد، ٹروما کو جنسی تخیلات میں تبدیل کردیا کیونکہ دماغ کا طریقہ کار (mechanism) اور فعل ہے کہ وہ درد کو کم کرے گا، اسکو سیکشول فینٹسی میں تبدیل کرکے، نشہ، خواب بینی (daydreaming)، کسی بھی لت یا پھر فرار سے کام لے کر۔
بچپن میں بچے جب بالغوں کی دنیا میں بے بس اور معمولی محسوس کرتے ہیں تو اکثر اس بےبسی سے نمٹنے کے لیے سوپر ہیروز کی فینٹسی میں رہتے ہیں اور خود کو ذہن میں سوپر ہیرو تصور بھی کرتے ہیں بلکل اسی طرح بالغ ہوکر ہماری محرومیاں اور دردسیکشول فینٹسیز کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ایسے لاتعداد کیس پر بات کی جاسکتی ہے، البتہ آپ کو اپنی ہوس کو عقلمندی سے سمجھنا ہوگا تاکہ بہتر طور پر خود-آگاہی حاصل کرسکیں۔ آپ کی جنسی تخیلات منفرد ہوسکتی ہیں اور انکی تہہ میں موجود وجوہات بھی۔
سب سے پہلے تو اپنی جنسی تخیلات کی شناخت کرنی ہوگی اور پھر سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا ہے جو آپ کو جنسی طور پر اکساتا اور ایکسائیٹڈ کرتا ہے، آج سے پہلے آپ رازداری اور شیم میں تھے کہ شاید یہ سب دماغ کا فطور اور گھٹیا سوچیں ہیں لیکن اب آپ کو انہیں ایک الگ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ جنسی خواہشات یا تخیلات کا گہرا تعلق بچپن سے ہے۔ ان خواہشات اور تخیلات کی گہرائی میں معنی اور مقصد ہے جسے جاننا شفایابی اور نشونما کے لیے ضروری ہے۔
آپ چاہیں تو کسی تھراپسٹ جو سائیکوانالیسس میں تجربہ رکھتے ہوں یا اسے سمجھتے ہوں، کی مدد سے بھی کھوج لگا سکتے ہیں کیونکہ اس عمل سے گزرنے کے لیےنفسیات کی معلومات ہونا ضروری ہے۔ البتہ آپ چاہیں تو نفسیات پر کتابیں پڑھ کر خود کو تعلیم دے کر اپنی تخیلات اور خواہشات کو سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سیگل شدہ شادی جوڑوں (اکثر غیر شادی شدہ لوگ بھی) کو انکی جنسی تخیلات کی تہہ میں موجود جذباتی ضروریات اور ٹروما کوسمجھنے میں مدد کرتے ہیں کپل تھراپی میں، کیونکہ جب آپ اپنے رشتے کی بنیاد، جس میں آپ کا جنسی تعلق بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کو سمجھتے ہیں تو اس سے رشتے میں مضبوطی آتی ہے، آپ کا پارٹنر بھی آپ کی طرح چھپ کر کئی سیکشول فینٹسیز کو دبائے بیٹھا ہوتا ہے، کیونکہ ٹروما یا درد بہت ممکن ہے کہ اسے بھی ملا ہو۔
اگر ٹروما نہ بھی ہو تب بھی بچپن میں جذباتی ضروریات کا پورا نہ ہونا جنسی تخیلات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کسی اچھےتھراپسٹ کی مدد سے آپ دونوں (یا پھر آپ اکیلے بھی) اپنی تخیلات کو سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں۔ یہ بہت نازک اور خطرے سے بھرپور کام ہوتا ہے کیونکہ اگر دونوں پارٹنر جذباتی طور پر بالغ نہیں یا پھر دونوں کے درمیان تلخیاں ہیں، انا بڑی ہے، تو پھر کپل تھراپسٹ زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر آپ خود بھی اس عمل کو انجام دے سکتے ہیں۔
جب آپ اپنی لسٹ اور اس میں پوشیدہ معنی اور مقصد کو سمجھنے لگتے ہیں تو اپنے پارٹنر کے ساتھ بہتر جنسی تعلق قائم کرنے لگتے ہیں، ڈاکٹر سیگل اسے ”اسمارٹ سیکس“ (smart sex) کہتے ہیں۔
انٹیلیجنٹ لسٹ اور مائنڈ-لیس لسٹ کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جب آپ مائنڈ-لیس ہوکر اپنی کسی جنسی خواہش کو پورا کرتے ہیں تو اس بنا سوچے سمجھے عمل (impulsive act) کے کئ نقصانات سہنے پڑ سکتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ وہ سیکس نشو نما اور شفایابی کی بجائے مزید اذیت کا باعث بن جائے۔ اکثر مائنڈ-لیس لسٹ میں چونکہ آپ کو اپنی فینٹسیز کی گہرائی میں انکا حقیقی مطلب معلوم نہیں ہوتا اور آپ سطحی احساسات کی بنیاد پر فیصلے لیتے ہیں جس کی وجہ سے آپ اس حلقہ (loop) میں پھنس جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ آپ مزید خالی پن محسوس کرنے لگتے ہیں۔
سیکس میں آپ کے ٹروما اور جذباتی محرومیوں کو شفایاب کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ محرومیاں جنہوں نے بچپن میں جنم لیا، اور پھر ان محرومیوں نے جنسی تخیلات کی شکل اختیار کی، انہیں ختم کرنے کا موقع آپ کو گہرے قریبی جنسی تعلق میں ملتا ہے جو یقیناً آپ کے پارٹنر کے ساتھ بنتا ہے۔ آپ کی بڑھتی ہوئی خود-آگاہی آپ کو محض اچھا جنسی تعلق بنانے میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف پہلو میں مدد کرسکتی ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں